:موضوع
خواتین کی زندگی میں جہیز کی اہمیت؟
قلم نگار :انورسلطانہ
صدیوں کے تسلسل کے ساتھ ہی انسانی معاشرہ جس مضبوط بُنیاد پہ کھڑا ہے اُس کا بُنیادی ستون خاندان ہے- خاندان کی کئی اکائیاں ہیں جن میں ایک اہم اور بنیادی اکائی رشتۂ ازدواج ہے جس کو شادی کا بندھن بھی کہا جاتا ہے ۔ دُنیا کے ہر خطے میں شادی کے موقع پر مخصوص رسو م و رواج کو پورا کرنے کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے، اگر کسی بھی خطے میں ہونے والی شادی کے رسوم و رواج پورے نہ کیے جائیں تو شادی کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔شادی کے کچھ لوازمات بہت ضروری ہیں جن کے ادا کرنے سے مذہبی طور پر شادی مکمل ہوتی ہے
مثال کے طور پر اسلام میں نکاح یعنی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول، ہندوں کے ہاں ور مالا، منگل سوتر پہنانا اور آگ کو پاک اور پوتر مان کر اس کے گرد چکر لگانا، عیسائیوں کا چرچ جا کر پادری کے پیچھے شادی کے بندھن میں بندھنے کے لئے کلمات کو دہرانا جس میں ایک دوسرے کو میاں اور بیوی کے طور پر قبول کرنا وغیرہ شامل ہیں- ایسے ہی ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ ایسے لوازمات ضروری ہوتے ہیں جن کی انجام دہی کے بغیر شادی مکمل نہیں ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں جو کہ مذہبی یا معاشرتی طور پر تو ضروری نہیں ہیں لیکن ان کی انجام دہی ان ضروری عوامل سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے کہ اگر ان کو ادا نہ کیا تو شادی مکمل نہیں ہو گی-
اگر ہم پاکستانی معاشرے کی بات کریں تو یہاں جو بے مقصد رسومات خاص طور پر انجام دی جاتی ہیں ان میں تیل، مہندی، مایوں، جوتی اترائی، پلّو پکڑائی خاص طور پر قابل ذکر ہیں- اس کے ساتھ ساتھ وافر، غیر ضروری اور ناقابلِ برداشت جہیز کا دینا- اگر سوچا جائے تو ان رسومات کے بغیر بھی شادی کی انجام دہی ممکن ہے لیکن افسوس آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں بھی ہم جہیز جیسی لعنت کے بغیر شادی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔
جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب اسباب یا سامان کے ہیں ۔۔۔ اور یہ اس سامان کو کہتے ہیں جو لڑکی کو نکاح میں اس کے ماں باپ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ جہیز دینے کی رسم پرانے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے میں جہیز مختلف صورتوں میں دیا جاتا ہے لیکن عام طور پر زیورات، کپڑوں، نقدی اور روزانہ استعمال کے برتنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں یہ رسم ہندو اثرات کی وجہ سے داخل ہوئی اورآہستہ آہستہ ایک لعنت کی شکل اختیار کر لی۔
جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں۔ ان کی آرزؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اُجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ ایک رسم ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں اور اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کے لخت جگر کو قبول کر لے لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسمیں رواج پا چکی ہیں اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جما لیتی ہیں ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔ درحقیقت جہیز خالص ہندوستانی رسم ہے اور ہندو معاشرے میں تلک کے نام سے مشہور ہے جسے آج ہمارے مسلم معاشرے نے اپنا لیا ہے۔ اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلا لئے ہیں کہ غریب گھروں میں پیدا ہونیوالی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔ جہیز ایک غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے۔ آج اس رسم نے جو قبیح صورت اختیار کر لی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
یہ بھی درست ہے کہ کچھ سال قبل جن اشیاء کو قیمتی شمار کیا جاتا تھا وہ آج معمولی ضروریات زندگی بن چکی ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جہیز کے نام پر لڑکی کے والدین کو قرض کے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔ اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو آج کل انسان ایک سائنسی دور سے گزر رہا ہے۔ بالخصوص ہمارے معاشرے میں غریبوں کی کوئی اہمیت نہیں وہ محض رینگتے کیڑے مکوڑے ہیں جنہیں ہر کوئی مسلتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ غریب کے گھر اگر بیٹی پیدا ہو جائے تو ایک طرف خدا کی رحمت اور جب شادی کی عمر کو جائے تو زحمت بن جاتی ہے کیونکہ لڑکے والے جہیز جیسی لعنت کا تقاضا کرتے ہیں۔ جہیز کی اصل حقیقت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ لڑکی کے والدین جنہوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اور گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت اگر کچھ تحفے دیتے ہیں تو اسے جہیز نہیں بلکہ اپنی اولاد سے محبت و تعلق کی بناء پر فطری عمل ہے لیکن موجودہ دور میں ان تحائف کی جو حالت بنا دی گئی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ ماں باپ کے ان تحفوں کو لڑکے والوں نے فرمائشی پروگرام بنا دیا ہے اور پورا نہ ہونے پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے یہ سماجی رسم ہوا کرتی تھی آج جہیز بن گیا ہے۔ اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کئے جا سکتے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
حکومت کو چاہئے کہ جیسے رات گئے شادی بیاہ اور شوروغل پر پابندی عائد کی ہے ویسے ہی ایک قانون بنایا جائے جس سے جہیز لینے دینے کو جرم قرار دیا جائے اور جو اس جرم کا ارتکاب کرے گا اسے جیل اور بھاری جرمانے کئے جائیں تاکہ ایسا کوئی آئندہ گھناؤنا مطالبہ نہ کرے۔ اس کو ختم کرنے کیلئے سخت کارروائی کی ضرورت ہے ۔
معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کیلئے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ وہ عہد کریں کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے۔ لوگوں کو بھی بتایا جائے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائیداد وغیرہ فروخت کرکے جہیز کے مطالبات پورے کرنا ایک اخلاقی جرم ہے۔
ہمارے معاشرے میں جہیز کے علاوہ بہت سی غیراسلامی رسمیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے سماج میں زبردست بے چینی بڑھ رہی ہے۔ یہ امراء کیلئے توکوئی بات نہیں لیکن غریبوں کیلئے بیٹیاں مصیبت ثابت ہو رہی ہیں اور ہزاروں لڑکیاں اس ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ جہیز کا لین دین غیراسلامی ہے۔ اس گھناؤنی غیراسلامی رسم کو ختم کرنے میں نوجوان اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب آج کی نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں سے نکال دے اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کرے۔
.
*************