آج کی عورت
از قلم : شنیلہ جبین زاہدی
مذہبی اسکالرہ
بارسلونا اسپین
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
جیسے جیسے وقت کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے توں توں اس میں جدت آتی جا رہی ہے انسان زمین کو چھوڑ کے سوئے افلاک گامزن ہے ۔ نت نئی ایجادات کرکے کائنات کو تسخیر کرنے کے درپئے ہے اور بہت حد تک اس میں کامیاب بھی ہو چکا ہے ۔ سمندر کی تہوں میں موجود خدائی مخلوق بھی حضرت انسان کے زیر عتاب ہے اور فلک کا چاند بھی محو حیرت ہے کہ انسان کے آخر ارادے کیا ہیں۔ لیکن بڑی تکلیف سے چند افکار آپ تمام قارئین کے سامنے رکھنا چاہوں گی کہ آئے روز نت نئی ایجادات کے انبار تو لگتے جا رہے ہیں ہر چیز بہتر سے بہترین کی طرف سفر کرتی دکھائی دے رہی ہے لیکن انسانی اخلاقیات کی دھجیاں کیوں اڑتی جا رہی ہیں ؟
اس میں بجائے بہتری آنے کے ، دن بدن گراوٹ کا شکار ہوتی جا رہی ہے ۔
ابھی کچھ دن بعد 8 مارچ کے دن کا ایک نیا فتنہ عورت کے دن کے حوالے سے پیش کیا جائیگا ۔ چند الٹرا ماڈرن خواتین مائیک پہ سوشل میڈیا کے سامنے عورت کی مظلومیت کو ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کریں گی اور مرد کو ایک ظالم و جابر جانور کے طور پہ پیش کریں گی ۔ امریکہ ، یورپ، اور مشرق بعید کی رپورٹوں کے حوالے دیں گی ۔ ملک پاکستان اور مسلمان خواتین کا ذکر کریں گی جو مختلف حالات کا شکار رہیں اور بالآخر موت کی ابدی نیند سو گئیں ۔ حقوق نسواں کا علم بلند کرنے والی یہ چند خواتین مسلمان عورت کا مقابلہ مس یورپ اور مس یونیورس سے کریں گی ۔ لیکن ان کانفرنس ہالوں کے اندر کوئی بھی خاتون اس کائنات کی عظیم عورت سیدہ النساء فاطمہ بنت محمدﷺ کا ذکر نہیں کریگی ۔ جن کا بچپن تمام عالم کی بیٹیوں کے بچپن سے جدا تھا جو اوائل عمر میں عالم اسلام کے سب سے عظیم سالار جناب محمد ﷺ کے زخموں پہ مرہم لگاتی جاتیں اور ہمت بندھاتی جاتی تھیں۔ جب جوان ہوئیں تو اس دور کے شجاعت اور بہادری کے پیکر علی بن ابی طالب کو ذرہ بکتر پہناتی تھیں اور جب ماں بنیں تو کائنات کے رنگوں کو سوز بخشنے والے اور ملت اسلامیہ کی جمعیت کو برقرار رکھنے والوں کی پرورش کی ۔ جنکو دنیا حسن و حسین کے نام سے جانتی ہے ۔ جنہوں نے عورت ہونے کا حق ادا کردیا ، جہنوں نے زندگی سے ، وقت سے ، معاشرے سے کچھ بھی نہیں مانگا ، بلکہ عالم اسلام اور قیامت تک آنے والی تمام خواتین کےلئے ایک راہ روشن کر دی کہ جو بھی اس راستے کو اختیار کریگی ، کامیابی و کامرانی اس کا مقدر بن جائیگی ۔
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
پھران سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا کوئی ایک دن بتائیں گی جو عورت کے بغیر ہو ؟
جب خالق کائنات نے اس کرہ ارض کو سجانا چاہا تو اس میں مرد کے ساتھ ہی عورت کی تخلیق فرمائی اور پھر واضح کر دیا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کےلئے لازم و ملزوم ہیں۔ پھر مرد کو اس کا محافظ و نگران مقرر کر دیا ۔ جہاں مردوں نے خدا کی طرف سے اس چاکری کو قبول کیا اور اس کو احسن طریقے سے نبھایا بھی ، وہاں چند ایسے مرد بھی پیدا ہوگئے جنہوں نے عورت کو پیر کی جوتی سمجھا اور عورت کی تذلیل کی ، وہ یہ بات بھول گئے
کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کے روپ میں بیٹی کے مقام کو کچھ اس طرح واضح کیا کہ بیٹی باعث تسکین ہے ، بیٹی راحت ہے ۔ ماں کے مقام کو ایسے واضح کیا کہ عرش بریں سے کھنچ کے جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے رکھ دیا ۔ بیوی کے حقوق کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ گھریلو معاملات میں ان کا ہاتھ بٹایا ۔ گلی میں کوڑھا کرکٹ پھینکنے والی بوڑھی عورت کے گھر کو بھی صاف کیا اور بیمار ہونے پہ دلجوئی بھی کی ۔ اسلام اور داعی اسلام نے عورت کی عزت کرکے دکھا دی اور مقام عطا کرکے دنیائے اسلام کو بتا دیا کہ یہ خدا کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے ۔
وہیں چند رذیل ایسے بھی آگئے جنہوں نے عورت کی بے حرمتی بھی کی ۔ لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ تمام مردوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا جائے ۔ یہ بات سچ ہے کہ مردوں کی برتری کے اس معاشرے میں آج عورت کو وہ مقام حاصل نہیں جو حضرت” ابو بکر و عمر سے لے کر عثمان و علی ” کے ادوار میں حاصل تھا ۔ لیکن اس کے باوجود یہ بات بھی واجب التسلیم ہے کہ جو عزت و تکریم مسلم عورت کو حاصل ہے وہ عزت و محبت یورپ کی عورت کو شاید آج سے ہزار سال بعد بھی نصیب نہ ہو ۔ آج بھی مسلمان عورت کو دیکھ کے غیرت مند اپنی نظریں نیچی کر لیتے ہیں ، آج بھی لوگ طلاق دینے اور گالی گلوچ کرنے والے کو اپنے پاس نہیں بٹھاتے ۔ لفظ بھائی سن کے آج بھی مردوں کی آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ ہمارے گھروں میں آج بھی بوڑھی ماؤں، دادیوں، نانیوں کو ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ آج بھی مسلمان عورت اتنی ہی محفوظ ہے جتنی کہ یورپ کے بے حیا معاشرے میں کبھی نہیں ہوگی ۔ کیونکہ یہاں یورپ میں عورت کو ماں ، بہن ، یا بیٹی کا کوئی مقام حاصل نہیں، یہاں عورت صرف ایک پارٹنر ہے ۔
محترم قارئین ! آج اس پر فتن دور میں اپنی خواتین کو پہلے اسلام کی تعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے جسکی شمع نے اس عالم کو مہکایا تھا اور بیٹی کو وہ عزت و مقام عطا کیا تھا جو اسلام سے قبل اس کو حاصل نہیں تھا ۔ آج بھی اگر اسلام کا پیرہن چھوڑ کر یورپ کی تقلید کریں گی تو یہ اپنا مقام اور وقار خود گرائیں گی ۔ اس سوچ کو پھر سے اجاگر کرنا ہوگا کہ آج وہ تاریخ ساز ہستیاں کیوں پیدا نہیں ہو رہیں جنکو دنیا “خالد بن ولید ، عمر بن خطاب ، طارق بن زیاد ، صلاح الدین ایوبی، ” کے نام سے جانتی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ جن ماؤں کی کوکھ سے انہوں نے جنم لیا تھا وہ اب ناپید ہو چکی ہیں۔
مجھے آج بھی یاد آتے ہیں اس دور کے بہترین مرد صوفی باصفا ، جنہوں نے ایک ایسی ماں کی گود سے تربیت پائی جسکی مثال نہیں ملتی ، جنکی ماں نوالہ دیتے ہوئے بسم اللہ سے ابتدا کرتی تھیں اور الحمد للہ پہ اختتام ، پھر وقت کی نبض پہ ہاتھ رکھ کے اس انسان نے ایسی دنیا آباد کی ، جس میں اسلام کی کرنیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہیں ۔ بوکن شریف گجرات کی دھرتی اس بات کی گواہ ہے کہ زاہد صدیق شاہ بخاری نے اسلام کا علم اس مضبوطی کے ساتھ پکڑا کہ آج اس کے علم کے نیچے سینکڑوں نہین ہزراوں اسلام کے بیٹے اور بیٹیاں اسلام کی تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں ۔ جنہوں نے پہلا سبق اپنی بیٹیوں کو یہ دیا کہ
” تمہاری آئیڈیل سیدہ فاطمہ الزہراء کی ذات ہونی چاہیئے ” ۔
“شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں”
لیکن یہ سبق ہر بیٹی کو نہیں مل سکا ، آج جدھر دیکھو میر جعفر اور میر صادق کی پیداوار عام ہے ۔ آج ہماری خواتین کو صرف ماڈرن نظر آنے کی دوڑ نے اسلام کی تعلیم سے کوسوں دور کر دیا ہے ۔ آج مسلمان عورتوں کے دلوں میں تعلیمات اسلامی کی روح مردہ ہوچکی ہے ، جس سے آنے والی نسلوں کی بھی تباہی کا خطرہ لاحق ہے ۔ آئیے اپنی بیٹیوں اور خواتین کو آشنائے اسلام کریں، تاکہ یہ معاشرہ ایک پر امن معاشرے کے طور پہ ابھرے ۔
عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں
اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں
*************