Watan ki matti gawah rehna article by Mirha Shehbaz

articles

وطن کی مٹی گواہ رہنا
مضمون نگار مرحاشہباز

اسلامی جمہوریہ پاکستان اگرچہ 1947 میں وجود میں آ گیا تھا مگر یہ انگریز حکمرانوں کی جانب سے ہمیں طشتری میں سجا کر ہرگز پیش نہ کیا گیا تھا، بلکہ اِس کے حصول کو روکنے کے لیے اور اِس کو وجود کے ثبت ہونے سے قبل ہی اِس کی نشانات دنیا کے نقشے سے یکسر مٹا دینے کے لیے انگریزوں اور گاندھی نے کٸ پینترے بدلے۔
پہلے پہل تو جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں کو ہر طرح کے دینی، مالی، معاشرتی اور تہذیبی مساٸل میں الجھا کر ستایا گیا، کاروبار چھینے گۓ اور ملازمتوں میں نچلے درجے دیے گۓ، گھربار ضبط کر لیے گۓ، تہذیب و ثقافت کو عریاں لباس پہنا کر برہنہ کیا گیا، دین کو مذموم عزاٸم کا نشانہ بنایا گیا، اُردو زبان پر حملہ آور ہوۓ غرض اُن کی سالمیت ہر طرح سے تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی گٸ اور پھر اتنی تکالیف کے بعد جب سرسیداحمدخان نے مسلمانوں کو تعلیم کی جانب لانا چاہا تو یہ کوٸی آسان مرحلہ نہ تھا۔ آپ نے ایم اے او ہاٸی سکول کے لیے بھکاری بن کر بھیک مانگنے تک میں عار محسوس نہ کی، سکول قاٸم ہوا، پھر کالج کے درجے کو پہنچا اور پھر یونیورسٹی کے۔ مسلمانوں کو کچھ حد تک بیدار کیا گیا، اقبال نے بھی اپنے قلم کی طاقت سے اُنھیں خودی سے روشناس ہونے کا درس دیا اور پھر سب سے بڑھ کر محمد علی جناح جو اپنی بیماری دشمن سے چھپاۓ آزادیِ پاکستان کے لیے شبانہ روز محنت کرتے رہے، اُنھوں نے مردِ مجاہد کا کردار ادا کیا۔ 1930 میں اقبال کے خطبہ الٰہ باد کے بعد سے 1947 میں مملکتِ پاکستان کے حصول تک انگریز حکومت اور ہندوٶں کی جانب سے بارہا مسلمانوں کو کٸ طرح کے سبز باغ دکھاۓ گۓ مگر قاٸد کی بصیرت نے ُانھیں اِس اندھے کنویں میں ڈوبنے نہ دیا اور بالآخر زمین کا علیحدہ ٹکڑا مل جانے پر ہجرت کا مصاٸب بھرا کٹھن سفر شروع ہوا۔ جس میں ہمارے آباواجداد نے وطن کی مٹی کو گواہ بناتے ہوۓ بےلوث قربانیاں دیں۔ اگرچہ قربانیاں اَن گنت ہیں مگر اکثر کے دکھ ایک سے ہیں اور شدید ہیں۔ پاک وطن کی یہ پاک مٹی اُس نو ماں کی پہلی حاملہ کی گواہ ہے جو کرب سے گزرنے کے باوجود مملکتِ نو کی جانب گامزن تھی اور اِسی دوران اپنے بچے اور خود کو کھو بیٹھی۔ یہ مٹی اُن عورتوں کی قربانیوں کی بھی گواہ ہے جن کے بیٹے، بھاٸی، باپ اور خاوند جب منزل کے قریب پہنچنے کو تھے تو اُنھوں نے سینے پر بھاری پتھر رکھ کر اپنے بلکتے شیر خواروں کے گلے گھونٹے تاکہ آنے والی نسل آزادانہ فضا میں پروان چڑھے۔ وطن کی یہ مٹی اُن عورتوں کی بند ہوتی سانسوں کی بھی گواہ ہے جو کنویں میں عزت کی حفاظت کو کود گٸیں مگر ظالموں کو اپنا جسم استعمال نہ کرنے دیا، جنھوں نے اپنے سہاگ شادی کی اگلی صبح کھو دیے، جن کے لختِ جگر پاش پاش کر دیے گۓ، جن کو بےپردہ کیا گیا، جن کی برہنہ لاشوں کو مُردہ مردوں کے جسم سے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اور اُتار کر ڈھانپا گیا، جن کو قید کر لیا گیا تو وہ زخمی شیر کی مانند ظالموں کو کاٹنے لگتیں مگر ہار نہ مانتیں اور جب عزت جاتی نظر آتی تو اپنے پاس میسر وساٸل یا دوپٹے سے گلا گھونٹ لیتیں۔ اِس مٹی نے گھروں کو آگ لگتے دیکھا، مہاجرین کو لے جاتی ٹرین کی بوگیوں کو جلتے دیکھا، بدن کے کٹے پھٹے اعضا۶ کا شیرازہ دیکھا، خود پر بہتے لہو کا پیمانہ دیکھا اور وہ سب بھی دیکھا جب مہاجرین کے لیے جگہ و سامان کی کمی ہوٸی، جب مملکتِ نو ناتواں تھی اور سرحدوں کے محافظ نہ تھے، جب انتظامی مساٸل کا سامنا تھا اور پھر دریاٸی پانی کا مسٸلہ کھڑا کر دیا گیا، غرض ہر وہ قدم اٹھایا گیا جو ہمیں توڑ دیتا اور ہمارے قدم متزلزل ہونے لگتے مگر ہر بار اغیار کو ناکامی نصیب ہوٸی۔ وطن کی یہ مٹی اُن تمام قربانیوں کی گواہی آج بھی دینے کو تیار کھڑی ہے مگر مسٸلہ یہ درپیش ہے کہ کوٸی اُسے سنتا ہی نہیں اور وہ اِس غم کو سہتے سہتے اب مرجھانے لگی ہے۔ یہی مٹی ہر غم کی واحد گواہ ہے۔ آج بھی ہر معلوم و نامعلوم محافظِ وطن اِسی مٹی کو گواہ بنا کر جامِ شہادت نوش کرتا ہے اور یہ مٹی اُسے سدا یاد رکھتی ہے تاکہ دنیا میں نہ سہی مگر بروزِ قیامت جب اُسے گواہی دینے کا کہا جاۓ تو وہ فوراً دے سکے۔
شہیدوں کی زمیں ہے، جسے پاکستان کہتے ہیں
یہ بنجر ہو کر بھی بزدل پیدا نہیں کرتی

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *