Site icon Prime Urdu Novels

Meri dharti article by Shaneela Jabeen Zahidi

articles

میری دھرتی

شنیلہ جبین زاہدی

اسلامک سکالر

اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد

عالی مرتبت :
14 اگست آزادی کی ایک لازوال داستاں ، ایک ایسا دن جس میں ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ جسکو حاصل کرنے کیلئے کئی ماہ و سال لگے ، کئی خاندانوں نے اپنا خون اس کی تعمیر میں پیش کیا ۔ ہزار طوفاں اس جدوجہد کو مٹانے آئے ، لاکھوں انگارے اس کو جلانے آئے ، کئی آندھیاں اس کو اڑانے آئیں ، کئی بیٹیوں کی عصمتیں کئی ماؤں کی تطہیریں ، قربان ہوئیں ۔
سوچتی ہوں تو روح و قلب کٹ کٹ جاتے ہیں کہ آخر اس ملک کو حاصل کرنے کی وجہ کیا تھی ۔ میرا قلم لہولہان ہوا جاتا ہے میرے الفاظ اپنی روانی بھولنے لگتے ہیں ۔
کہ آخر دن رات کی تمیز کیئے بغیر ، زمانہ و مکاں کی قیود کے بغیر ، اپنی زندگی کی پروا کئے بغیر ، اغیار تو ایک الگ قصہ ہے ، اپنوں کی بے اعتنائی کے باوجود ، وہ کونسی تڑپ تھی جس نے قائد کو سونے نہیں دیا ، وہ کونسا جذبہ تھا جس نے قائد کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا ، وہ کیا سوچ تھی جس کو لے کر قائد نے مسلمانوں کےلئے ایک الگ ریاست بنانے کا عزم کیا ۔ جسکو اللہ و رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر حاصل کرنے کی جدوجہد کی ،
عالی مرتبت میں بتاتی چلوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام پہ قائم ہونیوالی اس ریاست میں “”” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔۔۔۔۔۔ کا علم بلند کرنا تھا جہاں ہر طرف آزادی کا بول بالا ہونا تھا ۔ جہاں کا نظام قرآنی منشور کے مطابق رائج کرنا تھا ۔ جہاں فاروقی عدالت ، عثمانی سخاوت ، حسینی شجاعت کا دستور قائم کرنا تھا ۔ الحمداللہ میرا قائد ، میرا لیڈر ، میرا راہنما محمد علی جناح اس میں کامیاب دکھائی دیا ۔ اس نے نہ صرف اس کو دشمنوں کے جبڑوں سے چھین کر باہر نکالا ، بلکہ اس کو دنیا کے نقشے پر بھی لے کر آیا۔ اور اقبال کی اس بات کو سچ ثابت کر دیا کہ

“”جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رشتہ وہیں سے نکلے گا

اے وطن کی زمیں مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے ہے یقین کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا””
جب یہ ملت معرض وجود میں آئی تو عدو کے پست ہوتے حوصلوں کو کہیں تقویت نہ ملی تو وہ کہنے لگے کہ چند ماہ و سال کی بات ہے ۔ یہ ملت مٹ جائیگی ۔اس کا شیرازہ تنکا تنکا بکھیر دیں گے۔ لیکن الحمداللہ میرا ملک پاکستان نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس کے لہلہاتے کھیت کھلیان ، سرسبز و شاداب باغات ، فصیلوں پہ کھڑی پاک افواج ، فضاؤں کو چیرتی پاک فضائیہ ، سمندروں کی تہہ کی محافظ پاک نیوی ، اس بات کی دلیل ہے کہ

سو جاؤ عزیزو کہ فصیلوں پر ہر اک سمت
ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں

عالی مرتبت ہم ہر محاذ پہ ڈٹے رہے اور کامیاب بھی ہوئے اور آئے روز کامرانی کی منازل طے کرتے ہوئے آگے اور آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ ہم نے ٹیکنالوجی کا میدان ہو یا میدان جہاد سیاحت کا دور ہو یا سیاست کا ، ہم نے زندہ دلی سے ہر فتح اپنے نام کی ۔اس ملت کے جوانوں نے آسمانوں پہ کمند ڈالیں اور افلاک کی بلندیوں کو چھوتے چلے گئے ۔ ہم جرات و بہادری میں سلطان ٹیپو بنے ، حیدر کی تلوار بنے ، فاروق کی للکار بنے ، ہم شاعری میں شیرازی بنے ، ہم نغمہ گری میں فردوسی ، ہم ساز بنے تو بلھے شاہ ، ہم سوز بنے تو وارث شاہ ، ہم عقل بنے تو شاہ لطیف ، ہم وجد بنے ، ہم رقص بنے ، ہم سچل سر مست بنے ،تعلیم کے میدان میں سر سید احمد خاں ، انسانیت کی خدمت میں عبدالستار ایدھی بنے ، جب بات ملک کی سالمیت کی آئے تو میجر عزیز بھٹی اور میجر طفیل بنے ، المختصر ہم ہر ہر محاذ پہ شاہینوں کا کردار نبھانے رہے ۔ اور دعا کرتے رہے

” پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں “”

بات یہیں پہ ختم نہیں ہو جاتی ۔ خواتین اس داستاں میں ایک امتیازی اہمیت کی حامل رہیں ۔ تاریخ کے پنے کھولیں تو مجھے اس کائنات کے عظیم سالار سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فاطمہ بنت محمد ، اور خدیجہ الکبری سلام اللہ علیہ ، کھڑی نظر آئیں ۔ جب بات ریاست کو بنانے کی آئی تو مسٹر جناح کے ساتھ فاطمہ جناح کھڑی ملیں، ٹیکنالوجی کے میدان میں کم عمر عرفہ کریم دکھائی دیں ۔بات جب فوجی قیادت کی آئے تو پاکستان کی بیٹی شہید مریم مختار آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں ۔ مجھے پاکستان کی بہادر بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قربانی کے لئے الفاظ نہیں ملتے ۔ الغرض جہاں جہاں سے بھی تاریخ کے اوراق کھلو گے تمہیں ہر ورق پر وفا کا اک باب ملے گا جہاں ہر طرف یہ لکھا دکھائی دیگا۔

خون جگر دے کے نکھارا گے رخ برگ گلاب ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

لیکن آخر میں ایک سوال ضرور کرتی چلوں کہ آخر کیا آج ریاست کا ہر فرد وہ رول ادا کر رہا ہے جو قائد نے ادا کیا ۔ جو قرآن و سنه کا منشور تھا ۔ ہر ایک کو اپنا احتساب کرنا ہوگا کیا ہماری نسلوں میں اسلام کی تعلیمات راسخ کی جارہی ہیں ۔کیا انھیں انسانیت کا درس ازبر کروایا جا رہا ہے ؟
کیا انھیں امن و محبت کا درس دیا جا رہا ہے ۔؟ اگر جواب ہاں ہے تو الحمداللہ ہم کامیاب ہوئے ۔ اگر نہیں تو ہمیں کف افسوس ملنے کی بجائے کوشش کرنا ہوگی۔۔۔۔

تاریخ کو سچا پاکستان تو مل گیا ۔۔۔ آو اب عہد کر تے ہیں کہ پاکستان کو”” سچے پاکستانی “” بھی دیں گے ۔
پاکستان پائیندہ باد۔۔۔۔

.

*************

Exit mobile version