Azadi article by Kiran Ahmad

articles

موضوع

آزادی ازقلم:  کرن احمد

 چھوٹے سے سوراخ سے آنے والی تیز روشنی نے اس کو نیند کی وادی سے لوٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔

 اس نے زبردستی آنکھوں کو میچ لیا تاکہ کھولنے میں آسانی ہو۔

وہ کمزوری کی وجہ سے وہ سوتی رہتی  تھی اُس کا ہوش کی دنیا سے کا واسطہ کم پڑتا تھا۔

اس کی زندگی میں روشنی کی واحد کرن اک چھوٹا سا سوراخ تھا۔اسی روشنی کی ایک معدوم ہوتی لکیر اس احساس سے آشنا کرواتی تھی کہ اس میں ابھی زندگی باقی ہے۔

دن کے بارہ بج چکے ہوں گے، سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا ہو گا؟

اس نے دل میں سوچا۔

 بہت عرصہ پہلے کمرے میں اس روشنی نے قدم رکھا تھا تو باہر سے آتی کسی کی آواز جو غالباً کسی کو اپنے مقررہ وقت پر نہ آنے پر برہم ہو رہا تھا کہ دن کے بارہ ہو چکے ہیں اور تمہارا ابھی تک کہیں اتا پتا ہی نہیں ہے۔

وہ ساکن بیٹھی اس روشنی کوگھور رہی تھی۔

 اس نے جسم کو جنبش دینے کی بھی کوشش نہیں کی تھی وہ ایسا کرتی بھی کیسے؟

ان زنجیروں میں جکڑے جسم نے اس کی حکم عدولی کرنا شروع کر دی تھی۔

 وہ کبھی اپنا نقاہت سے بھرپور جسم اٹھاتی وہ بھی بس اتنا کہ واپس زمین بوس ہونے پر ایک تکلیف بھری آوازاسکے لبوں سے نکلتی تھی۔ اس نے اٹھنے اور بھاگنے کی کوشش کب کی ترک کر دی تھی۔اس کا حال ان قیدیوں سا ہوگیا تھا جو راستہ ملنے پر بھی آزادی کو ترک کر دیتے ہیں۔

اسے آج وہ دن یاد آ ریا تھا جب ضد کر کے اس نے ایک خوبصورت طوطا منگوایا تھا۔

جو ایک پنجرے میں قید تھا۔

وہ اتنی توجہ پیار اور اچھی خوراک ملنے پر بھی سارا دن اسی کوششں میں رہتا تھا کہ جب اسے موقع ملے اور وہ یہاں سے اڑ جائے۔

اس نے کبھی بھی پنجرے کو کھولنے کی غلطی نہ کی تھی تاکہ وہ آسمانوں کے سفر کو نہ نکل جائے۔

وہ سارا دن پنجرے کی کھڑکی سے لگا نیم کے پیڑ پر آزادی سے اپنے پنکھ پھیلائے اپنی مرضی سے کبھی ایک ڈالی تو کبھی دوسری ڈالی پر بیٹھی چڑیوں کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا اور پھر وہ اپنی سریلی آواز میں کچھ بول کر ایک کونے میں جابیٹھتا تھا۔

 وہ شاید کسی اپنے کو پیغام بھیجتا ہو یا پھر ان چڑیوں کو آزادی کا مفہومِ سمجھتا ہو۔

جو بھی تھا وہ یہ سب دیکھ کر انجان بنی رہتی تھی۔

اس نے ان سوچوں کو جھٹک کر دوبارہ سے اپنے دماغ میں قید کر دیا۔ایسے جیسے وہ اس کی کل متاعِ جاں ہو اور بوقت ضرورت وہ ان کو دوبارہ

سے یاد کر سکے۔اس نے سوراخ سے آتی روشنی کا تعاقب کیا اور ہر روز کی طرح اسکی آنکھیں پھر باہر کے سفر کو روانہ ہوئیں۔

نیند سے بوجھل تھکی تھکی اور کسی اس امید سے پاک ان آنکھوں کو باہر جانے پر تیز روشنی نے چندھیانے پر مجبور کر دیا۔

جب دیکھنے کے قابل ہوئیں تو ایک عجب منظر دیکھنے کو ملا کہ ہر طرف چہل پہل ہے۔

گلیوں بازاروں میں ایک ہجوم برپا ہے۔

ہر طرف جشن کی تیاری ہو رہی تھی۔

دور فٹ پاتھ پر بیٹھا ایک بزرگ اپنے سامنے کچھ اشیاء سجائے بیٹھا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ اپنے ضعیف اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ایک چیز اٹھاتا پھر بول کر دیوانہ وار چومنے لگتا اور پھر رکھ دیتا۔

اس منظر کو سمجھنے میں کافی وقت لگا اسے لیکن جیسے ہی سمجھ آئی تو اس نے واپسی کا راستہ اختیار کیا۔کیونکہ اب اس کو ان چیزوں سے سروکار نہیں تھا۔

یہ سوچتے ہی اس نے اپنی بھاری ہوتی پلکوں کو گرایا اور پھر سے نیند کی وادی میں قدم رکھ دیا۔

*****************

ختم شد

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *