Ek behtreen Maa koun? Working woman ya house wife? article by Anwar Sultan

articles

موضوع

ایک بہتر ین ماں کون؟ورکنگ ویمن  یا ہاؤس وائف!

قلم نگار :انورسلطانہ

کیا آْپ کی اماں بھی آپ کو کہتی ہیں کہ ’’خود ماں بنو ں گی تو سمجھو گی ‘‘ویسے ہے تو بڑی عام  سی بات مگر ہماری ماؤں  کی طرح مجھے بھی  لگتا ہے کہ ماں بننے کا احساس شاید دنیا میں سب سے حسین اور عورت کو مکمل کر دینے والا ہوتا ہے۔

ماں چاہے گھر کی چار دیواری میں رہتی ہو یا گھر سے باہرنکل کر کام کرتی ہو ، اسے اپنے بچے  ہر طرح عزیز ہوتے  ہیں ۔ہمارے ہاں خواتین سے ایک سوال بہت زیادہ کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی خاتون  گھر پر رہتی ہے کہ تم  وہ سارا دن کرتی  ہی کیا ہے ؟اور اگر کہیں ایک ماں گھر سے باہر نکل کر نوکری کر لے تو اسے کہا جاتا ہے کہ آپ گھر پر رہ کر بچے کیوں نہیں پالتیں؟غرضیکہ یوں کہا جاسکتا ہے   انسان نہ کسی حال میں  خوش رہتا ہے  اور نہ رہنے دیتا ہے۔

خیر ہم اپنے آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں  کہ ایک بہترین ماں کون؟ملازمت پیشہ خاتون یا گھریلو خاتون؟

پاکستانی معاشرے میں کئی رنگ نمایاں ہیں جہاں  ہمیں مختلف روایات اور انداز دیکھنے کو ملتے ہیں، وہیں اگر زبان کی بھی بات کی جائے تو یہاں سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو کے ساتھ کئی علاقائی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ اسی طرح  جب بات کھانوں کی کی جائے تو مختلف ذائقے دارکھانے بھی ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔ یہی حال ہمارے موسموں کا بھی ہے، ان موسموں میں بھی گرمی، سردی، خزاں اور بہار کے ساتھ شدید برف باری اور لق و دق صحرا کی گرم ریت بھی دیکھی جاسکتی ہے ۔یہ سب تو قدرت کے اتار چڑھاؤ ہیں جن سے ہم سب کو گزرنا پڑتا ہے۔

مگر پاکستان میں صنف نازک کے بھی کئی روپ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں کی عورت کے اتنے روپ ہیں جو شاید نہیں یقیناً صرف یہیں دیکھنے کو مل سکتے۔ یہاں اپر، مڈل، لوئر کلاس کی عورت کا کردار ہی مختلف ہے۔ یہاں ہمیں پڑھی، لکھی عورت کام کرتے اوراپنا نام کماتے ہوئے بھی ملے گی اور  پڑھ لکھ کر گھر پر بیٹھی ہوئی خواتین بھی ملیں گی اور جاہل ہوتے ہوئے گھروں پر کام کرتے اپنا گھر چلاتی ہوئی خواتین بھی  اور وہ بھی جو گھر بیٹھ کر کماکر اپنی ضروریات پوری کررہی ہوگی۔

اکثر مرد حضرات کو گھریلو خواتین سے شکایت ہوتی ہے کہ وہ پورا دن گھر میں رہ کر کیا کرتی ہیں۔تپتی دھوپ میں ان کی طرح ریگولر آفس جائیں تب احساس ہو کہ کام کس کو کہتے ہیں؟

لیکن ایک سیکنڈ کے لیے بھی اگر کوئی مردبرتری کی یہ عینک آنکھ سے اتار کر دیکھ لے تو اسے ایک ہاؤس وائف کے سارے کام اور ذمہ داریاں لائن لگائے متعارف ہونے کی منتظر نظر آئیں۔تو پھر آخر ہم یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ اگر عورت گھر کی چار دیواری میں رہ کر جو کام کررہی ہے وہ کسی طور اہمیت کے لائق نہیں۔

ایک شوہر ہاؤس وائف سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔۔ایسےافراد کو یقینااپنی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک یہ تبدیلی آپ اپنی بیوی کے لیے خود میں نہیں لائیں گے اپنی بیٹی کے لیے بھی اس کے شوہر میں نہیں دیکھ پائیں گے ۔۔ ۔

ورکنگ ویمن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ملٹی ٹاسکنگ ہوتی ہیں۔ کہیں وہ بطور ورکر ذمہ داریاں نبھاتی ہیں تو کہیں بطور بیوی، اس بات میں کوئی شک نہیں اک ورکنگ ویمن بے شمار ذمہ داریاں نبھارہی ہوتی ہے۔لیکن اگر ایک ہاؤس وائف کی خدمات کا معاوضہ بھی الگ الگ افراد سے لیا جانے لگے توان کا معاوضہ لاکھوں روپے ماہانہ بن سکتاہے۔

ادب میں آج مردوں سے زیادہ خواتین فکشن نگار مقبول ہیں۔ بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ برسوں سے پڑھا جارہا ہے۔ عمیرہ احمد کا پیرکامل وہ ناول ہے کہ وہ خواتین و حضرات جو کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں رکھتے، وہ بھی اس ناول کو ضرور پڑھتے ہیں۔ ان دو مشہور ناول نگاروں کے ساتھ بے شمار ناول نگار ایسی ہیں جو فکشن نگاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ نسیم زہرا، عاصمہ شیرازی، مہر بخاری میڈیا کی دنیا کی مشہور شخصیات ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جنھیں ایک دنیا جانتی ہیں  اور جن کے بارے میں وہ خواتین جو گھر داری کرتی ہیں، بڑے دھڑلے سے یہ کہتی دکھائی دیتی ہیں  کہ ان خواتین سے گھر نہیں بستے،  کیوں کہ یہ تو ملک کی باگ ڈور چلانے میں ہاتھ بٹارہی ہیں اور گھر اور بچوں کے لیے ان کے پاس وقت نہیں، مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتی ہیں کہ یہ وہ خواتین ہیں جو ملٹی ٹاسکرز ہیں،  یہ گھر اور باہر کی دنیا کو ٹائم مینجمنٹ کے ساتھ انجام دیتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں وہ خواتین جنھیں ہاؤس وائف کا درجہ دیا جاتا ہے،  ان کا عمومی طور پر یہی خیال ہوتا ہے کہ وہ بچے جن کی مائیں ورکنگ وومن ہوتی ہیں،  ان کی تربیت صحیح نہیں ہوتی،  وہ ہائپر ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی ماؤں کے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہوتا، مگر ان کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ ورکنگ ویمن اپنے بچوں کو وقت کی مقدار سے زیادہ معیاری وقت دینے کی قائل ہوتی ہیں۔  اگر کبھی ہاؤس وائفس اپنے گریبانوں میں جھانک لیں تو انھیں اس بات کا خود اندازہ ہوجائے کہ وہ آج کے اس مشینی دور میں کتنا وقت اپنے بچوں کو دے رہی ہیں، شاید اس سے بھی کم جتنا ایک ورکنگ وومن دیتی ہے،  کیوں کہ آدھا دن اسکول، مدرسہ اور ٹیوشن میں گزارنے کے بعد کتنا وقت بچتا ہے جو بچوں کو دیا جائے۔ ہاں البتہ قومی کھیل باتیں بگھارنا اور لوگوں پر تجزیہ کرنا ضرور فون کے ذریعے کھیل لیا جاتا ہے۔

اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ وہ خواتین جو بڑے دھڑلے سے ورکنگ ویمن  کی برائی کرتی ہیں، وہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں، تاکہ انھیں پتا چلے کہ ورکنگ ویمن کو  باتیں بنانے میں کوئی دل چسپی نہیں،  اس لیے وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے نام کمارہی ہیں۔

ان حالات اورحقائق کو دیکھتے ہوئے اس بات کا حتمی فیصلہ دینا مشکل ہے کہ کون کس سے بہتر ہے کیونکہ یہ تناظر اور حالات پر منحصر ہے۔ ایک عورت ماں بھی ہے، بیٹی بھی،بہن بھی اور بیوی بھی۔ زندگی کے ہر روپ میں عورت کو خدا نے ایک خاص مقام عطا کیا ہے اور اس خاص مقام کی بدولت ہی خدا نے اس کے قدموں تلے جنت رکھی ہے ۔ غرض عورت کے وجود سے ہی کائنات کی رونق ہے اور خود عورت ہونا ایک فخر کی بات ہے۔۔۔ لیکن افسوس کا مقام وہاں آتا ہے جب ہم ورکنگ ویمن ہونے کے تمغے کو ماتھے پر سجا کر ان خواتین کو احساسِ محرومی یا کمتری میں مبتلا کرتے ہیں جو گھروں میں رہ کر اپنے فرائض کی انجام دہی کررہی ہوتی ہیں۔ یہ بات انتہائی قابلِ افسوس ہے کہ ہمارا زیادہ تر پڑھا لکھا طبقہ بھی اس طرح کی سوچ رکھتے ہوئے زمانۂ جاہلیت کی باتوں میں پھنسا ہوا ہے۔ اگر ایک مرد گھریلو اور ملازمت پیشہ خواتین کے لئے الگ الگ رائے قائم کرتا ہے تو اس کی یہ سوچ کسی حد تک قابلِ قبول ہو سکتی ہے لیکن ایک عورت ہو کر دوسری عورت کے لئے اس طرح کی سوچ رکھنا آپ کے جانبدارانہ روّیے کا اظہار ہے۔

عورت چاہے گھریلو ہو یا کام کرنے والی، دونوں کو وقت کے پہیے میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہر دور میں رہا ہے۔ جہاں کام کرنے والی خواتین، بچوں،شوہر ، کیریئر اور گھر کی دیکھ بھال کے لئے وقت نکالنے میں جدو جہد کرتی ہیں وہیں ایک گھریلو خاتون کو اپنے لئے وقت نکالنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ضرورت ہے تو اِس بات کو سمجھنے کی کہ ایک ورکنگ لیڈی صرف 9سے 5 کام کرنے والی خاتون نہیں ہوتی بلکہ ہر وہ خاتون بھی ہے جو24 گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دِن بلامعاوضہ اپنے گھر والوں کی خدمت پر مامور رہتی ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے  کہ کوئی بھی بات یا فعل ایسا نہ ہو جس سے معاشرے کا کوئی بھی فرد حوصلہ شکنی کا شکار ہو یا اس میں احساسِ کمتری پیدا ہو کیونکہ زمانہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے، تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور انسانی رویّوں کی دیکھ بھال ہر دَور کی ضرورت رہی ہے۔  اس لئے اس طرح کے امتیاز کو ذہنی اور معاشرتی طور پر کم کرنا چاہئے کیونکہ حوّا کی بیٹیوں کے دَم سے ہی اس بزمِ جہاں میں رونق ہے اور وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں، معاشرے کی فلاح اور پروان میں دونوں کا اپنااپنا کردار ہے اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پرانتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔۔۔

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *