Site icon Prime Urdu Novels

Ik tarap ik fikar article by Shaneela Jabeen Zahidi

articles

“”اک تڑپ ، اک فکر۔ “”       

از قلم شنیلہ جبین زاہدی
“”کالم نگار””مذہبی سکالر “”

“دیں سراپا سوختن اندر طلب
انتہائے از عشق ، آغاز ادب””
کمال ہے وہ ذات جس نے انسان کو “احسن تقویم” کا تاج سجا کر کائنات ارض و سماء کا دلہا بنایا اور کائنات کی تمام مخلوقات سے ممتاز فرما دیا ۔ انسان کے اندر اک تڑپ رکھ دی کہ چاہے تو وہ خودی کو پا کر عرشیں بریں کی حدود پار کر جائے ، چاہے تو خودی مار کر اسفل السافلین میں شمار ہو جائے ۔ اس تڑپ نے اک انسان کو ہی معراج کی رات کا دلہا بنایا اور ہواؤں کو انسان کے تابع کردیا۔ اسی تڑپ نے غار حرا میں سانپ سے ڈسوایا ۔ اسی تڑپ نے عرب کے ریگزاروں میں خود کو جھلسوایا ،یہی تڑپ ایک انسان کی گردن کو چھری کے نیچے  لے آئی اور انعام خداوندی کا مستحق ٹھہرا ، کہ اللہ نے رہتی دنیا تک اس کو زندہ کر دیا ۔اسی تڑپ نے کربل کے میدان میں اکمل ترین سجدہ کروایا ۔اسی تڑپ نے پلک جھپکتے میں تختہ بلقیس راہ فرش کیا۔یہی تڑپ پرودگار نے ہر ذی روح میں پیدا فرما دی کہ وہ خود کو پہچانے ، خود کو جانے کہ ، آیا !!
کس کام کے لئے اس کی آفرینش ہوئی ۔یہی جذبہ تھا جس کے تحت رومی ،جامی، جیسی شخصیات جلوہ گر ہوتیں رہیں ۔یہ سلسلہ یہی پر ہی نہیں رکا بلکہ بتدریج بڑتا رہا۔ اسی تڑپ نے خودی کو جانا اور چاند تک جانے کا راستہ بھی ڈھونڈ نکالا ۔ہاں اسی تڑپ نے سمندروں کی تہیں تک کھنگالیں اور کئی ہزار سال پرانی تاریخوں کا کھوج لگا لیا۔سائنسی ایجادات، ایٹم بم ، ٹیکنالوجی اسی تڑپ کا دوسرا رخ ہیں جس سے آج انسان محو حیرت ہے ۔ یہ سائنس ، علم ریاضیات،  علم نباتات ، علم فلکیات ،اسی تڑپ کا نتیجہ ہیں۔ ان سب کو پانے کے لئے ان نفوس کا وقت لگا ،اک عرصہ وہ اس پر کام کرتے رہیں ، اک عرصہ انھوں نے تنہائی کی قید کاٹی۔ انکا سلسلہ ارتکاز ایک نقطے پر مرتکز رہا ۔ وہ نفوس اسلام جیسی عظیم دولت سے مزین ہوں یا اس سے محروم ۔ قدرت انکو انکی محنت کا ثمر  کامیابیوں کی صورت عطا فرماتی رہی۔ تڑپ اک لگن کا نام ہے جو انسانی کیفیت کو بدلتی رہتی ہے اور اس کا تعلق قلب کے ساتھ ہوتا ہے ۔ محققین کا کہنا ہے کہ دل ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے جسم کو کنٹرول کرتی ہے ۔ یہ اگر ٹھیک ہوتو انسان کا سارا نظام صحیح اور بروقت کام کرتا ہے ۔ لیکن بعض اس کی اک اور توضیح پیش کرتے ہیں کہ انسان کا سارا نظام دماغ کے ذریعے کام کرتا ہے ۔ جبکہ محبین الہی کا کہنا ہے کہ یہ سارے روحوں کے کھیل ہوتے ہیں جو اوپر کہیں اپنے فیصلے کروا کے آتی ہیں۔ لیکن میرا یہاں پہ خاص تعلق قلب کے ساتھ  ہے ۔ رب کائنات نے انسان کے دل کو بہت مزکا ،مصفہ ، بنایا ۔ یہ تو انسان ہے جس نے اسکو آلودہ کر دیا۔ اسکو حسد ،حقد،  کینے ، غم و غصے ، نفرت و عناد کے  تعفن اور بد بو سے بھر دیا ۔ خود نما نفوس دل کو مطہر کرنے کی بجائے حج و عمرے اور عبادات کو اپنا منشا سمجھتے رہے ۔انکے نزدیک حقوق العباد کی کوئی حقیقت نہیں ۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا چاہوں گی کہ قبلہ دل کے پیالوں کو سیدھا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اقبال کے مرشد مولانا روم نے فرمایا کہ حج اکبر سے بہتر ہے کہ تم اپنے دل کو قابو میں کر لو ۔
یہ قابو میں ہوگیا تو سمجھ لو کہ تمہیں حج اکبر کا ثواب مل گیا ۔ورنہ صوفیائے اکرام کی لہہ الگ بہتی ہے وہ اس معاملے میں کہتے سنائی دیتے ہیں
دل کالے کولوں منہ کالا چنگا
جے کوئی اے رمز پہچانے ہو
“باہو”
کیونکہ مالک سموات نے کائنات میں کمال خوبصورت اجسام  بنائے ۔لیکن انھوں نے قلب کو عداوت و عناد بغض و کینہ سے اسکو آلودہ کردیا ۔ بڑی خوبصورت مثال ذہن میں آگئی کہ ابو جہل مکہ کا خوبصورت ترین آدمی تھا ۔ جہل کہتے ہیں سورج کی طرح چمکتی رنگت والا ۔لیکن اسکا دل سیاہ تھا اور بالآخر جہنم کا ایندھن بن گیا ۔دوسری جانب حبشی کا رنگ تو کالا لیکن اندر سفید تھا ۔مصطفٰیﷺ کی آنکھ کا تارا بن گیا ۔رب کائنات کو اتنا پیارا ہوگیا کہ اسکی زبان سے صبح کی صدا نہیں سنی تو سورج کو روک دیا ۔بلال اذان دو کہ سورج کو اجازت دوں۔قانون قدرت بدل دیا گیا کیونکہ لگن اور تڑپ سچی تھی۔ اولیاء کاملین کا بھی طریقہ ء زیست یہی رہا۔ انکی مجلس میں  جو بھی زانوئے تلمذ طے کرتے رہے انھیں وہ دل کے کٹورے کو ستھرا اور نکھرا کرنے کا ہی درس دیتے رہے ۔
کہ دل کو بغض و عناد کی گندگی سے پاک کر لو ، مالک نے جیسا اسکو بنایا ٹھیک اسکو ویسا ہی مصفہ کرلو۔
کیونکہ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا ۔
“”کہ انسان گندے برتن کے اندر دودھ نہیں ڈالتا ، تو پاک پرودگار گندے دل میں اپنا نور کیسے ڈالے گا ۔”
فی زمانہ کسی کے ہاں کسی مہمان کی آمد ہو تو اہل خانہ گھر کو اور گھر سے باہر جگہ کو صاف کرتے ہیں کہ مہمان کی طبع نازک پہ ناگوار نہ گزرے ، کہیں تعفن و بدبو کا شائبہ تک نہ ہو ، ورنہ مہمان کے سامنے سبکی اٹھانی پڑھ سکتی ہے ۔ کہیں وہ دل میں یہ نہ خیال نہ کرے کہ کیسا انسان ہے ، گھر میں گندگی پھیلا رکھی اور مجھے گھر میں دعوت دے دی ۔ انسان ہر طرح سے اسے صاف رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔
تو خود سوچو وہ جو سب سے زیادہ اس بات کا حقدار ہے کہ اسکی گزر گاہ اسکی قیام گاہ (قلب) کو صاف کیا جائے ۔ہم نے وہیں جگہ چھوڑ دی اور دنیا کی فکر میں لگ گئےتو وہ کیسے اس دل پہ نگاہ خاص فرمائے گا ۔ اولیائے اکرام کا یہ وطیرہ رہا کہ وہ دل کو پاک کرتے رہے اسکو اشکوں کے پانی سے مصفہ کرتے رہے ، توبہ کے ورد سے مزقہ کرتے رہے ، پیار کے محملی قالین ڈالتے رہے ، الفتوں کے گاو تکیے لگاتے رہے  ،  پھر کہتے رہے ۔
کہ ہر تمنا اب دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا ، اب تو خلوت ہوگئی۔۔
اپنے دل کے اندر عشق الہی کی جوت جگائیں ،اسے مناتے رہیں ، اسکی رحمت کو پکارتے رہیں ، اس سے مانگتے رہیں ، قرآنی اسلوب کو اپنا پیرہن بنا لیں ۔ فطرت کو قبول کریں۔اپنے اندر رومی جیسا سوز اور جامی جیسی تڑپ پیدا کیجیئے، جو کہتے تھے 
ہمیں سعادت من بس کہ چوں مرا بینی
بخاطرت گزدر کایں گدا اسیر منست
(عبدالرحمن جامی)
یہ ایک تڑپ ہی تو تھی جس نے ایک ایسا کارنامے ہائے شوق انجام پہنچایا کہ ہر طرف کرم شاہ، کرم شاہ کی صدا گونج گئی اور فضاء عشق الہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشکبار ہوگئی ۔ بابا کرم شاہ دنیا میں اک مقصد لے کے آیا اور اسکی تکمیل بھی کر کے گیا اور کئی سینے روشن و منور بھی کر گیا۔اسکے جانے کے بعد یہ تڑپ یہ شوق ہزاہا عشاق نے اپنا پیرہن بنا لیا۔ اسکی تڑپ تھی کہ اے اللہ کرم شاہ بھلا نہ دیا جائے ، اللہ نے اسکے اخلاص کے حسیں غنچئہ کو کئیں دل کی کلیوں میں سما دیا اور خوشبوئے کرم کو نگر نگر پھیلا دیا ۔ انسان دنیا سے چلا گیا لیکن دنیا کو اک فکر اک سوچ عطا کر گیا ۔ اسکو حیات جاویدانی عطا کر دی گئی۔ آئیے اور  اپنا ایک مقصد بنا لیجئے اور اس مقصد کو اپنا محبوب بنا لیجئے ،پھر اسکو پانے کے لئے اپنا سب قربان کر دیجئے ۔
چاہے وہ مقصد دین متین کی خدمت ہو یا خلق خدا کی خدمت ، اپنے قلب و روح کی اصلاح کر لیجئے ۔ کسی نے کہا تھا کہ دل کو پاک کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ محبت کریں، اگر محبت کرنا مشکل لگتا ہے تو صرف انسان کو انسان تسلیم کر لیں۔

.

*************

Exit mobile version