حضرت سیدہ اماں خدیجہ رضہ اللہ عنھا از اقصیٰ ساقی
اُمّ المومنین، خاتُونِ اوّل اسلام، ملیکۃ العرب،
مادرِ بتُولؑ، زوجہ رسُول ﷺ, نانی حَسنین کریمینؑ
حضرت بی بی خدیجۃُ الکُبرٰی سلامُ اللّٰہ علیھا
یہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے اماں خدیجہ رضی اللہ عنھا سے بے انتہا محبت ہے کیونکہ بچپن سے میں نے انکو پڑھا ہے جب سے پیدا ہوئے تو کلمہ لاء پڑھایا اور سنایا گیا ہے الحمداللہ جس کی بدولت سمجھ رکھنے کی عمر تک آپ علیہ السلام کی ذات سے بہت حد تک باخبر ہوچکے تھے ہم الحمداللہ رب العالمین لیکن سکول کی درسی کتابوں میں مزید کسی صحابیہ کا زکر ہوتا نہ ہوتا ماں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا اور ابو طالب کا زکر لازمی ہوتا تھا تو کچے ذہن سے جب آپ کسی کا نام سنتے اور پڑھتے ہیں تو محبت تو خود ہی ہوجاتی ہے اور پھر ہم ٹہرے بچپن سے ہی اردو مطالعے کے شوقین تو بڑی جماعتوں کی کتابیں لے کر اماں حضرت خدیجہ کے بارے میں شوق سے پڑھا کرتے تھے۔
حضرت خدیجہ رضہ اللہ عنھا ایک شریف اور پاک باز خاتون تھیں۔نسب کے اعتبار سے بھی قریش میں سب سے اعلی تھیں انہیں “قریش کی سیدہ” کہا جاتا تھا وہ ایک تاجرہ بھی تھیں جو اپنا مال شام بھیجا کرتی تھیں انہیں کسی امانت دار کی ضرورت تھی جو انکا مال امانتداری سے فروخت کرسکے چنانچہ جب انہوں نے آپ علیہ السلام کے بارے میں سنا تو آپ کو بلا بھیجا اور کہنے لگیں؛”میں آپ کی سچائی’امانت داری’اور نیک اخلاق کے بارے میں سنا ہے اور اسی وجہ سے میں نے آپ کو بلوایا ہے جو معاوضہ میں آپ کی قوم کے دوسرے آدمیوں کو دیتی ہوں آپ کو ان سے دگنا دوں گی.” آپ نے انکی بات منظور کرلی اور شام روانہ ہوگئے راستے میں میسرہ(حضرت خدیجہ کے غلام) نے جو معجزے دیکھے تو انہوں نے واپس آکر حضرت خدیجہ سے زکر کیا تو وہ پہلے ہی جو آپ کو آتے دیکھ کر آپ کے اوپر سایہ کئے بادل دیکھ چکی تھیں بہت حیران ہوئیں اپنے چچا ذاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں انہیں ساری باتیں بتائیں کیونکہ وہ پرانی کتابوں کے عالم تھے حضرت خدیجہ کی ساری باتیں سنتے ہی ورقہ بن نوفل نے کہا؛”خدیجہ !! اگر یہ تمام باتیں سچ ہیں تو سمجھ لیں کہ محمد اس امت کے نبی ہیں دنیا کو انہی کا انتظار تھا یہی انکا زمانہ ہے”.
حضرت خدیجہ کے اب تک دو نکاح ہوچکے تھے پہلا نکاح عتیق سے ہوا تھا عتیق کے فوت ہونے کے بعد دوسرا نکاح ابو ہالہ سے ہوا ابو ہالہ کی وفات کےبعد حضرت خدیجہ نے دوبارہ نکاح نہ کیا البتہ سیدہ خدیجہ رضہ اللہ عنھا کی پاک بازی اور مالداری کی وجہ سے بہت سے لوگ ان سے نکاح کرنا چاہتے تھے اور بہت سے نوجوانوں کی طرف سے نکاح کا پیغام بھجوایا گیا تھا لیکن حضرت خدیجہ نے کسی کا پیغام قبول نہیں کیا لیکن جب آپ علیہ السلام تجارت کے سفر سے واپس لوٹے تو آپ کی خصوصیات اور آپ کی امانت داری اور باتیں سن کر وہ آپ علیہ السلام سے بیت متاثر ہوئیں لہذا انہوں نے اپنی سہیلی نفیسہ کو آپ کے پاس بھیجا تو آپ نے ان کا پیغام قبول کیا اور اسطرح حضرت خدیجہ نے 40 سال کی عمر میں آپ علیہ السلام کی پہلی زوجہ کا مرتبہ پالیا اور آپ کی زندگی میں شامل ہوگئیں اس وقت آپ کی عمر مبارک فقط 25 سال تھی یہ شادی ہمارے معاشرے کے ان لوگوں کیلئے کھلم کھلا مثال ہے جو کہتے ہیں لڑکے کا بڑا ہونا ہر حال میں لازمی ہے بعض اوقات عورت کا بڑا ہونے سے بھی کوئی مزائقہ نہیں جب میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 25 سال کی عمر میں 40سال کی بیوہ عوورت سے پہلا نکاح کرسکتے ہیں تو باقی مسلمان کیوں نہیں کرسکتے سوچتے سمجھنے کی صلاحیت ہو تو آج کا مسلمان یہ چیز ضرور سوچے گا۔
حضرت خدیجہ رضہ اللہ عنھا ہی وہ خوش نصیب خاتون ہیں جن کی گود میں سر رکھ کر آپ نے اپنی پہلی وحی کا زکر کیا اور آپ ہی وہ خوش بخت خاتوں ہیں جن کے بطن سے آپ کی چار شھزادیوں نے جنم لیا اس اعتبار سے آپ علیہ السلام کی بیویوں میں ان کا ایک الگ ہی مقام اور رتبہ ہے۔
آپ علیہ السلام سے تو محبت کا کوئی الفاظ ہی نہیں ناں ہمارے پاس جب ہم پڑھتے کہ حضرت خدیجہ نے انکی وجہ سے اسلام قبول کیا اور ان سے نکاح کیا تو ہمیں یہ بات پڑھ کر ان سے محبت ہوتی تھی اور ہم کتنی بار ان کو پڑھتے اتنی بار ہمیں ان سے محبت ہوجاتی تھی اور اب عمر کے کچھ برس گزار لینے کے بعد اس محبت میں پختگی ایسی آگئی ہے کہ ماں خدیجہ کا نام سنتے ہی دل میں ایک دم تکریم آجاتی ہے ان کا زکر سنتے ہی ایسے محبت سے آنکھیں چمکنے لگتی ہیں ۔
یہ وہی ہماری ماں ہیں جن کے بارے میں خود میرے محسن میرے پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: خَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ
”عورتوں میں سب سے بہترین عورت خدیجہ (رضی اللہ عنھا) ہیں“
)صحیح البخاری,مناقب الانصار,3815(
میری ماں میری محسنہ کتنی عالیشان تھیں ان کی محبت ان کی وفات کے بعد بھی آپ علیہ السلام کے دل میں روز اول کی طرح تھی حتی کہ آپ کو ان سے اتنی محبت تھی کہ جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا زندہ رہیں آپ علیہ السلام نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا یہ ہے محبت کی اعلی مثال ہے وہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ السلم کی غم خوار تھیں وہ آپ کی ماں کے بعد آپ کی پہلی محرمہ جنہوں نے آپ کو محبت دی اور آپ سے محبت لی آپ کے غموں کی دوا بنیں آپ کی ہم راز بنیں۔
مجھے رشک آتا ہے جیسے کہ حضرت عائشہ رضہ اللہ عنھا کو ان پر رشک آتا تھا روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:”میں نے حضور نبی اکرمﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا کہ میں نے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا پر رشک کیا ہے کیونکہ حضور نبی اکرمﷺ ان کا کثرت سے ذکر فرمایا کرتے تھے حالانکہ میں نے ان کو کبھی بھی نہیں دیکھا تھا“
)مسلم,باب فضائل خدیجہ,2435(
میں نے بھی ماں خدیجہ کو نہیں دیکھا لیکن میں نے ان کو اپنی کچی عمر سے پڑھا ہے اسی لئے مجھے ان سے محبت ہے بے انتہا اور لازوال محبت ہے۔
میں ان کے وصال کا لمحہ تصور کرتی ہوں تو بے چین ہوجاتی ہوں میرے نبی کی غم خوار میرے پیارے نبی کریم ﷺ جنہوں نے پہلے بغیر باپ کے دنیا میں آنکھ کھولی پھر چھوٹی سی عمر میں ماں کو آنکھوں کے سامنے جاتے دیکھا میرے وہ پیارے نبی ﷺ اب اپنی محرمہ کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے سے جاتا دیکھ رہے ہیں اپنی چار لاڈلیوں کی ماں کو جاتا دیکھ کر میرے نبی نے کیا محسوس کیا ہوگا میں یہ سوچتی ہوں تو میرا دل بے چین ہوجاتا ہے میرے آنسوں میری آنکھوں سے گر پڑتے ہیں لیکن روایت میں ہے کہ؛ ”امُّ الْمؤمنین سیدتنا خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ عنھا کے مرضِ وفات میں سرکارعالی وقارﷺ تشریف لائے اور فرمایا: اے خدیجہ! تمہیں اِس حالت میں دیکھنا مجھے گِراں( ناگوار)گزرتا ہے لیکن اللہ پاک نے اس گِراں گزرنے میں کثیر بھلائی رکھی ہے، تمہیں معلوم ہے کہ اللہ پاک نے جنت میں میرا نکاح تمہارے ساتھ’ مریم بنتِ عمران’ موسی علیہ السلام کی بہن کلثوم ‘ اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ساتھ فرمایا ہے“ اللہ اکبر اتنی خوبصورت تسلی میرے رب کی طرف سے بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے میرے نبی ﷺ کو ہمارے رب دکھی دیکھ سکیں وہ جن کی تسلی کیلئے جن کی دلجوئی فرمانے کے واسطے قرآن نازل ہوتا تھا میرے رب کی طرف سے تو ان کے اس عظیم دکھ میں انہیں کیسے تسلی نہ ملتی۔
ہجرت سے چار سال قبل 10رمضان المبارک کو حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کا انتقال ہوا اور آپ نے ان کو مکہ کے قبرستان جنت المعلاہ میں دفن کیا ۔
کروڑوں رحمتوں اور درود نازل ہو میرے پیارے نبی کریم ﷺ اور ان کی آل پر اور انکی پیاری محبوبہ اور محرمہ اماں خدیجہ رضی اللہ عنھا پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔