“امریکہ نسلی تعصب کی زد میں”
امریکہ جو ایک نام نہاد جمہوری ملک ہے، سپر پاور ہے، دیکھنے میں بظاہر ایک ترقی یافتہ ملک معلوم ہوتا ہے مگر جب آپ اس ملک کے بارے جانے کے لیے آپ گہرائی میں جاتے ہیں تو ایسے ایسے انکشافات سامنے آتے ہیں کہ جو انسان کو دنگ کر دیں انہیں میں سے ایک کو انکشاف کہیں یا کھولی ہوئی حقیقت کہیں وہ نسلی تعصب ہے۔ امریکہ میں کوئی 6 صدیوں سے جاری اس نسلی تعصب کو باوجود ترقی یافتہ ہونے کے انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہونے کے امریکہ روک نہ سکا۔ یہ وہ دور تھا جب افریقہ پر انکی حکمرانی تھی اور انہیں کے دور حکومت میں انسانی اسمگلنگ کی بنیاد پڑی۔ اور پھر انسان اور خاص طور پر امریکی آمروں کا غلیظ ترین چہرہ سامنے آیا جب وہ دنیا کو انسانی حقوق کی پاسداری کا پاٹ پڑھاتے ہوئے افریقہ سے لوگوں کو بحری جہازوں میں جانوروں سے بھی بتر حالت میں بھر کر امریکہ پہنچاتے مزدوری کے واسطے، اور اس کام کے لیے مخصوص جہاز تیار کیے گئے۔ اور ان جہازوں میں ان سیاہ فاموں سے کیا جانے والا سلوک انسانیت سوز تھا کہ نہ تو انہیں اتنی خوراک دی جاتی کہ پیٹ بھر سکے اور نہ ہی انہیں اس کی آرام کرنے کے قابل سمجھا جاتا۔ اس مزدوری اور اس اسمگلنگ میں افریقیوں کے کنبے کے کنبے اجڑ گئے باپ کہیں مزدوری کرتا ماں کہیں، بیٹا کہیں، مگر انتی محنت و مشقت کے باوجود انہیں پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا۔
افریقہ سے لائے گئے ان “مزدوروں” کی باقاعدہ نیلامی ہوتی بولی لگتی اور انہیں بیچ دیا جاتا ایک انسان انسان کو بیچ دیتا۔ صدا بلند ہوتی کہ ” صحت مند سیاہ فام غلام موجود ہیں”۔ انہیں خرید لیا جاتا اور انکے پڑھے لکھے ہونے کا یہ فاءدہ اٹھایا جاتا کہ ان سے کھیتی باڑی کراءی جاتی ان سے چند ڈالر کے عوض سامان اٹھایا جاتا۔
ان امریکیوں کے نسلی تعصب کی انتہا یہ تھی کہ ان افریقیوں کے لیے چونکہ یہ سیاہ فام ہوتے تھے تو الگ واٹر کولر الگ ٹرانسپورٹ الگ کیفے ہوتے۔ سفید فام انہیں دیکھ کر چور سمجھ کر ڈر جاتے۔ پھر وقت نے کروٹ لی سیاہ فاموں کی قسمت کھولی مگر شاید ابھی پوری طرح نہیں شاید نہیں۔ انہیں سفید فام کے سکولوں میں داخلے کی اجازت ملی مگر کالے گورے کے فرق کے ساتھ۔ انہیں اذیت دینے کا کوئی بھی موقعہ جانے نہیں دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر اوباما کے آنے سے انکے حالات بہتر ہوئے مگر پوری طرح نہیں کیونکہ ابھی شاید انکی آزمائش باقی ہے۔ اور ابھی حال ہی میں ہوئی جارج فلائیڈ کی موت نے امریکہ کو نسلی تعصب کے حوالے کردیا ہے۔ اور وہ امریکہ جس نے بے شمار ممالک میں طبل جنگ بجایا آج خود اپنے شہروں میں فوج لگائے بیٹھا ہے۔ یعنی امریکہ یہ ثابت کر رہا کہ بے شک 6 صدیاں گزر گئیں ہم طاقتور سے طاقتور ہوگئے مگر ہم آج بھی اسی 6 صدی پرانے نسلی امتیاز کا شکار ہیں۔ پس امریکہ کو دیکھنے کے بعد ثابت ہوا کہ ” ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی” یعنی امریکہ جیسا نظر آتا ہے ایسا ہرگز نہیں ۔
بقلم مدثر حسن.
*************