Site icon Prime Urdu Novels

Ramzan se Islam tak ka Safar article by Qamar Un Nisa Qamar

رمضان سے اسلام تک کا سفر
تحریر    : قمرالنساء قمر

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ جملہ ہم نے کئی بار سنا ،پڑھا، اور بولا ،لیکن اس کی گہرائی میں کبھی نہیں گئے۔ اس کے اندر کتنے معنی پوشیدہ ہیں ،کتنی گہرائی ہے ۔یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے، کہ اسلام نے انسان کو شتر بے مہار نہیں چھوڑا، بلکہ زندگی با مقصد ہے۔اور اسے گزارنے کے کچھ اصول ہیں۔ حقوق اللہ عزوجل ہوں یا حقوق العباد اسلام نے سب کے اصول وضوابط بتائے ہیں۔

              پیدائش سے لے کر موت تک اور موت سے حشر تک ہر موضوع پر کلام کیا ہے ۔دنیا میں اسلام کے سوا کونسا دین ہے جو پانی پینا سلام کرنا اور جوتا پہننا بھی سیکھاتا ہو ۔ لیکن ہم نے اپنی محدود سوچ اور کم علمی کی وجہ سے دین کو محدود سمجھ لیا۔ اپنی سوچ سمجھ کے مطابق اس سے معنی اخذ کئے۔ ایک طبقے نے حقوق اللہ کو لے لیا ۔اور نماز روزہ،  کے سوا باقی سب فراموش کر دیا۔ دوسرے نے  حقوق العباد کو لیا ۔اورحقوق اللہ کو فراموش کر دیا ۔اور تیسرا طبقہ وہ ہے ،جو صرف مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہو کر مسلمان ہو گیا ۔کبھی شعوری طور پر دین کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی نہ ہی عملاً کوئی مسلمانوں والی بات ہے ان میں۔ ہاں البتہ گفتار کا غازی ضرور بن گیا ہے۔ جسے آپ سوشل میڈیا کا مفتی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اللہ عزوجل سے پیار ہے تو لائک  کریں ۔فلاں مہینہ کی مبارکباد دی تو جنتی ہو جاؤ گے۔ اتنے لوگوں کو فاروڈ کیا تو خوشخبری ملے گی۔ وغیرہ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں جن کا دین سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ یہ تمام رویے غلط ہیں اور اسلام کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہیں۔

             اسلام بہت وسیع دین ہے ۔چونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً۪-وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ۔ البقرہ (۲۰۸)
         ترجمہ: اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اسی طرح حدیث شریف کا مفہوم ہے ۔تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش نفس ان احکامات کی تابع نہ ہو جائے جو میں لے کر آیا ہوں۔ تو ثابت ہوا کہ اگر مسلمان کو دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی چاہئے، تو اسے پورے کے پورے دین کی پیروی کرنی ہو گی۔ اور   یہ سب بے مقصد نہیں ہے۔ ہر حکم شرع میں انسان کے لیے کئی طرح کی قلبی روحانی جسمانی  فوائد چھپے ہوئے ہیں۔ صرف ایک وضو کی بات کر لیں تو اس ایک عمل میں صرف ثواب یا ظاہری پاکیزگی نہیں بلکہ  کئی خوفناک بیماریوں سے نجات کے ساتھ ساتھ قلبی و روحانی پاکیزگی کا سبب بھی ہے۔

          آج سائنس بتا رہی کہ ان اعضاء کو دھونے کے کتنے فوائد ہیں۔ ہر عضو کے دھونے میں کئی حکمتیں ہیں۔ جس دین کا مسح بھی فوائد سے خالی نہیں ۔اس کے ہر ہر حکم میں کئی دنیاوی و آخروی فوائد ہیں ۔اپ کیا سمجھتے ہیں نماز روزہ اور دوسرے اسلامی احکامات صرف ایک حکم ہے صرف ایک پریکٹس ہے ۔جس کا اللہ عزوجل نے حکم دیا آپ نے کر لیا۔ آپ کو  ڈھیروں ثواب مل گیا اور بات ختم نہیں بلکہ behind the scenes بہت کچھ  ہیں۔ ہر حکم شرع میں کئی جسمانی وروحانی فوائد کے ساتھ ہر حکم کے پیچھے بڑے عظیم مقاصد ہیں ۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے، کہ ہم اتنے عظیم دین کو سمجھ ہی نہیں سکے جو ہمیں بلند تر دیکھنا چاہتا ہے،نہ ہی کبھی کوشش کی ہےسمجھنے کی ۔اس کا ہر حکم  ہمارے مفاد کے لیے ہے۔ورنہ عرش عظیم کا مالک جو زمینوں اور  آسمانوں کا رب ہے، اسے کیا فرق پڑتا ہے ہم عبادت کریں یا نہیں جیسے اس نے فرمایا کہ تمہاری قربانیوں کا خون اور گوشت اللہ کو نہیں پہنچتا۔

      روزہ کو ہی لے لیں، بہت فضیلت ہے۔لیکن کیا ہم سمجھتے ہے صبح سے شام تک کچھ نہ کھانے کا نام روزہ ہے۔  ہمارے بھوکہ پیاسا رہنے سے اللہ عزوجل کو کوئی فرق پڑتا ہے۔ نہیں تبھی تو فرمایا گیا ہے۔ مفہوم حدیث مبارکہ ہے۔جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بات اور جہالت کی باتوں کو نہ چھوڑیں تو اللہ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔(صحیح بخاری )واضح ہو گیا روزہ رکھ کے بات ختم نہیں ہوئی، چونکہ روزہ رکھ کے بھی گناہ کرتا رہا تو مقصود گنوا بیٹھا۔ اسلام اسے اس کے عوض جو دینا چاہتا تھا یہ اسے حاصل نہیں کر سکا۔تو اب اس کا بھوکا پیاسا رہنے کا کوئی فایدہ نہیں۔ ہمارا حال یہ ہے، کہ روزہ رکھ کے وقت گزارنے کے لیے ڈرامے اور فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں گیمز چل رہی ہوتی۔جنس مخالف ایک دوسرے سے باتیں کر کے وقت گزار رہے ہوتے ۔میوزک نہ صرف سن رہے ہوتے بلکہ اسٹیٹس پر لگا کر دوسروں کا روزہ بھی خراب کرتے ۔ غیبت اور بہتان باندھ  رہے ہوتے ۔جو سب گناہ اور حرام فعل ہیں۔

           ایسے لوگوں کو روزہ رکھ کر کوئی ثواب اور روحانی ترقی کیا ملے گی، بلکہ جو اس مہینہ میں کسی پر بہتان باندھتا ہے۔ یا گناہ کرتا ہے اللہ عزوجل اس کے ایک سال کے نیک اعمال برباد کر دیتا ہے۔ اب خود فیصلہ کریں ہم نے دین کو سمجھا ہی کتنا ہے۔ ہم فرض نماز چھوڑ کر نفل پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح رمضان کے روزے نہیں رکھے ہوتے اور نفلی روزہ رکھ رہے ہوتے۔ نفلی عبادت بہت اچھی بات ہے۔ لیکن دین کا اصول ہے۔ جس کا فرض پورا نہ ہو اس کا نفل قبول نہیں ہوتا۔ بیٹیوں اور بہنوں کی زمین کا حصہ کھا کر مسجدیں بنوا رہے ہوتے ،اور دیگر صدقے خیرات کر رہے ہوتے ۔ اللہ عزوجل  نے جو حصہ بہن بیٹی کا مقرر کیا وہ ظلم سے دبا لیا ۔اب خیرات ہو رہی ۔حج ہو رہا۔ کیا ہی سمجھا دین کو تو نے اے مسلمان سود کھا کر لوگوں کی زمین پر زبر دستی قبضے کر کے ،نا حق قتل کر کے۔منی لانڈرنگ کر کے بھائی کا حصہ کھا کر یتیموں کا مال کھا کر بیوہ کے ساتھ ظلم کر کےرشوت لے کر تو حج کر لے گا، تو سب اچھا ہو جائے گا ،ہر گز نہیں تمہیں ہر ظلم کا حساب دینا ہے۔

          اللہ عزوجل کو تمہارے حج کی حاجت تھی۔ہر گز نہیں ،وہ اس سے پاک ہے ۔بلکہ  حج کا کوئی مقصد تھا ۔جسے تو نے مال حرام سے کرنے کا ارادہ کر کے پہلے ہی کھو دیا۔ اب حاجی کہلانے کے لیے کوئی حج کرتا رہے تو شوق سے کیا کریں۔ حال تو یہ ہے یہاں دینی کتاب تک چوری کر لی جاتی ہے۔ مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا ۔مومن دھوکہ نہیں دیتا۔مومن کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوتے ہیں ۔ تو ہم کیوں ہر وقت جھوٹ بولتے ہیں۔کیوں ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی،  ہوتی ہے۔کیوں ہم اپنے ہی مسلمانوں سے محفوظ نہیں۔ کیوں ہم عملاً مسلمان نہیں ۔مومن کا احترام کعبہ سے بھی زیادہ ہے ۔ ہم کتنا احترام کرتے ہے مسلمانوں کا کعبہ سے زیادہ یا اسے حقیر  سمجھتے ہووئے ہر طرح کی  تکلیف دیتے ہیں، تنز سے تو کبھی طعنوں سے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہاں تک کہ تہمت تک لگاتے ہے۔

                 کبھی  اپنا چھوٹا سا مقصد نکالنے کے لیے اسے بڑی تکلیف دینے سے گریز نہیں کرتے ۔ اپنے مقصد کے لیے لوگوں کو استعمال کرنا ہر دوسرا بندہ اپنا حق سمجھتا ہے یہاں۔ نیت میں چند دنیاوی فوائدکو دوستی کا نام دے دیا گیا ہے ۔ کبھی کرسی اور کبھی عہدے کا  لالچ  اندھی خواہشات نے مومن تو کیا انسانیت کے مقام سے بھی گرا دیا ہے، اس قوم کو، اور نہ جانے پھر بھی کیوں ہم خود کو بلند تر ہی سمجھتے ہے

          کیا بیوی کی خاطر ماں جیسی عظیم ہستی  کو گھر سے نکال دینا بلندی ہے ۔یا ماں کے لیے بیوی کو اس کا جائز حق نہ دینا انصاف ہے۔ عورت کی بات کی جائے تو اپنی  ماں بہن پر جان وارتی ہے، لیکن  مرد کی چوکھٹ پر قدم رکھنے سے پہلے اس کے رشتوں کو ختم کرنے کی قسم کھا لیتی ہے۔ اس قسم کو پورا کرنے کے لیے ہر طرح کا جھوٹ بہتان باندھتی ہے ۔حسد کی آگ میں جلتی ہے ۔ نفرتوں اور بدگمانیوں کے محل بناتی ہے۔ پھر جا کر کامیاب ہوتی ہے ۔اور خود کو انسانیت کی معراج پر سمجھتی ہے۔ جب کہ انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ کبھی یہ سب ساس نند کر رہی ہوتیں ۔اور اس دھندے  میں تقریباً اسی فیصد عورتیں شامل ہیں۔ جو یہ سب کر کے بعد میں بڑی مہان بن جاتی ہیں۔

       خدا کا خوف تو رہا نہیں۔ بندوں کا خوف کہیں آجاے تو یہ سوچ کر جان چھوٹ جاتی ہے ،کہ کون مجھے کہہ سکتی ہے فلاں نے بہو کو نکال دیا فلاں ساس کو کھانا تک نہیں دیتی ۔فلاں تو نند پر اتنا ظلم کر رہی ۔اور فلاں بھابھی کو نکالنے کے در پہ ہے۔اس طرح کے خیالات شافی ہو جاتے ہیں۔کیونکہ کل قبر میں جانا نہیں اور موت نے آنا نہیں۔ اس لیے راوی چین ہی چین لکھ رہا۔اس کا مطلب ہے ہمارا رب پر بھی ایمان کمزور ہو چکا ہے ۔مکافات عمل اور حساب کتاب جیسی چیزوں کو ہم بھول چکے ہیں۔اور پھر یہ قوم کہتی ہیں کرونا آ گیا ہے۔آپ شکر کریں تباہ کن زلزلے نہیں آئے ہمیں بندر نہیں بنایا گیا۔ قوم شعیب پر اس لیے عذاب آیا تھا کہ ناپ تول میں کمی کرتے تھے۔ ہم تو مکمل حق سے دور ہو چکے ہیں۔ ہم نے حق کا ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے۔ ظالموں کے ساتھی ہیں ہم۔

        دوہرے معیار اپنا کر منافقتوں کا سہارا لے رکھا ہے ہم نے۔ ہم قوم کوفہ کی طرح حسین کو حق پر کہتے ہیں، لیکن ساتھ یزیدیت کا دیتے ہیں۔  کیوں کہ ہمارے دنیاوی مفادات ہیں۔ نفس کے غلام ہیں۔ اس لیے ناموس رسالتﷺ پر واضح موقف نہیں ہے ہمارا۔ ضمیر اس قدر مردہ ہو گئے ہیں حق بات اثر نہیں کرتی ۔بلی نو سو چوہے کھا کر حج کو دوڑی تھی لیکن ہمارے چوہوں کی تعداد ان گنت ہیں۔ پچھلے رمضان المبارک میں ایک دوست نے مجھے  بتایا،کہ مجھے کال آئی ہے کہ چار بچوں نے  روزہ رکھا ہوا ہے، افطاری کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اور ہم ہزاروں روپے برانڈز پر خرچ کر کے عید مناتے ہیں۔ میں اس سید خاندان سے مل چکی ہوں جنہوں نے اپنا تقریبا چھ ماہ کا بچہ بیس ہزار کا بیچ کر باقی اولاد کو بھوکا مرنے سے بچانے کی سعی کی۔اور ہم مصیبت آ جانے پر کوئی صدقہ کر بھی لیں،  تو ایک سیلفی اور مسجد میں  اعلان کروانا تو واجب سمجھتے ہیں ۔

        نبی کریمﷺنے فرمایا مسلمان کی تکلیف دور کرنا دس اعتکاف سے بہتر ہے ۔ اندازہ کریں صرف تکلیف دور کرنا دس اعتکاف سے بہتر ہے ۔ زرا دل سے سوچیں پوری زندگی میں  کتنے مسلمانوں کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کی ہے ہم نے۔کتنوں کی مدد کی ہے ۔ ہم تو کسی کو اچھا مشورہ نہیں دیتے اچھی بات یا اچھے لباس پر حوصلہ افزائی تک کرنے کا ظرف نہیں ہے ہمارا۔ اسلام تو کہتا ہے دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔ تو پھر ہم ہمیشہ اپنی ذات کو ہی کیوں ترجیح دیتے ہیں ۔اسلام کی تعلیم تو یہ ہے ،کہ ایسا اشارہ بھی نہ کرو جس سے مسلمان کو تکلیف ہو۔ اور ہم رشتوں میں پھوٹ ڈلوا کر داد وصول کر رہے ہوتے۔ اسلام کہتا ہے بغض وکینہ والوں کی آپس میں ناراضگی رکھنے والوں کی مغفرت تب بھی نہیں ہوتی، جب سب کو بخش دیا جاتا ہے ۔ہم بغض و عناد میں زندگیاں گزار دیتے ہیں۔

          حسد کی آگ میں خود کو جلا کر  کہتے ہیں سکون نہیں ہے۔ تکبر میں شیطان کو بھی مات دے دی ہے ۔اس نے سجدہ کرنے میں تکبر کیا تھا یہاں ساری زندگی تکبر جیسے موذی مرض میں گزر جاتی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے وہ عبادت گزار جن، جو اپنی کثرت عبادت کی وجہ سے ،جماعت ملائکہ ،میں شامل تھا، ایک لمہے کے تکبر سے سب اعمال تباہ کر کے نا فرمانوں میں شامل کر دیا گیا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جہاں بھر کے گناہ کر کے سمجھتے ہیں ہمیں بخش دیا جائے گا۔

       یہ سب دینی علم کی کمی کی وجہ سے ایسے ہی تو نہیں کہا گیا کہ علم کی مجلس میں شامل ہونا ہزار رکعت نفل پڑھنے ،ہزار جنازوں میں شرکت کرنے ، ہزار مریضوں کی عیادت کرنےسے بہتر ہے۔لیکن ہم دنیاوی تعلیم پر تیس سال لگانے والے دینی تعلیم کے لئے تین مہینے بھی نہیں لگاتے۔ جہالت کے اندھیرو نے ہمیں تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا ہے۔ کم علمی کی وجہ سےرب پر بھروسہ کی طاقت ہم نہیں جانتے نتیجتاً ہم ایک سجدہ نہ کر کے ہزاروں سجدے کر رہے ہیں ۔

           کم علمی ہی کی وجہ سے ہمارے اعمال لوگوں کے لیے ہے ۔ ہم نیک عمل کر بھی لیں تو اس  کی تشہیر کر کے اسے ضائع کر دیتے ہیں۔کم علمی ہی ہے کہ ہم دین کے کسی جزو پر عمل کر کے کامیاب ہونا چاہتے ہیں ۔دین کو سیاست سے جدا مانتے ہیں علماء  پر تنقید کرنا نعوذباللہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ علماء حق اور سوء کا فرق ہم نہیں جانتے۔ پرائمری بغیر استاد کے نہیں کر سکتے مگر دین جیسی حساس اور دقیق تعلیم  کو گوگل سے پڑھ کر خود کو بڑا علامہ سمجھتے ہیں۔ کچھ سوچیں قرآن مجید نے ایسے لوگوں کو جانوروں سے بھی بد تر کہا ہے، جو آنکھیں رکھتے ہے مگر بصیرت نہیں۔

           قرآن نے غور فکر کی بار بار دعوت دی ہے، مگر ہم نے قرآن صرف برکت کے لیے رکھا ہوا ۔پڑھ بھی لیں تو بنا ترجمہ تفسیر ہم احکام الٰہی کو کیسے سمجھے گے۔مگر ہمیں تو پاروں کی گنتی پوری کرنی ہوتی بس ۔  ہم نے کبھی سوچا کرونا جیسا عتاب ہم پر کیوں آیا جہاں برائی اور بے حیائ پھیل جاتی ہے، گناہ عام ہو جاتے ہیں وہاں عذاب آتے ہیں ۔مفہوم حدیث ہےدوزخیوں کی دو قسموں کو میں نے نہیں دیکھا۔( جن میں) ایک وہ عورتیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہے)ایسی عورتیں جنت کی خوشبو بھی نہیں پائیں گی۔

           آج کتنی بے حیائ عام ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب کر کے ہم اللہ عزوجل سے گناہ جاری رکھ کر  معافی مانگ لینا کافی سمجھتے ہیں ،کیونکہ ہم نے مزاج اسلام کو سمجھا ہی نہیں ہے۔احکام دین پر عمل پیرا ہونا ایک مسلمان کے لیے  بلندیوں اور سعادتوں کا سبب ہے ،کیونکہ اسلام مسلمانوں کی اخلاقی روحانی اور قلبی پاکیزگی کا خواہ ہے۔ یہ اسے پابند کرتا ہے،کہ اسلام پر مکمل عمل پیرا ہو کر دنیاوی و آخروی فلاح کو پا لے اس لئے اس ماہ مبارک میں یہ عہد کریں کہ ہم اسلام کو سمجھنے اور عمل کی کوشش کریں گے۔فرمان باری تعالٰی۔ تو کیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ کیا ہے مگر یہ کہ دنیا میں رسوا ہو اور قیامت میں سخت تر عذاب کی طرف پھیرے جایئں گے اور اللہ تمہارے کوتکوں (برے اعمال)سے بے خبر نہیں۔(البقرہ 85)

.

*************

Exit mobile version