Site icon Prime Urdu Novels

ILham kya hai article by Sadaf Fatima

articles

اِلہام کیا ہےاز قلم صدف فاطمہ

کیا اِلہام اس دور میں بھی ہوتا ہے کہ صرف انبیإ کے ساتھ مخصوص تھا?
آٸیے جاننے کی ایک ادنا سی کوشش کرتے ہیں
خدا کی طرف سے دل میں آنے والے خیال سے یقین تک کا سفر۔۔۔
ہر دور میں ہر مومن کو الہام کیا جاتا ہے لیکن ہر انسان الہام کی حقیقت نہیں جانتا وحی اے الہیٰ کہ بعد جو مومنوں کہ دلوں میں راہِ طریقت پر چلنے میں معاونت کرتا ہے وہ الہام ہی ہے
الہام کی کٸی قسمیں ہیں
جیسے ایک الہامِ صغریٰ
دوسرا الہامِ وسطہٰ
تیسراالہامِ کبریٰ
الہامِ صغریٰ یہ ہر عام مسلمان کو بھی ہوجاتا ہے مثلاً نیکی کی بات کرنے کا ہمارے اندر سے کہا جانا یاں کسی کہ کہے بغیر اسکے دل کی بات جان لینا گناہ کرتے وقت ہمارے اندر سے منع کیا جانا غلط اور صحیح کا اندر سے یعنی ہمارے دل سے ہمارے دماغ کو بتایا جاناوغیرہ وغیرہ
الہامِ صغریٰ میں آجاتے ہیں
الہامِ وسطہٰ اس میں انسان پوشیدہ باتوں کو جاننے والا بن جاتا ہے جیسے کسی سے بات کر رہا ہے اسے اسکے اعمال افعال اسکے چہرے کو دیکھ کر دل کی نگاہ سے سمجھ آنا شروع ہوجاتےہیں وہ منافق اور مومن میں فرق کرنا جان جاتا ہے اسکی زبان سے حق کے چشمے جاری ہوجاتے ہیں وہ جب بولتا ہے تو لوگوں کو عشقِ حق کے سحر میں مدہوش کر دیتا ہے اسکے الفاظ سے قرار والی روحیں بےقرار اور بےقرار روحیں قرار پا جاتی ہیں اسکی زبان لغو اور فضول باتوں سے روک دی جاتی ہے اگر وہ فضول بولنا بھی چاہے اسکی زبان ہقلاہٹ کا شکار ہوجاتی ہے وہ مایوس دلوں کو امید دینے والا اور بھٹکے دلوں کو راہ پر لانے والا داعی مقررپا جاتا ہے کیونکہ وحی الہی کہ بعد یہ ایک راز ہے جو اللہ جس پر جس درجے کا چاہے اتار دیتا ہے تاکہ عوام الناس اس کہ زریعے خدا تک رساٸی پاسکے یہ میں نے مختصر بیان کیا اگر لکھنے پر آوں تو الہامِ وسطہٰ کی حد نہیں اور الفاظ کا سمندر اتنا گہرا نہیں کہ الہام کی گہراٸی کا کھوج لگا کر ہمیں اسکی گہراٸی کا علم دے سکے اس لیے مختصر الفاظ پر اِکتفا کرتی ہوں
الہامِ کبریٰ
یہ بڑا پیارا درجہ ہے یہ کروڑوں میں سے کسی ایک کو نصیب ہوتا ہے پہلے دو الہام جو بیان کیے ان پر ان تھک محنت کرنے کہ بعد اگر اللہ چاہے تو ہی کوٸی الہامِ کبریٰ تک پہنچ پاتا ہے ورنہ اپنی کوشش سے بہت مشکل ناممکن سہ ہے لیکن اللہ جسے چاہے عطا کرےاس میں انسان فرشتوں کی آواز اور نبیوں کی آواز اور آقا ﷺ کی آواز ولیوں کی آواز فوت شدگان مرحومین کی آواز اور جنات کی آواز مخلوقات کی آواز
حتیٰ کہ الہامِ بھیجنے والے اپنے رب کی آواز کو صاف اور خوبصورتی سے سن سکتا اور پہچان جاتا ہے کہ کون کس وقت اسکو کیا کہہ رہاہے فرما رہا ہے پکار رہاہے
اور یہ وہ انسان ہے جسے فنافی المرشد فنافی الرسول فنا فی اللہ کہ بعد بقا کامقام حاصل ہوجاتا زندگی کے اس سفرِقلیل میں رہ کر
جنکے بارے میں ایک شاعر نے پنجابی میں یہ شعرکہا ہے
ہین رب کو بوت پیارے رب راضی ہے ہیناں تے
ایوی نٸی پیر چومدے اسی اللہ والیا دے
بیٹھے تے ہین زمین تے پر دیداں لامکاں تے
ایویں نٸی پیر چومدے اسی اللہ والیاں دے
سب الہام ہوٸی باتیں میں جو بیان کرتی ہوں حدیث قرآن کہ علاوہ اپنے دل سے بیان کرتی ہوں بیان کر کہ میرے علم میں خود اضافہ ہوجاتاہے اسلیے کہتی ہوں آپ بھی بولا کریں لکھا کریں جو بھی دل میں خیالِ خیر آٸے اسے لفظوں کا لباس پہنا کربھٹکے دلوں کے لیے چراغِ ہدایت کی لو پیدا کریں ایسے لفظوں کو ملکر الہام پیدا ہوتے ہیں جو پھر مجھ سے آپ آپ سے کسی تیسرے چوتھے تک پانچویں تک پھیلتےہیں جو زبان سے ادا ہوجاٸیں وہ ظاہری الہام ہیں جو خود تک رہ جاٸیں وہ سراسر عشقِ حقیقی میں عاشق کہ وجود کہ لیے نا رکنے والا طوفان ہیں
کیونکہ جب تک وہ کسی کو بیان نہیں کرے گا وہ اندر ہی اندر کسی ناچاہی جنگ میں مصروفِ عمل رہتا ہے جس کا بیان الفاظ کے احاطے میں لانا لا متناہی فعل ہے

اِلہام اور استخارہ
استخارے کی کٸی قسمیں ہیں
میں نے اوپرجو الہام کی قسمیں بیان کی وہ صرف تین تھیں بات کو مختصر انداز دینے کہ لیے ورنہ الہام کی انگنت قسمیں ہیں
استخارے کی بھی کٸی قسمیں ہیں
ایک استخارہ عدد کا ہوتا ہے جو کہ ریاضی کی طرح ناموں کے عدد سے عدد نکال کر مقصد سے ملاٸے جاتے ہیں اور جواب جانا جاتا ہے
ایک استخارہ خوابی ہوتا ہے طرح طرح کے طریقے اور آیتیں سورتیں مذکور ہیں اس کے کرنے کی اور دنوں کی معیاد بتاٸی جاتی ہے اس میں کہ تین دن پانچ دن سات دن گیارہ دن اکیس دن یاں پھر اکتالیس دن روزانہ کر کہ سوٸیں خواب میں مقصد کا اشارہ ہوتا ہے جب ہو جاٸے اشارہ تو استخارہ کرنے کہ جتنے دن بتاٸے ہیں وہ پورے کرے کیوں کہ خیر و شر کی خبر تین بار اشارہ ہونے میں مخفی ہوتی ہے

ایک استخارہ ہوتا ہے موکل والا اس میں کسی کہ پاس جنات ہوتے ہیں وہ مستقبل نہیں بتاتے ہاں دور کی یاںچھپی چیز کی خبر لاکر استخارہ کرنے والے کو دیتے ہیں مثلاً کوٸی گھر سے بھاگ گیا ہے وہ کہاں ہے چوری ہوگٸی چوری کا سامان یاں چور کدھر ہے کون ہے یہ استخارہ کرنے والے وہ ہوتے ہیں جنکے پاس موکل ہوتے ہیں
ایک استخارہ ہوتا ہے اذن کا
یعنی کسی ولی شیخ سے اجازت لے لی ہو کسی کو بھی استخارہ کر کہ دے سکتا ہے تو اس میں وسیلہ آجاتا ہے فیض کا وسیلہ اس وسیلے کو استعمال کرنے کہ لیے ہدیہ لینا لازمی ہوتا ہے جس سے وہ اپنے اس ولی یاںشیخ کی طرف سے خود نیاز دلا دے یاں انکو ہدیہ ہی دے دے کہ وہ خود جانیں کیا کرنا کیونکہ روحانیت میں وسیلے کی پاور انبیإ اولیا کہ نام کی زیادہ سے زیادہ نیاز دلانے میں ہے ورنہ نقصان ہوتا ہے استخارہ کرنے والے کا کیوں کہ اس نے روحانیت کہ مقام سے وسیلے سے اجازت لی تھی اب جس ولی شیخ سے اجازت لی اسکا وسیلہ جہاں سے لیکر آقاﷺ تک جڑا ان سب سے وسیلہ جوڑے رکھنے کا طریقہ ہی یہی ہے کہ وہ نیاز لیکر دے پھر استخارہ کر دے اسطرح اسکا روحانیت میں قدسیوں سے تعلق بحال اور مضبوط بھی رہتا ہے یہ ایک فیض کا طریقہ ہے اور یہ استخارہ وہ کسی بھی طریقے سے جو اسے مناسب لگے کہ یہ بہتر ہے اس طریقے سے کر سکتا ہے اذن والا انسان یعنی جسے اذن ہو اس نے زندگی میں اگر کوٸی وظیفہ سوا لاکھ کیا ہو تو وہ اس کی تسبیح پڑھہ کر عدد نکال کراستخارہ کرسکتا ہے استخارے کہ لیے دو نفل پڑھنا اوردعا ٸے استخارہ پڑھنا سنت ہے
ایک استخارہ الہامِ کبریٰ والوں کا نصیب ہوتا ہے جس میںوہ جہاں چاہیں جسے چاہیں وہ جو پوچھیں آنکھیں بند کر کہ یاں کھلی آنکھوں سے ہی اللہ سے سوال کر کہ جواب پاکر بتا دیتے ہیں کھڑے کھڑے یاں بیٹھے بیٹھے انہیںکسی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی
جیسا کہ میں نے کہا استخارے کی بھی کٸی قسمیں ہیں جس میں چند مختصر میں نے کی اللہ کہ حکم سے
اللہ مبالغے سے محفوظ فرماٸے
آمین بجاہِ النبی الامین
چھٹی حس اور اِلہام
بعض لوگ اِلہام پر بلیو نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ چھٹی حِس تیز ہونے کی وجہ سے مقابل کو حال پہ عبور حاصل ہے اسلیے ایکسٹرا بات بتا دیتا ہے
چھٹی حِس ایک زہنی پاور ہوتی ہے دماغ عام روٹین سےزیادہ تیز چلتا ہے چھٹی حس کا جو اشارہ ہوتا ہے اسے دماغ زبان تک لاتا ہے کیونکہ اس میں دماغ کی صلاحیت کا دخل ہے الہام دل میںاترتا ہے اور زبان سے یاں اعضاٸے جسم سے نکلتا ہے اب سوچیں گے اعضاٸے جسم سے کیسے نکلتا ہے
میں نے اوپر عرض کی کے الہام کی کٸی قسمیں ہیں ان میں سے موصوف جسے الہام ہوا وہ اگر تو اسکے لیے ہے تو وہ اسے اپنے لیے استعمال کرے گا اگر کسی انسان کہ لیے ہے تو اِلہام ایک بذاتِ خود قوّتِ یزدا ہےکسی بھی کیفیت سے یہ ایک سے دوسرے تک ٹرانسفر ہونے کی صلاحیت اِلہام کے اندر موجود ہے اِلہام موصوف کے اندر سے کسی بھی شکل میں فعل و حرکت سے خارج ہوکر دوسرے تک پہنچ جاتا ہے کیوں کہ اللہ یونہی اپنے امور انجام دیتا ہے جیسے کسی ولی کا نگاہِ ولایت سے دیکھ کر ولی بنا دینا محبت سے دیکھ کر محبت کرنے والا بنا دینا دینا غصے سے دیکھ کر جلال والا بنا دینا تو کاریگری اللہ کی اور ولی کو ملنے والا پیغامِ اِلہام وسیلہ بندے کی رساٸی کا خود سے خودی میں کہیں خود سے خودی خود خدا تک۔۔۔
وما علینا الا بلغ المبین
از قلم صدف فاطمہ

.

*************

Exit mobile version