السلام علیکم ۔۔
میری پچھلی تحریر جس میں سکول اور استاد پہ اختلاف کیا گیا تھا جہاں بہت سے لوگ متفق ہوے وہی بہت سو نے اختلاف راۓ بھی قائم کیا تومیری آج کی تحریر میرے ان معزز اور محببین پڑھنے والوں کے لئے جنہوں نے اختلاف قائم کیا میں اپنی تحریر میں سبکو نہ تو برا کہا اور نہ ہی سب کو اچھا کہا کیوں کے کائنات کا نظام چلنا اس بات کی دلیل ہے کے دنیا میں ابھی اچھے لوگ موجود ہیں اگر یہ دنیا صرف برائی کا مجموعہ ہو گئی تو پھر نظام کائنات پہ صور پھونک دیا جائے گا کوئی شک نہیں کہ پہلی درسگاہ بچے کی اس کی ماں ہوتی ہے دوسری اس کے ارد گرد کا ماحول اور پھر استاد کے زیر نگرانی بچے کو بیجھا جاتا ہے لیکن دور جدید میں پہلی درسگاہ انکی ماں سے زیادہ موبائل فون ہو گیا ہے یہ تصویر کا ایک رخ ہے آج بھی ایسی عظیم مائیں موجود ہیں جو اپنے بچوں کی تربیت بری سینت سینت کے کرتی ہیں جو اپنے بچوں کی خاطر اپنے بہت سے شوق اور عادتوں کو پس پشت ڈال دیتی ہیں اور سکول اور استاد پہ یقین کرتے ہوئے اپنا بچہ انکے سپرد کر آتی ہیں استاد کو تو روحانی ماں باپ کا درجہ دیا گیا ہے نہ کے یہ روہنیت کو سنوارے گا ماں پڑھی لکھی ہے یا نہیں پر ہر ضروری بات بچہ ماں سے ہی سیکھتا ہے تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ میں نے بہت سے ایسے استاد بھی دیکھے جو اپنے اونچے منصب سے نیچے پستیوں میں گر گے جو استاد جیسے عظیم نام پر کلنک ثابت ہوے اور بہت سے بچے اپنے انہی استادوں کے ہاتھوں حوس کا نشانہ بنے اور کچھ استاد ایسے بھی سامنے آے جو صرف اپنی نام نہاد عزت کی خاطر انکے بچوں کے کیے گے افعال کی بروقت اطلاع انکے والدین تک پہنچاتے ہی نہیں ہیں برائی کو اگر شروع میں ہی پکڑ کر اسکا قلعہ اکھاڑ دیا جائے تو وہ جڑ پکڑ کر تناور درخت بننے سے رک جاتا ہے مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی یہ کہتے ہوئے کے اگر میر حسن جیسے استاد ہوں تو پھر شاگرد علامہ محمد اقبال جیسے ہی ہوں گے بچے اپنا زیادہ وقت آج اپنے استاد کی زیر نگرانی میں گزارتے ہیں پہلے کوئی چھ گھنٹے سکول اور پھر اکیڈمی میں تین سے چار گھنٹے گزارنے کے بعد ماں کے سامنے آتا ہے اگر والدین استاد پہ اور استاد والدین پہ تربیت کی زمیداری ڈال کے خود بری الزمہ ہو جائے گے تو پھر تو معاشرے کا نظام درہم برهم ہو گا نہ قصہ مختصر یہ کہ جب تک والدین اور استاد اپنی اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے نہیں نبھاے گے تو پھر ہم برائی کو جنم لینے سے روک نہیں پاۓ گے والدین اور استاد بچوں کی تربیت کرنے والے دو ایسے ستون ہیں جن میں سے ایک کے بھی ناقص ہو جانے سے شر اور برائی جنم لے سکتی ہے ۔۔خوش رہیں خوشیاں بانٹیں اللّه اپکا حامی و ناصر ہو ۔۔
بنت صدیق ۔۔