Aina jo apko eman dikha sakta hai article by Qamar Un Nisa Qamar

articles

تحریر: قمرالنساء قمر

آئینہ جو آپ کو ایمان  دیکھا  سکتا ہے

  آپ یقیناً حیران ہو رہے ہوں گے کہ آئینہ تو ظاہر دیکھاتا ہے۔ یہ کیسا آئینہ ہے جو حالت ایمان دیکھا دیتا ہے۔تو آئیے خود دیکھ لیجئے ایک سادہ سا جائزہ ہے۔ امید ہے ایمان کی رمق رکھنے والے اس حدیث پاک کے آئینے میں بڑا واضح دیکھیں گے۔ یاد رہے اگر کسی کو آئینہ میں دھندلا نظر آئیں تو نقص آئینے میں نہیں ہوتا نظر میں ہوتا ہے۔

                     بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔ Sahih Bukhari#14
       
           اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہم سب  اپنے ایمان کا جائزہ خود لیتے ہیں۔ یعنی یہ حدیث مبارکہ ایک کسوٹی ہے جس سے ہم اپنے ایمان کا حال جان سکتے ہیں۔وہ کیسے۔جی بڑا سادہ سا جائزہ ہے۔ دیکھیں اگر ہم خود کو ایسی حالت میں پاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے مال اپنی جان اپنے والدین اور اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب ہیں۔تو ایسے شخص کو رب کائنات کا بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے کہ وہ ایمان کی بہترین حالت پر ہے۔ اور ایمان کی سلامتی کی دعا بھی کرنی چاہئے۔

      لیکن اگر وہ خود کو اس حال میں نہیں پاتا تو اسے رب کریم سے ایمان مانگنا چاہئے۔ اور ایمان کی حفاظت کی دعا کرنی چاہئے۔
      کروں تیرے نام پے جاں فدا ناں بس ایک جاں
      دو جہاں فدا دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا
                    کروں  کیا  کروڑوں  جہاں  نہیں
  

                    اب یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ کچھ لوگ  صحیح سمجھ نہ سکیں یا کچھ لوگ ایک لمحہ سوچیں اور آرام سے کہہ دیں کہ ہاں مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی جان والدین اور اولاد سے بڑھ کر عزیز ہیں۔
      
          لیکن ضروری نہیں ان کا یہ خیال درست ہو،قول فعل کے بنا معتبر نہیں ہوتا تو  ہم اس قول کی صداقت کا جائزہ بھی فعل یعنی عمل سے لیں گے۔ اب اس بات کا جائزہ لینے کے لئے بھی ایک کسوٹی حاضر ہے۔ یہ مثال صرف سمجھنے کے لئے ہے ورنہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس سے ورا الورا ہے۔ یہ مثالیں ہرگز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے لائق نہیں مگر صد کروڑ افسوس نام نہاد مسلمانوں پر جن کے ایمان بچانے کی فکر میں ایسی مثال بھی دینی پڑی۔
 
           جب آپ کی اپنی ذات پر آپ کے والدین یا آپ کے بچوں پر کوئی بہتان لگاتا ان کی تذلیل کرتا ان کو تکلیف دیتا ان کی طرف انگلی اٹھاتا تو آپ جس طرح سے تڑپ جاتے ہیں غیض و غضب کا شکار ہو جاتے ہیں۔اور آپ کا بس نہیں چل رہا ہوتا کہ آپ کیا کر دیں۔ لیکن جس کا  جتنا بس چلتا ہے وہ اس سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس وقت آپ کو کوئی بتاتا نہیں کہ اب آپ نے کیا کرنا ہے۔کون سا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔

         ایسے وقت میں جزبات کی جو شدت ہوتی ہے۔ اور انسان کی جو کیفیات ہوتی ہیں اس سے ہر کوئی آگاہ ہے۔اس بات کی روشنی میں دیکھیں کہ کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی طرف انگلی اٹھانے کی کوئی ناپاک جسارت کرتا ہے۔ (جیسے ماضی میں ہوتا رہا ہے،یا جیسے اب ملعون گیرٹ ویلڈر نے کیا ہے) تو اس وقت آپ کی کیفیات اور احساسات اس سے بڑھ کر ہوتے ہیں؟ یاد رہے اس جیسے  نہیں اس سے بڑھ کر ۔حدیث پاک میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ” بڑھ کر” کے ہیں۔دوبارہ توجہ سے دیکھیں کہ کوئی بھی ایمان دار نہ ہو گا جب تک اپنی جان والدین اور اولاد سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کر لے ۔ اب ظاہر ہے محبت جتنی بڑھی ہوئی ہوتی تو اس محبت کی تکلیف پر انسان کو تکلیف بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اسے اس طرح سے بھی سمجھیں کہ ماں کی محبت چونکہ زیادہ ہوتی اس لئے بچے کی تکلیف پر اس کی تکلیف اور تڑپ باپ سے  بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ہہر حال اگر وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ تکلیف محسوس نہیں کرتا،  تو اسے اپنے ایمان کے بارے میں صحیح معنوں میں فکر ہو نی چاہئے جو مسلمان کی سب سے قیمتی اور انمول  دولت ہے۔

                جب کہ اپنے یا اپنے والدین اولاد کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو تو معاف کیا جا سکتا ہے ۔بلکہ اس حوالے سے اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ معاف کر دیں۔ مگر اگر بات محبوب خدا کی ہو تو  مفہوم حدیث ہے۔ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دی اس نے اللہ کو تکلیف دی۔ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں بے ادبی سے نمازیں ،روزے،حج زکوٰۃ تمام کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔

         فتح مکہ کے دن ہر ایک کو معاف کر دیا گیا تھا مگر گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پردے میں چھپ جانے کے باوجود قتل کر دیا گیا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا گستاخ واجب القتل ہے۔مگر آج کا نام نہاد مسلمان اپنے ساتھ کی گئی زیادتی پر تو ہر گز معاف نہیں کرتا۔اور گستاخ کی بات آئے تو امن کا درس دیتا پھرتا ہے۔

                  ایک بہت اہم اور غور طلب بات یہ ہے کہ والدین اور بچے تو دور کی بات بندہ ایک ایرے غیرے نتھو خیرے نام نہاد سیاسی لیڈر کے لئے بھی جزبات کی شدت میں گھر سے باہر نکل آئے۔ اس کے صرف ڈی پی یا اسٹیٹس ہی اس کے حق میں رواں نہ ہوں بلکہ وقت مال جان عزت بھی داؤ پر لگ جائے ۔ (رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی بات آئے تو) اخلاقیات کا درس دینے والے کی اس موقع پر اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے۔ مگر وجہ وجود کائنات محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس کی اتنی غیرت بھی بیدار نہ ہو سکے تو اب ایسے لوگوں کے شایان شان الفاظ میرے پاس تو نہیں ہیں۔البتہ عرض ہے کہ اس آئینہ حدیث میں اپنے دل سے فتویٰ لے لیں۔

                        مسلمانوں کی یہ حالت اور اس کا درد تو وہ مرثیہ گو بھی بیان نہیں کر سکتا جو کسی ماں کے لخت جگر کی جوان موت بھی بیان کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ اور یہ الفاظ قلمبند کرتے بڑی تکلیف ہو رہی مگر زندگی موقعہ دے نہ دے یہ درد بھی کہہ سناؤں کہ وہ نام نہاد لیڈر بھی وہ ہو کہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی صف اول میں کھڑا ہو۔
                                           فیصلہ آپ کا اپنا
    
          مگر یاد رکھیں دستور ہے دوست اور دوست کا دشمن دونوں اکھٹے نہیں کئے جا سکتے۔اور جو ایسا کرے وہ منافق ہے۔ قران مجید کہتا ہے۔منافق لوگ نہ تو پورے ادھر ہیں اور نہ پورے ادھر ہیں۔

         عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
             یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
        سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
         حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا


      لہذا مخلصانہ گزارش ہے ایک طرف ہو جائیں۔

   دو رنگی چھوڑ کر یک رنگ ہو جا
 سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا 

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *