Bichar jane wale article by Kiran Ahmad

articles

(بچھڑ جانے والے)

سترہ جولائی کا خوشگوار دن تھا۔آسمان پر ننھے ننھے بادلوں کی اٹھکیلیاں اپنے عروج پر تھی۔وقف وقف سے بوندا باندی بھی جاری تھی۔الارم کی آواز نے اسکی نیند میں خلل ڈالا تو غصے سے تکیہ منہ سے ہٹایا اور اٹھ بیٹھی ۔انکھوں کو مسلتے منہ سے کچھ بھڑبھڑائے جارہی تھی۔لیکن جیسے ہی اس نے آنکھیں کھول کر گھڑی کو دیکھا تو ساکن ہو گئ کیوں کہ ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی کالج سے لیٹ ہونے والی تھی۔کتابوں کا ایک ڈھیر جو رات پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی تھی اس نے دور پٹخا اور تیار ہونے چلی گئی۔تیار ہونے کے بعد بنا ناشتہ کیےوہ بس سٹاپ کی طرف چل پڑی جہاں آج کافی رش تھا۔بس پر سوار ہونے پر اک سرد ہوا کے جھونکے نے اس کا استقبال کیا تھا جیسے وہ کسی کے آنے کا پیغام لایا ہو ۔کھڑکی سے باہر جھانک کر اس نے بارش کے ننھے قطروں کو ہتھیلی پر محسوس کرنا شروع کر دیا۔چند مسافروں کو اتارنے کی غرض سے بس ایک سٹاپ پر رکی۔اس کی نظروں نے کھڑکی کے باہر کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔اچانک ہی اس کی نظر ایک خوبروسے لڑکے سے جا ٹکرائی ۔جو پہلے ہی سے اسے غور سے دیکھنے میں مصروف تھا۔اپنی خرش ترش سے وہ کسی اچھے گھر کا معلوم ہوتا تھا۔جیسے ہی نظریں ٹکرائیں تو لڑکے نے ہلکی سی مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی۔اتنے میں بس پھر اپنے منزل کی طرف روانہ ہو گئ۔اب روز ہی ایسا ہوتا ۔بس رکتی نظروں کا تبادلہ ہوتا اک مسکراہٹ جنم لیتی اور منظر بدل جاتا۔لیکن کچھ دن سے وہ شخص اپنی مقررہ جگہ پر نہ پایا جاتا۔اک عجیب احساس تھا جو سمجھ سے بالاتر تھا۔جانے والے نے اپنی یاد کا ننھا پودا اسکے دل میں لگا چھوڑا تھا ۔اس نے اب بھرتے رہنا تھا۔اور آخر کار اس نے برگد بن جانا تھا۔

رائیٹر کرن احمد (اٹک)

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *