Site icon Prime Urdu Novels

Watan ke moafiz article by Sadia Arif

articles

تحریر: وطن کے محافظ از قلم سعدیہ عارف‎‎

سہ پہر کا وقت تھا۔سورج کی کرنیں کھڑکی سے ہوتے ہوئے کمرے کو روشن کر رہی تھیں۔ایک بزرگ خاتون صندوق کھولے کچھ کپڑوں کو پھیلائے وہیل چیئر پر بیٹھی تھیں۔ایک تصویر  نکالتے ہی ان کی آنکھ کا کنارہ بھیگا تھا جسے دوپٹے کے پلو سے انہوں نے سوگوار مسکراہٹ لبوں پر سجائے صاف کیا تھا۔وقت کتنا آگے آ گیا تھا۔وہ خوشیوں بھرے لمحات بہت جلد ان سے رخصت ہو گئے تھے۔زندگی کے  بہت سنہرے پل انہوں نے ساتھ گزارے تھے مگر آج انہیں بچھڑے ہوئے ایک عرصہ گزر گیا تھا۔وقت بہت آگے آ گیا تھا مگر وہ اب بھی کہیں پیچھے ہی رہ گئی تھیں۔جھوٹ کہتے ہیں لوگ کہ وقت کے ساتھ انسان کے زخم بھر جاتے ہیں۔کبھی بچھڑے ہوئے اپنوں کا زخم بھی بھرتا ہے کیا؟  زخم تو ویسے ہی ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔بس یہ ڈھیٹ انسان درد میں رہ کر جینا سیکھ لیتا ہے۔ایک وقت آتا ہے کہ اسے اس درد میں بھی مزہ آتا ہے۔کچھ ایسا ہی حال حلیمہ بی کا تھا۔

“حلیمہ۔۔آج کھانا زیادہ بنا لینا،میرا دل کہہ رہا ہے کہ آج کوئی آۓ گا۔” اپنی بہو کو کہتے ہوئے وہ چارپائی سے اٹھی تھیں۔

“جی اماں!” حلیمہ کھانا بنا کر کچن سے نکلی تو دروازے پر دستک سنائی دی۔

“حلیمہ دیکھ کون آیا ہے،میں نے کہا تھا ناں کہ آج کوئی ضرور آۓ گا۔”

“جی اماں دیکھتی ہوں۔” یہ کہتے ہی وہ دروازے کی طرف بڑھی تھی۔

“کون؟”ایک دو مرتبہ پوچھنے پر جواب موصول نہ ہوا۔

یہ گاؤں کا کچا مگر نفیس گھر تھا اور گاؤں کہ لوگ چونکہ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں تو اکثر گھروں کے دروازے سارا دن کھلے ہی رہتے۔حلیمہ دروازہ اکثر اپنے چھوٹے چار سالہ بیٹے ابرار کی وجہ سے بند ہی رکھتی کہ کہیں وہ باہر نہ چلا جائے۔

تیسری مرتبہ بھی جب جواب موصول نہ ہوا تو اس نے نا گواری سے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے دروازہ کھولا۔

“کون ہے؟نام۔۔” اس کا جملہ ادھورا ہی رہ گیا تھا۔دروازے پر اپنے سائبان ،اپنے ہمسفر کو دیکھ کر وہ پھولے نہ سمائی۔معاذ نے ایک بازو بڑھا کر اسے کندھے سے لگایا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اسے پھولوں کا گلدستہ تھمایا۔

“کون ہے حلیمہ؟” رفعت بیگم کھانستے ہوئے چارپائی سے اٹھی تھیں جبکہ معاذ نے آگے بڑھ کر ان کو سینے سے لگایا تھا۔

“امی جان آپ کا بیٹا ہوں ،اتنی جلدی بھول گئی آپ مجھے؟”ماں کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے اس نے پیار اور نروٹھے پن سے کہا۔

“میرا لال! ماں صدقے جاۓ۔آ گیا میرا بیٹا۔” اپنے بیٹے کو دیکھتے ہی بوڑھی ماں کو چین آیا تھا۔وہ جو کئی ماہ سے اس کی راہ تکتے تکتے روزانہ سو جاتی آج ان کے دل کو قرار ملا تھا۔

“بابا! بابا!”ابرار بھاگتا ہوا دونوں بازو پھیلائے کمرے سے باہر آیا تھا۔معاذ نے آگے بڑھ کر اسے پکڑا اور ہوا میں اچھالا۔

“ہاہاہاہاہا۔۔۔بابا جان آپ کو پتہ ہے میں نے آپ کو بہت مس کیا۔”ابرار توتلی زبان میں اپنے بابا سے بات کر رہا تھا۔

“میں نے بھی آپ سب کو بہت مس کیا۔”اس کی ناک سے اپنی ناک رگڑتے ہوئے معاذ نے پیار سے جواب دیا۔جبکہ حلیمہ اور رفعت بیگم اپنے آنسو چھپانے کی کوشش میں تھیں۔وہ دونوں معاذ کو ایموشنل نہیں کرنا چاہتی تھیں۔معاذ اپنی والدہ کے پاس ہی شام تک بیٹھا لاڈ اٹھواتا رہا۔والدہ کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور انکے سونے تک وہ انکے پاس ہی بیٹھا رہا۔

“ابرار سو گیا؟” کمرے میں آتے ہی ابرار کو دیکھ کر اس نے پوچھا تھا۔

“جی۔”حلیمہ کا چہرہ اترا ہوا تھا۔

“کیا ہوا؟ادھر آؤ۔”اس کے چہرے پر ناراضگی دیکھتے ہوئے معاذ نے اسے دونوں کندھوں سے پکڑتے ہوئے بیڈ پر بٹھایا اور خود ترچھا رخ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔

“آپ دو دن کی چھٹی پر آۓ ہیں بس؟” حلیمہ نے اسے رفعت بیگم سے بات کرتے ہوئے سن لیا تھا تبھی پریشان تھی۔

“اچھا تو یہ بات ہے اس لیے پریشان ہیں میری بیگم اور میں سمجھا کہ پتا نہیں کیا ہو گیا؟”اس نے شرارت بھری مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے کہا۔

“یہ اتنی سی بات ہے؟” وہ روہانسی ہوئی تھی۔

“ارے پگلی!اگلی مرتبہ زیادہ دیر کے لیے آؤں گا۔”اس کی آنکھ سے نکلے ہوئے آنسو کو معاذ نے اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ہوئے کہا۔

“سنیے!”

“جی سنائیے۔” اسی کے انداز میں کہتے ہوئے اس نے حلیمہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔

“آپ ہمیشہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟”

“جان!اس زمین،اس دھرتی کا ہم پر قرضہ ہے۔اس قرض کا حق ادا کرنے کے لیے تھوڑی تو قربانی دینی پڑے گی ناں۔”وہ اس کے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے محبت سے چور لہجے میں کہہ رہا تھا۔معاذ حیدر اگرچہ اپنے گھر والوں سے بے پناہ محبت کرتا تھا مگر وطن کی محبت اس کے جسم میں خون کی مانند دوڑتی تھی۔وہ ایک سچا اور خالص محب وطن تھا۔اس وطن کی حفاظت کے لیے وہ اپنے پیاروں کی خوشیوں کو  بھی قربان کر دیتا۔

“اپنوں کے پاس رہنے کے لیے کون نہیں تڑپتا؟کس کا دل نہیں چاہتا کہ وہ رات کو اپنے پیاروں کے پاس آئے،اپنے بیوی بچوں میں،اپنے والدین میں رہے۔سب کا دل چاہتا ہے کہ وہ کبھی اپنوں سے دور نہ جاۓ مگر ہم وطن کے محافظ سب میں شامل نہیں ہیں۔ہمیں قربانیاں دینی پڑتی ہیں اس وطن کے لیے۔اس پاک سر زمین کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔”ہر بار حلیمہ کے سوال پر وہ ایسا ہی جواب دیا کرتا جس میں وطن کے لیے محبت ہی محبت ہوا کرتی تھی۔

“حلیمہ!”

“جی!”

“میں چاہتا ہوں کہ تم خود کو مضبوط کرو۔ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔تم ایک وطن کے محافظ کی شریک حیات ہو۔تم اس قوم اور اس وطن کی بیٹی ہو۔”

“میں مضبوط ہوں۔معاذ حیدر کی بیوی کبھی کمزور نہیں ہو سکتی۔” حلیمہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فخر سے کہا تھا جس پر معاذ مسکرایا تھا۔

“میری خواہش ہے حلیمہ کہ میں اس وطن کی حفاظت میں جی جان سے لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں اور اس وقت تمہارے چہرے پر آنسو کی بجائے مسکراہٹ ہو۔تمہاری آنکھوں میں اگر آنسو ہوں تو شکرانے کے ہوں۔”شہادت کی بات سن کر حلیمہ کا دل مٹھی میں آیا تھا مگر اسے کمزور نہیں پڑنا تھا۔یہ ڈر تو معاذ حیدر کے اس کے زندگی میں آنے سے اب تک ویسا ہی موجود تھا۔وطن کے محافظوں کی مائیں اور بیویاں تو پہلے دن سے خود کو شہادت کی خبر کے لیے تیار رکھتی ہیں کہ کب انکا پیارا اس وطنِ پاک کے لیے شہادت کے منصب پر فائز ہو جاۓ کیا پتا؟

“حلیمہ مجھ سے وعدہ کرو اگر میں شہید ہو گیا تو تم میرے بیٹے کو میری جگہ اس ملک و قوم کی حفاظت کے لیے تیار کرو گی۔”ابرار کی طرف دیکھتے ہوئے معاذ نے کہا تھا۔

“میں وعدہ کرتی ہوں۔”حلیمہ کی بہادری کو سراہتے ہوئے معاذ حیدر نے اسے گلے لگایا تھا۔

معاذ حیدر نے یہ دو دن اپنے پیاروں کے ساتھ گزارے تھے۔ابرار بھی اپنے بابا کے ساتھ سارا دن چمٹا رہتا۔آخر دو دن بھی گزر گئے۔سچ کہتے ہیں کہ خوشی کا عرصہ بہت تھوڑا ہوتا ہے۔معاذ کے بھی جانے کا وقت آ گیا تھا۔

“بابا نہ جائیں ناں پلیزز۔”اپنے باپ سے چمٹا وہ روتے ہوئے التجاء کر رہا تھا۔

“بابا کی جان اگر اللّٰه نے چاہا تو بابا بہت جلد واپس آئیں گے۔پھر ہم بہت گھومیں گے،کھیلیں گے۔”

“نہیں آپ ابھی نہ جائیں ناں۔”ابرار روتے ہوئے ضد کر رہا تھا۔

“ادھر آؤ بیٹا! بابا بہت جلد واپس آئیں گے لیکن آپ ایسے ضد کرتے رہے تو بابا ناراض ہو جائیں گے۔”حلیمہ نے معاذ کی گود سے ابرار کو پکڑتے ہوئے کہا۔

“بابا سچی جلدی آئیں گے ناں؟”

“جی بابا کی جان!”

ماں کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے وہ ان سے دعائیں لے رہا تھا۔تینوں اپنوں کو چھوڑ کر وہ واپسی کی طرف روانہ ہوا تھا۔اس کے جاتے ہی رکے ہوئے آنسوؤں کو دونوں ساس بہو نے بہنے دیا تھا۔

###################################################################################################

آخر وہ دن بھی آ ہی گیا جب معاذ حیدر کا برسوں پرانا خواب پورا ہونا تھا۔وہ خواب جو فوج میں بھرتی ہونے والا ہر بہادر نوجوان سجاتا ہے،شہادت کا خواب۔

6 ستمبر 1965ء میں بزدل ہمسایہ ملک نے جب بزدلانہ حملہ اس پاک دھرتی پر کیا تو اس دھرتی کو ماں سمجھنے والے اور اس دھرتی پر مر مٹ جانے والے کئی معاذ حیدر جیسے پاک،بہادر،شیر ماؤں کے شیر نوجوانوں نے جی جان سے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیے۔دشمن کے  ارادے کو خاک میں ملایا اور ان کے ناپاک ارادوں کو ملیا میٹ کر دیا۔معاذ حیدر نے بھی دشمنوں کو ناکوں چنے چبوانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور آخر کار شہادت کے منصب پر فائز ہو گئے۔معاذ حیدر جیسے کئی ملک کے محافظوں نے دشمنوں کا مقابلہ اتنی دلیری اور بہادری سے کیا کہ کم تعداد میں ہونے کے باوجود دشمنوں کو نیست و نابود کر دیا۔

اگرچہ تعداد میں وہ کم تھے

مگر حوصلے تو انکے بلند تھے

دشمن کو نیست و نابود کرنے

آ گئے شیر،جواں مرد تھے

بلند حوصلہ،جواں مردی،شہادت سے سرشار جذبہ لیے

میرے وطن پاک کے محافظ میداں میں سرگرم تھے

یوں اڑا دیے سب ٹینک اور ملیا میٹ کر دیے

کہ زیر و خاک ہوئے سب انکے جو عزائم تھے

وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں ہمارے سینوں میں

اس چمنِ گل کی حفاظت میں جو گٌل تمام ہوئے

از قلم سعدیہ عارف                               

###################################################################################################

حلیمہ ابرار کو کھانا کھلا رہی تھی جب معاذ حیدر کی شہادت کی نوید لیے قوم کا بیٹا حاضر ہوا تھا۔معاذ کی شہادت کا سنتے ہی اسے لگا کہ اب کبھی وہ سانس نہیں لے پاۓ گی مگر معاذ کی بات یاد آتے ہی وہ نم آنکھوں سے  مسکرائی تھی۔( میری خواہش ہے حلیمہ کہ میں اس وطن کی حفاظت میں جی جان سے لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں اور اس وقت تمہارے چہرے پر آنسو کی بجائے مسکراہٹ ہو۔تمہاری آنکھوں میں اگر آنسو ہوں تو شکرانے کے ہوں۔۔)

حلیمہ کی آنکھوں میں اگر  آنسو آئے تھے تو شکرانے کے۔رفعت بیگم نے روتے ہوئے اپنے لختِ جگر کو شہادت کے منصب پر فائز ہونے کی مبارک باد پیش کی تھی۔حلیمہ اپنے رب کے حضور سر بسجود ہو کر شکرانے کے نوافل ادا کر رہی تھی جب ابرار نیند سے بیدار ہوتا اپنی آنکھیں ملتا ہوا اپنی ماں کے پاس آیا۔آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

“ماما کیا ہوا آپ کیوں رو رہی ہیں؟بابا کی یاد آ رہی ہے۔دیکھیں میں کتنا بہادر ہوں میں بھی تو نہیں روتا،آپ بھی چپ کر جائیں۔بابا جلد ہی آ جائیں گے۔” ابرار ننھے ہاتھوں سے اپنی ماں کے آنسو پونچھتے ہوئے اسے تسلی دے رہا تھا۔اس ننھے پھول کو حلیمہ کیا بتاتی کہ اب اس کے بابا کبھی نہیں آئیں گے۔اس کے بابا تو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتے ہوئے ان کو اس فانی دنیا میں اللّٰه عزوجل کی ذات کے بھروسے چھوڑ گئے تھے۔حلیمہ نے ابرار کو سینے سے لگایا تھا جبکہ آنسو متواتر اس کی آنکھوں سے رواں تھے اور اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے عفت بیگم بھی اس دنیا فانی سے کوچ کر کے خالق حقیقی سے جا ملی تھیں۔ایک ماں اپنے بیٹے سے کیسے دور رہ سکتی تھی۔بیٹے کو شہادت کی مبارکباد دینے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر بیٹے سے ملاقات کا سفر طے کیا تھا۔

آج کافی عرصے بعد بھی معاذ حیدر، حلیمہ کے دل کی دھڑکن تھا۔وہ آج بھی اس کی تصویر سے باتیں کرتے ہوئے معاذ کو اپنے قریب محسوس کرتی تھی۔معاذ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس نے ابرار کو بھی اس وطنِ عزیز کی حفاظت کی راہ میں لگا دیا تھا۔میجر ابرار معاذ حیدر، حلیمہ کا فخر تھا اور اسے یقین تھا کہ معاذ حیدر کو بھی اپنے لختِ جگر پر فخر ہو گا۔

حلیمہ کی سوچوں کا تسلسل تب ٹوٹا جب ابرار کی ننھی بیٹی نے آ کر حلیمہ سے تصویر کے متعلق سوال کیا۔

حلیمہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی تھی۔ نئی سوچوں نے اس کے ذہن میں پناہ لی تھی۔

###################################################################################################

اس تحریر میں معاذ حیدر کا کردار ایک فرضی کردار ہے مگر اس وطنِ پاک کی خاطر قربانیاں دینے والے بہت سے معاذ حیدر جیسے بہادر نوجوان ایسے ہیں جنکا نام منظر عام پر نہیں آتا مگر وہ سب بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور ہم انکا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔

تمام شہداء وطن کو اس قوم کا سلام!

.

*************

Exit mobile version