Site icon Prime Urdu Novels

Lashaoor article by Aqsa Falak

articles

تحریر ، لا شعور
رائٹر ، اقصی فلک

قلم کو رکھ دینے کا عہد آج
ایک مرتبہ پھر سے توڑ کر، سیاہی میں قلم ڈبویا ، اور قلم کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے استعمال کیا ، سائیکالوجی، یا دی پاور آف مائینڈآخر ھے کیا ؟ یا روح کا تعلق کس شہ سے ھے ؟ کیونکہ میں سائیکالوجی کی سٹوڈینٹ ہوں تو آج اسی پر ہم سب بات بات کریں گے ۔صوفی قمر اقبال کی کتاب خودشناسی اور روحانی علوم نے میرے لیے کئ انکشافات پیدا کیے جو راز مجھ پر اس کتاب کے زریعے سے کھلے آخر وہ کیا تھے ؟ آئیں آج آپ کو وہ راز بتاتی ہوں ۔ کتاب کو کھولنے سے پہلے سائیکالوجی کے حوالے سے اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ ہمارا دماغ دو حصوں پر مشتمل ھے
1)شعور
2)لا شعور
شعور کا% 1 ھے جبکہ لاشعور 99% پر مشتمل ھے ۔ سائیکالوجی درحقیقت روح اور ذہن کے درمیان جو تعلق قائم ھے اسکی سٹڈی ھے ۔ سائیکالوجی میں ہمیں دی پاور آف مائینڈ کے بارے میں بتایا جاتا ھے جبکہ دوسری طرف اسکو کمزور جان کر جو وہموں کا شکار ہو جاتے ہیں ، یا جو اس پاور کا غلط استعمال کرتے ہیں انکے ساتھ کیا ہوتا ھے ؟ اسکی سٹڈی ھے ۔ اب ایک بات اور ذہن میں رکھیں لاشعور ایک بہت بڑی پاور ھے ہمارے دماغ کی ۔ جو بات اس میں ایک مرتبہ چلی جائے تو وہ ساری زندگی اس میں سے نہیں نکلتی، میں نے سائیکالوجی رکھنے سے پہلے پاور آف مائنڈ کے حوالے سے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا ھے ۔ لاشعور کے اندر پوری کائنات کا علم موجود ھے ، لیکن ہم اس سے ناواقف ہیں ۔ لاشعور سے ہم اپنا ہر کام کرواسکتے ہیں، ہمارا کوئی بھی کام جو ناممکن ھے ہماری نظر میں اسے ہم نے اپنے لاشعور میں ڈالنا ھے ۔ پھر پوری کائنات ہمارے لیے سبب پیدا کردے گی اور ہم وہ کام ایسے کر دیں گے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلے گا ۔ اب بات کرتے ہیں ہائی پو تھیسیز پر یہ کیا ھے ؟ اس کے ذریعے سے بات ہمارے لاشعور میں جاتی ھے ۔ سائیکیٹریسٹ اس کو اسی لیے استعمال کرتے ہیں ۔ جبکہ یہ ہائی پو تھیسیز کا عمل کوئی بھی ہمارے ساتھ زبر دستی نہیں کر سکتا جب تک ہم نہ چاہیں ۔ یہ اتنا علم تو ہماری فرسٹ ائیر کی کتاب میں بھی موجود ھے، اب آتے ہیں دوسری کتابوں کئ طرف جو کہ ریسرچرز نے لکھی ۔
لاشعور ہمارے دماغ کے اس حصے کو کہتے ہیں جو کہ شعور سے بیسوں گنا بڑا اور طاقت ور ہوتاھے ۔ مگر ہم اسے بہت کم ہی استعمال کرتے ہیں ۔ اس بارے میں جو کچھ نفسیات دانوں اور روحانیت والوں نے معلوم کیا ھے وہ اسطرح ھے ۔ کہ اس میں دنیا جہان کی تمام معلومات پڑی ہوئی ہیں۔ اس حصے کا تعلق کائناتی لاشعور سے بھی ھے ۔ ہم سب انسانوں کے لا شعور آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ نفسیات دانوں کو اسکا ثبوت بھی مل چکا ھے ۔ پہلے حضرت ابن عربی اور حضرت عبد الکریم دہلوی نے شخص اکبر کی صورت میں اسکا کئی جگہ ذکر کیا ھے ۔
القر آن ؛ ہم نے انسانوں کو تمام چیزوں کے اسماءسکھاے سوچیں وہ اسماء کون سے تھے ؟ یہی کائنات کےعلم کے بارے میں ادھر تذکرہ کیا گیا ھے ۔لاشعور کی صلاحیتوں کا تو میرے خیال میں ہم اسکا کڑورواں حصہ بھی استمعال نہیں کرتے ۔ اگر ہم اسکو دس یا بارہ فیصد ہی استعمال کرلیں تو ایک فوق الا انسان ، انسان کامل ( super being)بن سکتے ہیں ۔ لا شعور یقین کے قانون سے کام کرتا ھے جیسا کہ قرآن میں بھی الحق الیقین اور عین الیقین کا ذکر ھے ۔ اسی یقین کے تحت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے مردوں کو زندہ ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی درخواست کی تھی اللہ نے پوچھا تھا کے کیا تمھیں میرے وعدے( روز قیامت دوبارہ زندہ کیے جانے) پر شق ھے تو حضرت ابراہیم نے کہا ” نہیں مجھے شق نہیں ھے مگر میں اپنے اندرونی یقین کے لیے مردوں کو زندہ ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ پھر جب اللہ نے ان کے سامنے چار پرندوں کو ذبح ہونے کے بعد زندہ ہوتے دکھایا تو ان کا یقین علم الیقین سے گزر کر حق الیقین پر چلا گیا ۔( یقین جیسا کہ ہم کہیں میں بد قسمت ہوں ، ہاں مجھے پتہ ھے کہ میرے ساتھ برا ہی ہونا ہوتا ھے تو ہمارا لاشعور چونکہ بہت پاور فل ہوتا ھے یہ بات جب اس کو پتہ چلتی ھے تو وہ واقعی ہمیں بد قسمت بنا دیتا ھے ۔ بلکہ پوری کائنات پھر ہمارے اس بد قسمتی کے فیصلے کیلیے مددگار بن جاتی ھے ۔ تو اب سمجھ آیا یہ ہوتا نیگیٹو سوچنے کانقصان ۔ اور یہی دوسری صورت کے ہم پوز یٹو سو چیں ، ہم خود کو بہت زیادہ خوش قسمت سمجھیں ۔ تو ہمارا لا شعور حقیقت میں ہمیں خوش قسمت بنا دئیگا ۔ تو اب سمجھ آیا کیوں قرآن میں بار بار پو زیٹو سوچنے کا حکم ملا ھے اور نیگیٹو سوچنے سے بچنے کا حکم ملا ؟ کیوں اللہ پر یقین اور بھروسہ کرنے کا حکم ملا ھے ؟ ہم نے یقین کرنا ھے کہ اللہ سبحان و تعالی نے ہمیں دنیا کا خوش قسمت ترین انسان بنایا ھے ، ہمیں اپنے لاشعور کو ہر حالت میں اور مسلسل بتاتے رہنا ھے کہ کوئی بات نہیں اگر ابھی یہ مشکل یا پریشانی ھے تومیں پھر بھی نہیں گھبراوں گی کیوں کہ اللہ تعالی کی مدد بہت قریب ھے ، وہ رب مجھ سے بہت محبت کرتا ھے ، ابھی وہ رب میرے لیے مدد بھیجے گا مجھے اس پر یقین ھے ، پھر دیکھنا کہ کیسے کیسے معجزے آپکی زندگی کا حصہ بنیں گے ۔ دنیا کے کسی بھی کام کو کرتے وقت ہمیں یہ یقین رکھنا ھے کہ ہم یہ کام آسانی سے اور کامیابی سے کر لیں گے ۔ اسی مثبت یقین کی وجہ ہمارا لاشعور ہماری مدد کرتا ھے اور وہ کام کامیابی سے پورا ہوجاتا ہے ۔ لاشعور دماغ کے بہت سے ایسے کام ہیں جس کو ہمیں محسوس کیے بغیر خود بخود کرتا رہتا ھے ، جیسے کہ خون کی گردش کا کنٹرول ، جسم کو صحت مند رکھنا وغیرہ ہمارا لاشعور بہت زیادہ پاور فل ھے لیکن ایک بات یاد رکھیں اور وہ یہ کہ وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح ھے ، اسے صحیح اور غلط کی کوئی تمیز نہیں ، وہ تمیز آپ نے اسے دینی جو بھی پیغام آپ اسے لگاتار دیتے رہیں گے یہ اس پر عمل کرنا شروع کر دیئگا ، اسکی ایک طاقتور مثال یہ کہ صبح اٹھ کر آپ یہ فیصلہ خود کرتے ہیں کہ آج کا دن میرا اچھا گزرے گا یا برا، اگر کسی وجہ سے آپکے ذہن میں یہ آگیا کہ آج کا دن برا ھے تو لاشعور اسے 80% برا بنا دئیگا ، جادو کا اثر تو ہوتا ھے لیکن جو خود پر اسکے اثر کو نہ مانے اس پر بڑے سے بڑے جادو کا اثر بھی 10% سے زیادہ نہیں ہوتا ، اور جو خود جادو کا اثر مان لے اس پر اسکا اثر بڑھتے بڑھتے 90% ہو جاتا ھے ۔ اسی طرح کسی کی بددعا کا اثر بھی 5% سے زیادہ نہیں ہوتا بشرطیکہ کے آپ اس پر یقین کرلیں ۔ لاشعور کی اور بہت سی طاقتیں ہیں ہم اس کے ذریعے سے اپنے جسم کے اندر موجود سیلز کو تبدیل کر سکتے ہیں، اس کے ذریعے سے اپنی آنکھوں کے رنگ تبدیل کرسکتے ہیں ۔ یہاں پر میں آپ سے دو واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گی ۔ میں نے ریسرچرز کی کتابوں میں پڑھا ھے ۔ ایک 50 سے 60 سالہ عمر کی خاتون جسکی یاداشت بہت کمزور ہو گئی تھی اس نے خود اپنی یاداشت کو بلکل ٹھیک کر لیا ، جب اس سے پوچھا گیا تو معلوم ہوا وہ دن میں کئی مرتبہ اپنے آپ سے ہم کلام ہوکر کہتی تھی میری یاداشت دن با دن بہتر ہو رہی ھے ، میری یا داشت دن با تیز سے تیز ہو رہی ھے ، اب دوسرے واقعے کا ذکر کرتی ہوں امریکہ میں پاور آف مائنڈ پر ریسرچ کے تحت انہوں نے ایک ٹیسٹ کیا ۔ دو مجرم جن کو انکے جرم کے تحت کوبرا سانپ سے ڈسوانے کا کہا گیا ، مگر یہ بات ان کے سامنے کہی گئی تھی کوبرا سانپ سے ڈسوانے کی ۔ (درحقیقت طہہ یہ پایا گیا تھا کہ انکو ایک معمولی سی سوئی چبوئی جائے گئی ) سزا کے تحت انکی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ۔ اور ان کو ہلکی سی سوئی چبھوئی ۔ ان کو یہ پتہ تھا کہ ابھی جسم پر کوبرا نے کاٹا ھے ، اب سوچیں دوستوں آگے کیا ہوا ہوگا ؟؟
کچھ گھنٹوں کے بعد ان دونوں بندوں کی موت ہو گئی ۔ جب معلوم کرنے ٹیسٹ کیلیے انکو لیباٹری میں بھیجا گیا کہ آخر ہوا کیا ھے صرف ایک معمولی سوئی سے ؟ تو ٹیسٹ کے بعد ریپوڑٹز میں یہ بات درج تھی کہ ان کے جسم سے کوبرا کا زہر نکلا ھے ۔ اب کیا آپ یقین کریں گے ؟؟ کیونکہ وہاں تو کوئی سانپ نہ تھا تو ایسا کیسے ممکن تھا ، یہ تھی انکے لا شعور کی طاقت انہوں نے خوف اور ڈر سے اپنے لاشعور کو بتا دیا تھا کہ ابھی ہمیں کوبرا ڈس لے گا اور پھر ہم مر جائیں گے ، اور لاشعور نے واقعی سوئی کی چبھن کے بعد کوبرا کا زہر انکی باڈی میں پیدا کردیا ۔ اور انکی موت واقع ہو گئی ، لاشعور کا کانسیپٹ اپنے مائنڈ میں بٹھانے کیلیے یوں سمجھ لیں ۔ یہ ایک کتاب ھے آپکی کتاب ، اب یہ آپ کا فیصلہ ھے کہ آپ اس پر کیا لکھیں گے ، آپ نے جو تحریر اس پر لکھنی ھے اسکا کام اس پر عمل کرنا ھے یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ لاشعور کے یہ ایک کمپیوٹر ھے ، کمپیوٹر کو ہم جو کام دیں وہ اسکے مطابق عمل کرتا ھے ۔ دماغ کی طاقت پر ہزاروں کی تعداد میں کتب لکھی جاچکی ہیں ۔ مگر لاشعور کے کانسیپٹ کو کلیئر کرنے کیلیے ابھی اتنا ہی کافی ھے، اس کی طاقت کے بارے آپ کا کیا خیال ھے اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئے گا ۔ تب تک کیلیے فی امان اللہ

.

*************

Exit mobile version