میں۔ جب بھی زمانہ جاھلیت کے قصے پڑھتی ہوں تو بڑا تعجب ہوتا ہے کہ کیسے لوگ تھے جو اپنے ہی ہاتھوں اپنی بیٹیوں کو زندہ ۔جلا دیتے یا منو مٹی تلے دفن کر آتے تھے کیا ان۔ میں۔ جذبات نہیں پاۓ. جاتے تھے یا سفاکیت اس قدر تھی کہ اس کے اگے جذبات ہی پھیکے پڑ جاتے تھے اب سوال یہ پیدا ۔ھوتا ہے کہ وہ صرف اپنی بیٹیوں۔ کے ساتھ ہی ایسا ظالمانہ سلوک کیوں کرتے تھے اس کا۔ سادہ سا جواب ہے کے عورت کو۔ حقیراور کمتر سمجھا جاتا تھا ان۔ کی نظر میں۔ عورت سواۓ ایک گالی کہ اور کچھ بھی نہ تھی عورت کی حیثیت صرف یہ تھی کہ ہر مرد بستر پہ تو عورت چاہتا تھا لیکن اپنی۔ عورت کو زندہ۔ نہیں رکھنا چاہتا تھا پھر یکہ یک ایک انقلاب برپا ہوا اور نبی کریم رؤف الریم کی تشریف آ وری نے عورت کو بلند مقام و مرتبہ عطا۔کیا پیار محبت اور شفقت جیسے الفاظ سے عورت ذات کو روشناس کرایا اور بتایا کہ عورت تو ہر روپ میں۔ پیاری ہیں پوری کائنات کو لا کر ایک۔ عورت کے قدموں تلے رکھ دیا اب۔ بات آتی ہے دور جدید کی عورتوں کی جن۔ کہ پاس اعلی مقام و مرتبہ ہے آزادی ہے عزت محبت شفقت جیسے جذبات کی فراوانی ہے پر افسوس کہ ان سب۔ کے ہونے کے باوجود انھیں سڑکوں پہ نکلنا پر رہا ہے آزادی کے لئے بھئ اب۔ تم کس آزادی کی بات کر۔ رہی ہو ایسی کونسی آزادی ہے جو اب تمھیں در کار ہے اس مرد سے آزادی حاصل کرنا چاہتی ہیں جسکی وجہ سے آپ آزادی جیسے لفظ سے اشنا ہوئی ہیں اس مرد سے۔ آزادی جسکی وجہ سے عورت راج کرتی ہے پھر وہ چاھے بیٹی کے۔روپ میں ہو بہن ۔ بیوی یا ماں کے روپ میں ہو میں نے صرف۔ ایک مرد کے چلے جانے سے بھرے پڑے گھر کو ویران ہوتے دیکھا ہے اگر تو۔ عورت کو ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی کمائی سے۔ گھر چلا سکتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو بھی جائے پر جو بھی رب کے قوانین کے الٹ جاتا ہے نہ تو۔ بے سکونیاں بے چینیاں مقدر ٹھہرتی ضرور ہیں اور وہ مرد جنکو اب۔ بھی لگتا ہے کہ عورت صرف ایک تفریحی سامان ہیں اور زبان۔ زبان۔ کے جوھر دیکھا کے ذہنی اذیت سے۔دو چار کرتے ہیں۔ تو۔ میری نظر میں۔ ایسے۔ مرد ہجڑا کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں رب کی حد بندیوں کو توڑ کے کوئی بھی کامیاب نہیں ہو۔ سکتا نہ۔ دنیا میں۔ اور نہ ہی آخرت میں ۔۔خوش رہیں آباد رہیں مگر حدود کو عبور نہ کریں کیوں کہ یہی حدود تو تحفظ فراہم کرتی ہیں ۔۔
بنت صدیق ۔۔۔۔
.
*************