Auraton per tashadud article by Sana Shaban

articles

عنوان : عورتوں پر تشدد

تحریر : ثنا ء شعبان

ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک اچھا اور ایک برا ۔ہمارے معاشرے کا اہم مسئلہ جس پر سنجیدگی سے غور کر نے کی ضرورت ہے ، نمایاں کرنا چاہتی ہوں ۔ عورت کا کیا مقام ہے یہ اسلام نے تو سمجھا دیا مگر لگتا ہے ہم بھول گئے ہیں ۔ عورت کا مقام کیا ہے یہ آج کے دور میں لوگوں کو سمجھانا بہت ضروری ہے ۔ عورتوں پر تشدد محض ایک گھر کا مسئلہ نہیں ہے ، یہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔ تھوڑی سی گھریلو ناچاکی اور مرد نے اپنا سارا غصہ نکال دیا۔ بھی جہیز نہ لانے پر طعنے تو کبھی کھانے میں نقص چینیاں – اس کی زندگی دنیا میں ہی جہنم بنادی جاتی ہے ۔ الله کے بندوں ہم مسلمان ہیں ، ہمارا مذہب ہمیں عورتوں کے ساتھ نرمی اور حسن اخلاق سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے
جو بیٹیاں ماں باپ کے گھر میں شہزادیوں کی زندگی گزارتی ہیں لیکن شادی کے بعد وہی بیٹیاں دوسروں کے تشدد کی زد میں آکر پاؤں تلے روند دی جاتی ہیں ۔ افسوس صد افسوس آج ہمارا معاشرہ کس طرف جارہا ہے ۔ ایسے افراد جو عورتوں پر تشدد کر کے خوش ہوتے ہیں اور اعزاز سے کم نہیں سمجھتے انھیں تربیت کی ضرورت ہے۔ ان کی ناقص تربيت ہی انھیں کم ظرف بنادیتی ہے ۔ اگر ان کو سمجھایا بھی جائے توٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ عورتوں کو ہمیشہ اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں ۔ اور اگر ان کو اپنے مقابلے میں پا لیں تو برداشت نہیں کر پاتے اور کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
آج ہم اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے دن رات محنت کررہے ہیں۔ اگر ملک کے افراد ہی تربیت یافتہ نہ ہوں گے تو ملک کیسے ترقی کرپائے گا ۔ پہلے اس ملک میں رہنے والے باشندوں کو صیح معنوں میں انسان تو بنا لو۔ وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے جس ملک کی عورت ہی محفوظ نہ ہو اور ان کے جھگڑے بہت چھوٹے ہو ۔
قائداعظم کا فرمان ہے کہ اگر ملک میں ترقی چاہتے ہو تو اس کی عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں اور ہمارے ملک کے حضرات ان کو اپنی برابری تو کجا ، تھوڑا سا ابھرتا ہوا بھی دیکھ لیں تو ان کے راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیتے ہیں اور یہ ہمارے معاشرے کی حقیقت ہے ۔
ایک عورت کو اپنی ازدواجی زندگی میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یقین جانئے وہ مسائل جس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں وہ وجہ بہت چھوٹی ہوتی ہے اور بعض اوقات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ بم ایسی قوم ہیں کہ اگر ہمارے اردگرد ایسے واقعات ہو بھی رہے ہوتے ہیں تو ہم محض تماشائی ہوتے ہیں ۔ ان مظلوم عورتوں پر تشدد کبھی تو شوبر اور کبھی اس کے گھر کے باقی افراد یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہوتے ہیں اور اپنی انا کو تسکین بخشتے ہیں ۔ ایسی عورتیں اگر ہمت کر کے اپنے لیے آواز اٹھا بھی لیں اور عدالت کا رخ کریں تو پہلے نمبر پر ان کے پاس اتنا پیسہ ہونا چائیے جس سے وہ سسٹم کا پیٹ بھر سکیں اور دوسرے نمبر پر لوگوں کی باتیں اور معاشرے کی طرف سے ملنے والی رسوائی کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چائیے۔ اس سارے عمل میں عورت کا مقام کیا رہ گیا۔ وہ مقام جو اسلام نے عورت کو دیا یا پھر جو اسے معاشرے کی طرف سے ملا۔ اور رہا معاشرہ -معاشره کیا ہے ؟ یہ ہم سے ہی مل کر بنا ہے لہذا ہمیں اس کے مقام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو یہ بات تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ مرد کا مقام کیا ہے کہ اسے ایک عورت نے جنا ہے ۔

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *