Khebar tumhari akhri fatah thi article by Qamar Un Nisa Qamar

articles

خیبر تمہاری آخری فتح تھی

تحریر: قمرالنساء قمر

     اگر آپ قلم کار ہیں۔ اور آپ کا قلم فلسطین،کشمیر اور دیگر مظلوم مسلمانوں کے حق کے لئے نہیں اٹھا، تو آپ نے قلم کا حق ادا نہیں کیا۔اگر آپ استاذ ہیں اور آپ نے طلبا کو مسلمانوں پر ہونے والے مسلسل ظلم کی روئداد نہیں سنائی ان کو اپنی تاریخ اور اسلام کا صحیح رخ نہیں دیکھایا، تو آپ نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔مسلمانوں پر ہونے والے مظالم  سے اگر کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے مسلمان نے درد محسوس نہیں کیا۔ اس کے لیے کوشش نہیں کی تو آپ کو اپنے اندر جھانکںا چاہئے کہ آپ کے سینے میں دل اپنی حالت پر ہے بھی کہ نہیں۔ وہ مائیں جو بچوں کو اسلام کا پیغام نہیں دے سکیں۔  سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے تاریخی ہیروز کو ان کا آئیڈیل نہیں بنا سکیں۔ جو انہیں شہیدوں کے لہو کی اہمیت اور اس کی لاج رکھنا نہیں سیکھا سکیں۔ ان کی تربیت کو تربیت نہیں کہا جا سکتا۔
 
              جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتیں ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتیں۔ جو قومیں اپنے شہیدوں کے لہو کو فراموش کر دیتیں ہیں۔ وہ قومیں خود فراموش ہو جاتیں ہیں۔ مٹ جاتیں ہیں۔ انہیں آئٹم بمبووں سے تباہ کر نے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مسلمان تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو ایک  ایک لفظ شہیدوں کے لہو سے لکھا محسوس ہوتا ہے۔ ایک ایک مسلمان کی قربانی اپنے اندر کئی کئی درد اور اپنے بعد آنے والوں کے لئے کئی کئی  پیغام لئے ہووئے ہے۔ماؤں کے جگر گوشے اسلام کے بیٹے اپنے وطن سےگھروں اور بچوں سے دور کئی کئی ماہ تک جنگ و جہاد کرتے رہیں۔ بھوکے اور پیاسے بھی لڑے صحراؤں اور بیابانوں میں بھی لڑے۔ اپنے جذبوں کو اپنے رشتوں کو اسلام کی عظمت پر قربان کر دیا۔ ہمارے لئے وہ تاریخ چھوڑ گئے جو ہمارے لیے فخر کا باعث ہے۔ لیکن ہم مسلمانوں کو ایسی پستیوں کا شکار کر دیا گیا کہ ہم جلتے آنگارو  کو ہیرے جواہرات کی چمک سمجھیں۔ اور ان کی طلب میں ایسے اندھے ہووئے کہ ہیرے تو ہاتھ نہ آئیں مگر آگ سے ہاتھ جلا بیٹھے۔

         ہمارا ورثہ ہماری تہذیب اتنی ارزاں تو نہ تھی کہ ہم اس کو بھول کر فرنگیوں کے پیچھے لگ گئے۔ وہ فرنگی جنہوں نے کچھ پایا ہے تو مسلمانوں کے در سے پایا ہے۔ہم نے تو یہ جاننے کی زحمت بھی نہیں کی کہ یہ فرنگیوں کی کتابوں میں جو بڑے بڑے  نام ہیں۔ یہ ان کے نہیں ہمارے مسلمان ہیں۔ جن کے ناموں میں ترمیم کر دی  گئی۔ ورنہ فرنگیوں کو مسلمان قوم کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے والے مشن میں بڑی رکاوٹ کھڑی ہو جاتی ۔وہ فرنگی جو اس  صدی میں پلے کارڑ اٹھا کر کہتے ہیں۔ کہ خیبر تمہاری آخری فتح تھی۔ان کے نوجوان تاریخ سے آگاہ ہیں۔ مگر ہمارے نوجوانوں کی آگہی کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔  ہم کیا جانے فتح خیبر کیا تھی ہمیں کیا معلوم بدر کیا تھی ہمیں کیا معلوم  نبی کریم ﷺ کے  مبارک جسم پر پتھروں کے زخم کیوں آئیں۔ ہمیں کیا غرض ابن قاسم نے میلوں کے سفر کیوں کئے۔ ہمیں کیا تکلیف کہ فلسطین کے مسلمانوں کا خون کیوں پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ ہمیں کیا فرق پڑتا ہے کہ کشمیریوں کو آگ میں کیوں جلایا جا ریا ہے۔ ہمیں اس سے کیا سروکار کہ افغانستان میں مسلمان بھوکے کیوں مر رہیں ہیں، ہمیں کیا خبر کہ برما کی بچیوں کے کباب کیوں بنائے گئے۔ فلسطینی بچوں پر ٹینک کیوں چڑھائے گئے ان کے گھر کیوں مسمار ہو رہیں ہیں۔ ہمیں کیا خبر انڈیا میں مسلمان عورتوں کو کیوں ذبح کیا جا رہا  ہے۔

          ہمیں کیا خبر کہ ایک فلسطینی باپ  اپنی دو بچیوں کی لاشیں سینے سے لگا کر کس درد سے روتا ہے، پھر انہیں کس طرح قبر میں اتارتا ہے۔ ہمیں اس سے کیا اگر کشمیری اڑھائی سال سے قید کر دئیے گئے ہیں تو۔ ہمیں کیا خبر اس باپ کے درد کی جس کی بیٹی ہندو اٹھا لے گیا پھر وہ مسلمانوں کا پکارتا ہے تو اس کی چیخیں بھلے عرش ہلا دیتیں ہیں۔ لیکن ہمیں کیا لینا دینا اس بات سے کہ یہ اغواشدہ کشمیری  لڑکیاں  پینتیس نہیں پینتیس ہزار ہیں۔  ہاں یہ یاد ہے پچھلے برس بھی روزے رکھیں  دعوتیں کھائیں۔ مگر اس سے کیا غرض کہ گزشتہ برس آمد رمضان المبارک کے ساتھ ہی مسجد اقصی کی کتنی بے حرمتی کی گئی۔ یا فلسطینیوں کا کتنا لہو بہا۔ کشمیری کس حال میں فریاد کر رہیں تھے۔  ہاں ہمیں ان پلے کارڑ پر درج گیدڑ بھبکیوں  کا جواب کیوں دینا ہے جو فرنگی اٹھائے پھرتے ہیں۔

      کیونکہ ہمیں تاریخ سے کیا لینا دینا، ہمیں تو بس اپنی دنیا سے غرض ہمیں شہیدوں کے پیغام اور ان کی فتوحات سے کیا علاقہ، ہمیں مسلمانوں سے کیا واسطہ،  ہمیں محرم کے چاولوں سے غرض ہمیں امام  حسین کے فلسفے کا کیا ادراک۔ ہمارے تو صحافی بھی آئے دن کسی انگریز کی حیات پر کالم لکھتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں صلاح الدین ایوبی سے  کیا نسبت۔یا ان مسلمانوں کے خون سے جنہوں نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ مل کر مسجد اقصٰی کو کفار کے قبضے سے چھڑوایا۔

ہمیں اخلاق اور امن کا معلوم جنگ و جہاد ہم کیا جانیں ہم تسبیح کے مقام سے واقف تلوار کو ہم کیا جانیں۔

            یاد رکھیں ایک دن مقرر ہے جسے آنا ہے۔ وہ تمام مسلمان جو تبلیغ تو کرتے ہیں۔ مگر اس فرض کی بات نہیں کرتے جس کے ذریعے خدا نے مسلمانوں کو ظالموں سے آزاد کروانے کا حکم دیا۔ اور  وہ مسلمان جو ووٹ کے ذریعے ایک ایٹمی طاقت والے ملک کو عمران خان، زرداری اور نواز شریف جیسے لٹیروں اور غاصبوں کے حوالے کرتے ہیں، یہ جانتے ہووئے بھی کہ ایسے مادیت پرست حکمران کشمیر کو کبھی آزاد نہیں کروائیں گے۔ فلسطین کے لیے کبھی کچھ نہیں کریں گے وہ یہ کبھی نہ بھولیں کل خدا کے حضور سبھی حساب ہونے ہیں۔ اور وہ لیبرلز اور سیکولر  بھی ایک بار اپنے گریبانوں میں جھانکیں جو لیڈر لیڈر کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے۔لیڈر کی رٹ لگانے والوں کو لیڈر کی تعریف تک نہیں معلوم، لیڈر کسے کہتے ہیں۔

         یہ جاننا ہو تو صلاح الدین ایوبی کو جاننے کی کوشش کریں اور اگر آپ کا سوال یہ ہو کہ اس دور میں ایسا لیڈر کہاں سے لائیں تو کیا ملا عمر اس دور کے لیڈر نہیں جنہوں نے وسائل نہ ہونے کے باوجود روس اور امریکہ جیسی طاقتوں کو ذلت آمیز شکست دی ہے۔ جہاں تک ہمارے ملک کی بات ہے ہمارے ملک میں بھی ایسا لیڈر ہیں۔ ان کے سچا لیڈر ہونے کی دلیل کے لیے یہی کافی ہے کہ امریکہ اور انڈیا دیگر طاقتوں کو وہ بری طرح چبھتے ہیں۔مفت میں ملنے والی چیزوں کی قدر نہیں ہوتی، ان کے ملنے کی جستجو کریں ۔مگر وہی جنہوں نے اس رہ کا مسافر بننا ہو جو اسلام کی نشاة ثانیہ کی خواہش مند ہوں۔جو مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانا چاہتے ہوں جو مسجد اقصٰی کو آزاد کروانا چاہتے ہوں۔ مگر یہ ضرور ذہن میں رکھے۔
     
         یہ سفر ہے کوئے جاناں یہاں قدم قدم بلائیں
      جنہیں زندگی ہو پیاری وہ یہیں سے لوٹ جائیں

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *