“””””عظیم راہنما “”””
“””از قلم شنیلہ جبین زاہدی “””
کالم نگار، مذہبی سکالر
” تیرا جوہر ہے نوری پاک ہے تو
فروغ دیدہ ء افلاک ہے تو
تیرے صید زبوں فرشتہ و حور
کہ شاہین شہہ لولاک ہے تو “”
(اقبال۔ )
ایک عظیم قائد ، ایک نڈر لیڈر ، بے مثال راہنما ، جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی ڈوبتی ناؤ کو اس وقت سہارا دیا ۔ جب وہ تباہی کے کنارے پہ کھڑی اپنی زبوں خالی پہ ماتم کناں تھی ۔ مسلمانوں کو ایک وقت میں دو دشمنوں کا سامنا تھا ۔اسلام کے مجاہدین اپنی کوشش میں سر گردہ تھے ۔جب مسلمانوں کو نسل در نسل غلامی کا طوق پہنایا جارہا تھا۔اسلام اور قرآن کو ان کی رگوں سے کاٹ کر دور کیا جارہا تھا ۔ اللہ کریم کو ان بد حال مسلمانوں پر رحم آیا اور انھیں “”اقبال “”اور”” قائد”” جیسے بے لوث لیڈر عطا کیئے ۔ ایک نے اپنے قلم سے جہاد کیا اور مسلمانوں کو آزادی کے لئے ابھارا اور مسلمان نوجوان نسل کو خودی کا پیغام دیا ۔ دوسرے نے عملی میدان میں مسلمانوں کی راہنمائی کی اور انھیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔
برصغیر میں ہر طرف مختلف تحریکیں سر گرم عمل تھیں ۔ اس عظیم قائد کی دور اندیشی نے ان کے ارادے بھانپ لیے اور اپنی نوجوان نسل کے مستقبل کو بچانے کیلئے متحرک ہو
گئے۔ نوجوان نسل کو یہ پیغام دیا کہ ۔
“””””خود کو کسی بھی سیاسی جماعت کے ہاتھوں
کھلونا نہ بننے دیں ورنہ آپ لوگ بہت بڑی غلطی کریں گے ۔ آپ کو اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر مرکوز رکھنی چاہیے ۔صرف اسی طرح آپ اپنے آپ سے ، اپنے والدین سے اور اس ملک و ملت کے ساتھ انصاف کر سکے گے۔ “””””
محمد علی جناح کانگر یسی جماعت کے زبردست حامی تھےاور متحد قوی نظریے پہ ہی یقین رکھتے تھے ۔ لیکن انھوں نے جب یہ دیکھا کہ وہ مسلمانوں کو ان کا بنیادی حق نہیں دینا چاہتے ۔ انگریز اور ہندو مل کر مسلمانوں کو پستی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں ۔ اس وقت قائد نے اس کسمپرسی کی شکار قوم کی قیادت سنبھالی اور دنیا کے خطے پہ اک نئی اور الگ مملکت معرض وجود میں آئی۔
قائد نے فرمایا کہ
“”کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے سو بار سوچ لو ، لیکن جب فیصلہ لے لو تو اس پہ ڈٹ جاؤ .””
اس نڈر لیڈر نے مسلمانوں کے لیئے ایک الگ ریاست کا قیام عمل میں لانے کی ٹھان لی اور دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر دیا ۔ شہہ لولاک کا یہ مجاہد اپنے فیصلے پہ ڈٹ گیا۔ اس جدوجہد میں اس عظیم لیڈر نے اپنی زندگی کی تمام آسائیشوں کو پس پشت ڈال دیا ۔اس کا مقصد ایسی ریاست حاصل کرنا تھا جس میں تمام مسلمانوں کو یہ بنیادی حق حاصل ہو کہ وہ آزادی سے ایک خدا کی عبادت کر سکیں۔ تمام اقلیتوں کو مکمل حق حاصل ہو کہ وہ اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں ۔ رنگ ، نسل ، قوم ، کی تمام توجیہات کو مٹا دیا ۔ اور کہا کہ
آخر یہ کہنے میں کیا فائدہ ہے کہ ہم سندھی ، بلوچی ، پنجابی ، پٹھان ہیں ۔ہم تو بس مسلمان ہیں۔
اس قائد سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا ۔ تو اس عظیم راہنما کا نے ایمان افروز جواب دیا ۔
“”” پاکستان کےطرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو صدیاں قبل قرآن پاک نےوضاخت کے ساتھ بیان کر دیا تھا ۔ الحمد للہ قرآن مجید ہماری راہنمائی کے لئے موجود ہے اور تا قیامت موجود رہے گا۔”””
اللہ کریم نے اس عظیم قائد کو بے شمار صلاحتیوں سے نوازا تھا ۔ لیاقت ، فطانت ، مطانت آپ کی شخصیت کا خاصہ تھی۔
اسی فطانت کی وجہ سے مد مقابل قوتیں آپ سے دبتیں تھیں ۔
ایک انگریز پروفیسر ” پیٹرز”” جو قائد اعظم سے سخت نفرت کرتے تھے ۔ ایک دن ڈائنگ روم میں لانچ کر رہے تھے ۔ قائد اعظم اپنی ٹرے لے کے سامنے بیٹھے گئے ۔ پروفیسر کو یہ بات پسند نہ آئی اور نفرت آمیز لہجے میں کہا ۔ آپ کو پتا نہیں ایک پرندہ اور سور ایک جگہ بیٹھ کے نہیں کھا سکتے ۔
جس پہ جناح نے جواب دیا کہ میں ایک پرندہ ہوں ۔ پرندہ اڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی اپنی ٹرے اٹھا کے دوسری ٹیبل کی جانب بڑھ گئے۔
جناح کی ساری زندگی ایک ڈسپلن کا عملی نمونہ رہی ۔ مس فاطمہ جناح اپنی کتاب ” مائی برادر “” میں لکھتی ہیں ۔ جناح اپنی علالت کے دوران سٹیٹ بینک کا افتتاح کیا ۔ مقررہ وقت پر تشریف لائے۔ دیکھا کچھ اگلی نشتیں خالی ہیں ۔ پروگرام شروع کروایا ۔ حکم دیا خالی نشتیں ہٹائی جائیں۔ تعمیل ہوئی۔ پھر دیر سے آنے والے کھڑے رہے ۔ ان کھڑے رہنے والوں میں اس ق وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے ۔یہ درست ہے کہ ایک ہزار سال تک محکوم رہنے والی اس قوم کو اگر قائد اعظم جیسی مستعد قیادت نہ ملتی تو برصغیر کے مسلمان آج بھی گاؤرکھشکوں کے رحم و کرم پر ہوتے ۔ 14 اگست 1947 ء کو پاکستان جیسی عظیم مملکت کو دنیا کے نقشے پر ابھارنے والا محسن ایک سال اور ایک مینے تک ہی اس کی کمان کو سنبھال سکا ۔ لیری کولینز ، اور ڈومینک لاپیئر نے اپنی کتاب” فیڈرم، اور مڈ نائٹ ،، میں لکھا ہے کہ اگر اپریل 1947ء کو ماؤنٹ بیٹن ، جواہر لال نہرو، یا مہاتما گاندھی کو اس راز کا علم ہو جاتا ، جو ڈاکٹر پٹیل کے دفتر کی تجوری میں رکھا گیا تھا ۔ تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور آج ایشیا کی تاریخ کا دھارا کسی اور روح پر بہہ رہا ہوتا ۔ اس راز کو بانی پاکستان کے کہنے پہ تمام لوگوں کی نظر سے پوشیدہ رکھا گیا تھا ۔ وہ راز قائد کے پھیپھڑوں میں موجود جان لیوا بیماری کی رپورٹ تھی ۔ قائد کے پاس وقت کم تھا اور کام زیادہ تھا ۔ قائد اتنی آہنی ہمت کے مالک تھے کہ انھوں نے اپنی اس بیماری کا ذکر اپنی بہن فاطمہ جناح تک سے نہ کیا
ماؤنٹ بیٹن نے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ قائد کی ساری صلاحیت ان کے ہاتھ میں تھی ۔ جناح ہی راستے کا پتھر تھے ۔باقی تمام راہنما اتنے بے لوث نہیں تھے۔مجھے یقین تھا کہ کانگریس ان کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچ جاتی۔اگر مجھے کسی نے بتایا ہوتا کہ مسٹر جناح بہت کم عرصے میں مر جائیں گے تو میں کبھی برصغیر کو تقسیم نہ ہونے دیتا ۔زندگی اگر اس قائد کے ساتھ وفا کر جاتی تو پاکستان کو بہت آغاز میں ہی ایک متفقہ آئین مل جاتا ، اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنے کی مشق ہو جاتی ۔پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیاں کسی بیرونی مداخلت کے بغیر تشکیل پا جاتیں ۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ آج ہمارے سامنے جو صورت حال ہے اس میں کشمریوں پہ مظالم اپنے انتہا کو پہنچ چکے ہیں ۔ پاکستان عالمی برادری سے کشمیر کے مسلمانوں کے لئے مدد کی اپیل کر رہا ہے ۔ عالمی برادری زبانی طور پر تو کشمریوں کی حمایت کر رہی ہے لیکن کرپشن ، نا انصافی ، معاشی کمزوری ،اور نا عاقبت اندیش حکمرانوں نے پاکستان کو قائد اعظم کے مضبوط پاکستان سے کوسوں دور کر دیا ہے ۔آج کا پاکستان ، قائد کے اس مضبوط ترین تصور سے کوسوں دور کھڑا ہے ۔ جس تصور کو لے کر قائد نے اپنی بے پناہ صلاحیتیں صرف کیں ۔ جس نے یہ مملکت صرف مسلمانوں اور اسلام کی خاطر قائم کیا ۔مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ
مسلمان جھکنے کیلئے پیدا نہیں ہوا ۔ اگر اسے جھکانے کی کوشش کی گئی تو یہ بابر بن جائے گا ۔ یہ ٹیپو سلطان کی طرح نمودار ہو گا ۔یہ مر جائے گا لیکن کبھی محکومی قبول نہیں کرے گا ۔ آج ہمیں اس بات پہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ محسن پاکستان نے جو اصول ہمیں سکھائے ۔ہم اس پہ عمل پیرا ہوسکے ؟ ایمان ، اتحاد اور تنظیم جیسے اصولوں کو اپنی زندگیوں کا خاصہ بناسکے ؟ ہمیں ان اصولوں کو اپنانا ہوگا اور اپنے مملکت کی، اپنے ایمان کی بقاء کے لئے، تجدید عہد کرنا ہوگا ۔ قائد کے مضبوط پاکستان کو آمریت کے آہنی شکنجوں سے محفوظ کرنا ہوگا۔ اس محسن کی قربانی کو رائیگاں ہونے سے بچانا ہوگا ۔ جس نے یہ کہا تھا
“میں اپنا کام پورا کر چکا ہوں ۔قوم کو جس چیز کی ضروت تھی وہ اسے مل گئی ہے ۔اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اسے تعمیر کرے ۔ “”
بابائے قوم کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے قوم کے ہر فرد کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے ۔ اس مملکت کی حفاظت کرنی ہے۔
*************