Ghulami e aghyar na manzoor na manzoor article by Mirha Shehbaz

articles

غلامیِ اغیار نامنظور نامنظور
ازقلم مرحاشہباز

زبان خیال بُنتی ہے اور خیال سوچ میں نکھار لاتا ہے۔ یماری قومی و سرکاری زبان اُردو ہے اور یقیناً آپ سب اِس بات سے واقف ہوں گے 1973 کے آٸین کے مطابق ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان اردو ہے لیکن اگر عملی طور پر دیکھا جاۓ تو پراٸیویٹ سیکٹر میں بہت سے بڑے اداروں میں اُردو صرف اُردو کے لیکچر کے دورانیے میں بول سکتے ہیں۔ اِسی باعث بچے اسے سمجھنے میں بھی کمزور ہو جاتے ہیں اور پھر بلوغت کو پہنچ کر انگریزی ہی کو بروۓ کار لاتے ہوۓ اپنے مستقبل کی راہیں ہموار کرتے ہیں، مگر مجھے حیرت ہے کہ وہ خود کو غلام کیوں محسوس نہیں کرتے۔ غیروں کی زبان کا، اور غیر بھی وہ جو ماضی میں کٸ مواقع پر اپنے فریب زدہ سیاہ چہرے دکھا چکے ہیں۔
اُردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے اسی لیے امریکہ، جاپان، چین اور دنیا بھر میں پڑھاٸی جا رہی ہے۔ جب دوسرے ممالک میں اسے سرِ فہرست زبانوں میں شمار ہونے کے باعٹ سکھایا جاتا ہے تو پھر ہمارے لیے شرمندگی کا مقام ہے کہ ہم اپنی اِس زبان کو چھوڑ کر دوسری زبانوں کی جانب زیادہ ماٸل ہوں۔ حد یہ کہ ہمارے ہاں انگریزی اہتمام سے سکھاٸی جاتی ہے اور اُردو کو بس لازمی مضمون سمجھ کر پڑھا دیا جاتا ہے۔ انگریزی کے فقرے بنانے کی تراکیب رٹواٸی جاتی ہیں اور اُردو کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ تو سبھی کو آتی ہے، اِسے کیا سمجھانا۔ دیگر زبانیں سیکھنا غلط نہیں ہے، کوٸی بھی سکھیں، انگریزی، فارسی، چینی کوٸی بھی مگر اپنی قومی زبان کو فوقیت دینے کے معاملے میں ہرگز سمجھوتا نہ کریں۔
حال ہی میں ہم نے جشنِ آزادی جس قدر ذوق و شوق سے منایا ہے اُس سے کٸ گنا بڑھ چڑھ کر ہم انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں اب تک جکڑے ہوۓ ہیں۔ انگریزی تسلط ہم پر حاوی ہو کر ہمیں ہر دن زمیں بوس کر رہا ہے۔ ہم انگریزی سیکھنے میں اتنا مگن ہیں کہ اُردو کی طرف توجہ دینا مناسب سمجھتے ہی نہیں۔
ہمارا تعلیمی نظام مکمل طور پر انگریزی پر مبنی ہے۔ بچہ پراٸیویٹ سکول میں ہو تو بس اُردو ہی بامجبوری اُردو میں پڑھتا ہے، بقیہ تمام مضامیں انگریزی میں پھر چاہے وہ اسلامیات اور تاریخِ پاکستان ہی کیوں نہ ہوں۔ سرکاری دفاتر میں کام کرتے غربا ہی بس اُردو بولتے نظر آتے ہیں باقی جو دو جماعتیں پڑھ جاۓ، وہ انگریزی ہی پر ہر لمحہ طبع آزماٸی کرتا پایا جاتا ہے۔ اردو قومی زبان تو مانی جاتی ہے مگر سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیوں نہیں۔ جبکہ 1973 کے آٸین کی شق 251 کے تحت اردو سرکاری زبان ہے لیکن ہم اس دستور پر عمل پیرا کیوں نہیں۔ بلکہ یوں کہوں تو زیادہ مناسب ہے کہ دستور کی یہ شق ہمارے علم میں کیوں نہیں۔ 1831 میں اُردو ہندی تنازع پر مسلمان تڑپ اُٹھے تھے اور آج ہم اُردو انگریزی تنازع کا شکار ہیں مگر ہمیں علم ہی نہیں۔ ہمیں تکلیف ہی نہیں ہوتی کہ کوٸی ہم سے ہماری عزیز از جان زبان چھین رہا ہے۔ بحیثیت پاکستانی، ہمارا فرض ہے کہ اپنی زبان کے نفاذ اور تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، جاگیں اور خوابِ غفلت سے دوسروں کو بھی بیدار کریں ورنہ اغیار ہم پر اپنا تسلط کچھ یوں قاٸم کر لیں گے کہ ہم دوبارہ اُٹھ نہ پاٸیں گے۔
اُردو زباں، میں فقط تیری محافظ
اغیار کے پیروکاروں کو خداحافظ
(ازخود)

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *