Islam mein zaat paat aur nasli imtiyazat article by Sunbal Boota

articles

اسلام میں ذات پات اور نسلی امتیازات

مسلمانوں میں یہ بات بہت ہی زیادہ زور پکڑ چکی ہے کہ ذات پات کے نظام کو بہت اہمیت دی جاتی ہے چھوٹی ذات بڑی ذات کیا کسی نے کبھی اس بات کو جاننے کی بھی کوشش کی کہ یہ نظام آیا کہاں سے
جس طرح اور بہت سے رسم و رواج ہندوؤں سے مسلمانوں میں منتقل ہوئے اسی طرح ہی یہ ذات پات کا نظام بھی
اگر اسکی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ نظام آریہ نسل کے ہندوستان میں حملے کے بعد وجود میں آیا کیونکہ یہ قوم خوبصورت سنہری بالوں والے اور نیلی آنکھوں والے تھے اور یہ نظام انہوں نے اسلیے بنایا تاکہ ہندوستان کے مقامی لوگ ان میں شامل نہ ہوسکیں جو کہ پستہ قد اور سانولی رنگت کے تھے اور یہ نظام بنابھی اسی لیے کہ انکا نسلی امتیاز قائم رہے
اور یہی نظام تھا جس نے لوگوں کو چھوٹی بڑی ذات کا درس دیا
ہندوؤں میں چار ذاتیں تھی
جو کہ برہما جسے ہندوؤں کی کتابوں میں فطرت کا نام دیا جاتا ہے اسکے وجود سے پیدا ہوئیں برہما کے سر سے جو پیدا ہوئے وہ برہمن کہلائے
اور جسم انسانی میں سرسب سے اہم ہوتا ہے
اسکے بعد کہشتری جو بازوٶں اور ویش جو کہ برہماکے رانوں سے اور پھر شودر جو کہ برہما کے پاٶں سے وجود میں آئے
اور سب سے چھوٹی ذات بھی شودر ہی تھی جس کے ساتھ ذلت اور حقارت کا سلوک کیا جاتا تھا
اور جب اسلام آیا اور اسلام نے ہر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور نسلی امتیاز کو ختم کیا لیکن مسلمان اس بات کو نہیں سمجھتے
اور ذات پات میں بٹے ہوئے ہیں یہاں بھی مسلمانوں میں زمانہ جاہلیت کی طرح ہی چھوٹی بڑی ذاتیں اور نسلی امتیازات موجود ہیں اور لوگ اس پہ ایسے عمل کرتے ہیں جیسے عمل کرنے کا حق ہو
مسلمانوں میں بھی لوگوں کو جو لوگ چھوٹی ذات والے ان سے حقارت اور ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے
ایک بات جو سوچنے والی ہے کہ ہندوؤں کے نزدیک تو بہت سارے خدا ہیں اور نسلی امتیاز بھی اسی وجہ سےلیکن مسلمان تو ایک اللہ کی گواہی دیتا ہے تو پھر وہ کیوں لوگوں سے ذلت اور حقارت والا سلوک کرتے ہیں
اسلام جب آیا تو شودر جن کے ساتھ لوگ حقارت کا سلوک کرتے تھے
مسلمان انہیں اپنے ساتھ بٹھا کے کھلاتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کا حسن سلوک دیکھ کر لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے کیونکہ اسلام انہیں عزت اور مان دیتا تھا اور آج کے مسلمان وہ سارے سبق بھلا چکے ہیں
نسلی امتیاز سے متعلق صحابہ کاایک دلچسپ واقعہ :
ایک دفعہ حضرت بلال ؓ اور حضرت ابو ذر غفاریؓ میں تلخی ہوگئی اور غصے میں حضرت ابوذرؓ نے حضرت بلالؓ کو
”اے سیاہ فارم عورت کے بیٹے“
کہہ دیا
آپ ﷺ کو جب یہ خبر ملی تو آپﷺ نے فرمایا “
اے ابوذرؓ کیا آپؓ نے بلال کی والدہ کیلیے نامناسب الفاظ استعمال کیے ہیں ؟
کیا آپؓ میں ابھی بھی جہالت موجود ہے ؟
حضرت ابو ذرؓ روتے ہوئے مسجد سے بھاگے اور حضرت بلالؓ کے پاس پہنچ کر اپنی رخسار زمین پر رکھ دی اور کہا کہ
”اے بلالؓ جب تک آپ ؓ اس پر پاٶں نہیں رکھتے میں نہیں اٹھوں گا آپؓ عالی مقام ہیں اور میں ادنیٰ اور حقیر“
جس پر حضرت بلالؓ رونے لگے ،
آپؓ نے انہیں زمین سے اٹھایا اور اسی رخسار پر بوسہ دے کر انہیں گلے سے لگا لیا اور دونوں رونے لگے ۔
صحیح بخاری- ٥٠
صحیح مسلم- ١٦٦١
یہ ہے اسلام کی خوبصورتی جس میں کوئی نسلی امتیاز نہیں کوئی کسی کو کسی پر فضیلت نہیں سواۓ تقویٰ کے
حجتہ الوداع کے موقع پر آپﷺ
نے فرمایا :
اے لوگو تمہارا رب بھی ایک ہے اور تم ایک باپ (حضرت آدم علیہ السلام ) کی اولاد ہو لہذا کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر اسی طرح کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ” فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ اور پرہیز گاری ہے “
(مسند احمد بن حنبل :23489)
اسلام تو ہمیں بھائی چارے کا درس دیتا ہے اور دوسروں سے حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے اور اگر کوئی فضیلت ہے کسی کو تو بس اسکی بنیاد تقویٰ اور پرہیز گاری ہے اللہ پاک ہمیں احسن انداز سے اسلام کی پیروی کی توفیق دے آمین ثم آمین ۔
(سنبل بوٹا)

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *