Site icon Prime Urdu Novels

Mehnat short story by Yusra Shakoor

محنت

يُسریٰ شکور

شان حاجی نور کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ جب وہ پیدا ہوا تو حاجی نور کے گھر خوشی کا سماں تھا ۔مگر جیسے جیسے وہ بڑا ہوا  نا تو وہ بول سکتا تھا نا ہی چل سکتا تھا وہ پیدائشی معذور تھا ۔ حاجی نور اور ریحانہ بی بی نے شان کا علاج کروانے کی ہر ممکن کوشش کی وہ لوگ اتنے امیر تو نا تھے پر دو وقت کی روٹی اور رہنے کے لیے چھت کا مناسب بندوست تھا ان کے پاس ۔ حاجی نور کی کریانہ کی دکان تھی جن سے ان کے گھر کا خرچ آسانی سے چل جاتا تھا ۔  اب تک جو پیسے انہوں نے جوڑ کر رکھے تھے سبھی شان کے علاج کے لیے خرچ کر دیے مگر اب کھانے کے پیسوں کے علاؤہ ان کے پاس اور پیسے نا تھے جس سے وہ شہر جا کر شان کا علاج کرواتے ۔ تھک ہار کر وہ خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ وقت پَر لگا کر اڑ رہا تھا ۔ محلے میں شان کا ایک ہی دوست تھا ھادی جو کبھی کبھی  اس کے پاس آ جایا کرتا تھا ۔ وہ محلے میں ایک چھوٹے سے سکول میں پڑھتا تھا ۔مگر جو بھی پڑھتا وہ شان کو بھی پڑھاتا  شان بول نہیں سکتا تھا مگر جو بھی ایک بار سن لیتا اسے اچھی طرح سے یاد کرتا تھا ۔ ایک بار ھادی نے  کاپی اور پینسل لا کر شان کو دی ۔شان سارا دن کچھ نا کچھ بناتا رہتا ۔ ایک بار شان کے گھر حاجی نور کے شہر والے دوست وحید صاحب آئے جب وہ جانے لگے تو ان کی نظر شان کے بنائے گئے سکیچ پر بڑی جو انہیں بہت پسند آیا مگر بنا کچھ کہے وہاں سے چلے گئے اگلے دن پھر وہی شخص واپس آیا اور اپنے ساتھ پینٹنگ اور سکیچ کا بہت سارا سامان لے آیا اور شان کو دیا ۔ خوشی سے شان کی آنکھوں سے آنسوں نکلنے لگے ۔ جاتے ہوئے انکل وحید نے شان سے کہا بیٹا خوب محنت کرنا میں کچھ دنوں تک واپس آؤں گا یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور شان نے پینٹنگ بنانا شروع کیں ۔دیکھتے ہی دیکھتے شان کی بنائی گئی پینٹنگز لاکھوں میں بکنے لگی ۔ انکل وحید نے ہی شان کی پینٹنگز ایک کمپنی کو بیچی جو کمپنی کو بہت پسند آئیں ۔ اور شان کی پینٹنگز کی وجہ سے حاجی صاحب اور ان کی فیملی سے غربت ہمیشہ کے لیے ختم ہوئی حاجی صاحب بہت خوش تھے ۔ جو محلے والے ان کے بیٹے پر سو سو باتیں کرتے آج وہی محلے والے اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے ۔ اور اس خوشی کی وجہ صرف اور صرف وحید صاحب تھے ۔ حاجی صاحب نے گاؤں کو چھوڑ کر شہر میں گھر بنا لیا

اور شان کا علاج بڑے ہسپتال میں کروانے لگے جس نے نتیجے میں شان اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکا ۔ مگر وہ بول نہیں سکتا تھا ۔لیکن شان کے والدین کے لیے یہی بہت تھا کہہ ان کا بیٹا چلنے پھرنے لگا تھا ۔

شان انکل وحید سے ملنے گیا تو ان کے ہاتھ میں ایک تصویر تھی ۔ شان نے ہاتھوں کے اشاروں سے پوچھا یہ تصویر کس کی ہے تو وحید صاحب نے بتایا یہ ان کے بیٹے کی تصویر ہے اور ساتھ ہی ان کی آنکھوں سے آنسوں نکلنے لگے ۔ پھر انہوں نے شان کو بتایا کہ ان کا بیٹا بھی شان کی طرح معذور تھا اور جیسے ہی وہ سات سال کا ہوا وہ فوت ہو گیا ۔ اس لیے انہیں شان اپنے بیٹوں کی طرح لگتا ہے اور اسی لیے انہوں نے شان کی مدد کی ۔ شان نے اپنے ہاتھوں سے وحید صاحب کے آنسوں صاف کیے اور ان کے گلے لگ گیا ۔

کچھ سالوں بعد شان کا شمار جانے مانے پینٹرز میں ہونے لگا اور پھر شان کو بیسٹ پینٹر کا ایوارڈ ملا ۔ شان نے سوچ لیا تھا کہ اب اسے اپنے طرح کے لوگوں کی زندگیاں بدلنی ہیں انہیں جینا کا طریقہ سیکھانا ہے تاکہ وہ بھی اپنی زندگی میں اداسی کو چھوڑ کر خوش رہ سکیں ۔

.

*************

Exit mobile version