Feminism aur hamari khawateen article by Anwar Sultana

articles

فیمیزم اور ہماری خواتین

تحریر:انورسلطانہ

اسلام نے  عورت کو اعلى مقام ديا ہے،  اسلام كى نظر ميں انسانى لحاظ سے مرد اور عورت  دونوں  برابر ہيں لہذا مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ شرم ہے ۔ ہر فرد کی زندگی میں  عورت كسى نہ كسى صورت ميں ايك موثر کردار ادا كرتى  ہے ۔ ايك متوازن اور ترقى يافتہ  معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت  كى بہت بڑى اہميت ہے- قرآن مجید  اور سنتِ رسول میں عورت كے  مقام کے بارے میں کئی ایک آیات موجود ہیں۔ عورت خواہ ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ہو ، اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق وفرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ  آج کل دنیا بھر میں خواتین کے لیے ذاتی، سماجی، سیاسی اور معاشی برابری کے نعرے کے ساتھ مختلف سیاسی اور سماجی نظریات اور تحریکوں کے لیے ایک مشترکہ لفظ ’فیمنزم‘ استعما ل کیا جاتاہے  اور پاکستان میں اس لفظ کا مترادف لفظ’بھڑوں کا چھتہ‘ کا ہے تو یاد رکھیں  جہاں  کسی نے  اس چھتے کو  چھیڑا وہاں تنقید، طعنے اور گالی کی بھنبھناہٹ شروع سمجھے۔۔پاکستانی  اداکارہ ثروت گیلانی نے میزبان اور اداکارہ میرا سیٹھی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بہت سی متنازعہ باتوں کے بیچ یہ بھی کہا کہ وہ ’فیمنسٹ‘ نہیں ہیں لیکن وہ مرد اور عورت کی برابری پر یقین رکھتی ہیں۔میزبان میرا سیٹھی اس کلپ میں انھیں یہی سمجھاتی نظر آئیں کہ یہی تو ’فیمنزم‘ ہے لیکن وہ کسی طرح نہ مانی اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی معروف فنکار نے کسی انٹرویو میں اس لفظ سے دامن چھڑایا ہو اوربات مرد اور عورت کی برابری کی ہی کہی ہو  اور  یہ ماننے سے انکار  کیا ہو کہ وہ ’فیمنسٹ‘ ہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ اصل میں فیمیزم ہے کیا؟فیمنزم ایک ایسا تصور ہے جس کے مطابق مرد اور عورت دونوں برابر انسانی حقوق، بنیادی سہولیات، اقتصادی اور سماجی حقوق کے مستحق ہیں۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ’فیمنسٹ‘ وہ لڑکیاں ہیں جو چھوٹے کپڑے پہنتی ہیں، سگریٹ پیتی ہیں، رات بھر پارٹی کرتی ہیں اورلڑکوں کو خود سے کم تر سمجھتی ہیں اور سب سے اہم   برابری کے نام پر وہ سب کرنے کی ضد کرتی ہیں جو لڑکے کرتے ہیں مثلا گالی دینا وغیرہ۔

لیکن یہ فیمیزم  کا آغاز کب ،کہاں اور کیسے ہوا؟ویسے تو فیمنزم کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر صحیح معنوں میں یہ تحریک مارکس ازم کے ساتھ شروع ہوئی اور کالونیل ازم کے خاتمہ پر اس تحریک نے بہت زور پکڑا۔ فیمنزم کی شروعات کا اہم ترین موقع وہ تھا جب 1911 میں برٹش خواتین کے احتجاج پر انہیں ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ فیمنزم دراصل مغربی خواتین کی اپنے حقوق کے لیے کئے جانے والی جدوجہد کی ہی ایک شکل ہے -1995ء میں بیجنگ ویمن کانفرنس میں ہیلری کلنٹن نے اپنی مشہور زمانہ تقریر میں کہا تھا ” عورتوں کے حقوق ہیومن رائٹس ہیں ‘‘اور اس نے ایسی این جی اوز کو عالمی توجہ فراہم کی تھی اور اسی نے فیمنسٹ ایکٹوازم کو فرنٹ پہ لاکھڑا کیا تھا۔ مغربی خواتین نے اپنے حقوق کی جدوجہد کی جنگ لڑی جو تاحال جاری  ہے۔مغربی خواتین نے پہلے خود کو مرد کے تسلط سے آزاد کیا، تعلیم، ملازمت، بزنس، غرض کہ ہر جگہ یکساں اپنی ذمہ داریاں خود اٹھائیں جس کے پیش نظر انہیں حقوق کی جدوجہد میں بہت آسانیاں رہیں۔

حال ہی میں پاکستان میں بھی فیمنزم کا نام سنا جانے لگا ہے گزشتہ کچھ سالوں سے اس میں بہت تیزی بھی آئی ہے۔ پاکستان میں فیمنزم کے حوالے سے خواتین کا کردار ہر گز مغربی خواتین والا نہیں ہے یہاں خواتین کو حقوق مغربی خواتین والے چاہیں مگر ذمہ داریوں کے لحاظ سے وہ  اتنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہیں۔

معاشرہ مرد و عورت دونوں سے مل کر بنتا ہے۔دیکھا جائے تو خواتین کے استحصال میں مردوں کا حصہ زیادہ گناجاتا ہے، یہ بات بھی قابل قبول ہے لیکن خواتین اس معاشرہ کا حصہ ہیں۔ خواتین پر ظلم نہیں کیا جاسکتا، یہ ترقی یافتہ قوموں کا دستور نہیں۔

موجودہ دور میں سوشل میڈیا پر گالی کی طرح بنا دیا گیایہ لفظ عورتوں کے اپنےحقوق کی کتنی لمبی لڑائی اور جدوجہد کے کے بعد وجود میں آیا ہے، تاریخ میں اس کے حوالے سے ہزاروں مضامین اور کتابیں موجود ہیں لیکن آج بات چیت کا موضوع وہ نہیں ہے۔جب ایک معاشرہ عورت کی عقل و دانش کی نفی کرتا ہے تو اسے فیصلہ کرنے کا حق نہیں دیتا، اسے اختیارات حاصل نہیں۔ایسے معاشرے میں عورت کی حیثیت بھیڑ بکریوں کی مانند ہوتی ہے جن کو انسان کچھ فائدے اٹھانے کے لیے پالتا ضرور ہے لیکن انہیں وہ اپنا جیسا نہ سکتا ہے اور نہ ہی ان سے برابری کا سلوک کر سکتا ہے۔

پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس وقت لبرل فیمنزم کی بات کی جا رہی ہے۔ لیکن اگر پاکستان میں فیمنزم کی بات کی جائے تو اس کو جنسی آزادی مانگے جانے اور اخلاقی دیوالیہ پن کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں فیمنزم کے معانی اور تشریح ہمیشہ غلط ہی کی جاتی رہی ہے۔  جو چند لوگ اس کی درست تشریح جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کو کسی کے  سامنے آنے یا ان سے بات کرنے یا مدد کرنے کے لیے منع کیا جاتا ہے۔

لیکن ہم لبرل فیمنزم پر بات کرنے سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ یہ ہوتا کیا ہے؟لبرل فیمنسٹوں  کا خیال ہے کہ آزادی ایک حقیقت ہے اور ایک ایسے خزانے کے مانند ہے، جس میں مزید آزادی کی خواہش بڑھتی جاتی  ہے۔

لبرل فیمنسٹ اسی لیے ہر سال عالمی یوم خواتین پرخواتین سے ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ کوئی معاشرہ ، ثقافت یا ادارہ خواتین کے حقوق کے تحریک دبا نہیں سکتا ہے۔

لبرل فیمنسٹ حقوق نسواں کو ذاتی خودمختاری کے جیسا سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی کو اپنی مخصوص ترجیحات اور خود مختاری کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اسی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں ان کے بارے میں ایک مخصوص منفی نظریہ فکر اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ حالانکہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو مردوں کی طرح مساوی مواقع کے ساتھ اپنی مرضی کے ساتھ گزارنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

پاکستان میں بھی چند سالوں میں ایک مخصوص طبقے نے اس کے پنپنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ان کا انداز کسی حد تک قابل اعتراض گردانا گیا ہےکیونکہ انہوں نے جس انداز سے ہر سال متنازعہ بیانیہ کو فروغ دیا ہے اس سے وہ لوگ جو فیمینزم کے حامی نہیں تھے انہوں نے واضح طور پر اسے اخلاقی دیوالیہ پن کا نام دیا ہے۔

اس مارچ کا اصل مقصد عورت کی خود مختاری تھا تاہم وہ کہیں دور ہی رہ گیا۔ ہر سال عورت مارچ کے نام پر متنازعہ نعروں کی بھر مار نے اس کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ امتیازی سلوک اور تفریق کی اس تحریک کو غلط رنگ دینے میں کارپوریٹ میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کیونکہ امتیازات ختم کر دینے سے عورت پروفیشنل اور انتظامی سطح کی سیلینگ توڑ کر اعلی عہدوں پر پہنچ سکتی ہے، جس کو ایک مخصوص مردانہ ذہنیت قبول نہیں کرپاتی۔

اگر دیکھا جائے تو پاکستانی معاشرہ ایک تنوع پسند معاشرہ ہے، جس کے تنوع کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہاں مذہبی اور لبرلز دونوں بہر حال موجود ہیں۔ اور کسی ایک طبقے کے نظریہ پر اپنا نظریہ مسلط کرنے کا مطلب صرف اور صرف معاشرے میں بے چینی کو ابھارنا ہے۔مگر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ خواتین کے حقوق کے علمبرداروں کے ذاتی شہرت کے لیے فوٹو سیشن کروانے اور ٹی وی شوز میں بلند بانگ دعوے کرنے سے خواتین کی خدمت نہیں ہوتی ہے۔

اگر ہم پاکستانی معاشرے میں دیکھیں تو عورتوں کی حالت زار پہ طبقاتی فلسفے کی مخالفت کرنے اور ان کی جدو جہد کو نہ ماننے کے بیانیے زیادہ گردش میں ہیں۔ فیمنزم زیادہ تر سرمایہ دار طبقے کی روشن خیال خواتین میں مقبول ہے جبکہ جس طبقے کو اس کی اصل ضروت ہے ان کے خیالات پر زیادہ تر رجعت پسند یا مذہبی حاوی ہیں۔ایسے میں محنت کش طبقے کی علمبرداری ان دانشوروں کے سپرد ہے، جو اس طبقے سے مطابقت نہیں رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ لبرل فیمنزم کے بارے منفی سوچ کو مہمیز ملتی ہے اور اس کے مخالفین میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔

اس سال یوم خواتین پر انصاف، تحفظ اور سکون کا نعرہ لگایا جانے کا امکان ہے۔ یہ نعرہ حقیقتاً اس وقت کی ضرورت ہے بلکہ اس پر عمل کی ضرورت ہے تاکہ جو منفی سوچ لبرل فیمنزم کے بارے میں پھیل گئی ہے اس کو کم کیا جا سکے گا۔

حقوق نسواں اور فیمنزم تقر یبا ایک ایسا ہی موضوع ہے،جس پر ہمارے معاشرے میں بغیر کسی سمجھ بوجھ کے، اسکی تاریخ، اغراض و مقاصد، اور کردارکو جانے بغیر رائے دی جاتی ہے اور بعد میں یہی اختلاف رائے یا اتفاق رائے بعض اوقات بہت پیچیدہ مسائل کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔

فیمنزم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسانی معاشروں میں مردکے نقطہ نظر کو ترجیح دی جاتی ہے اور خواتین کے ساتھ غیر مساوی، امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں فیمنزم ایک ایسی مسلسل جدوجہد  کا نام ہے جس میں خواتین کیلئے مردوں کے برابرتعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع کے حصول کی جدوجہد کرنا شامل ہوتا ہے۔

خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے مسلسل ایک تحریک فیمنسٹ موومنٹ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے، اس مہم میں خواتین کا ووٹ ڈالنے کا حق، عوامی عہدے پر فائز ہونا، جائیداد کی ملکیت کا حق حاصل کرنا، تعلیم حاصل کرنا، پسند کی شادی کرنے کا حق خواتین اور لڑکیوں کو عصمت دری، جنسی ہراسانی اور گھریلو تشدد سے محفوظ رکھنا، من پسند لباس زیب تن کرنا اور مناسب اور قابل قبول جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حقوق شامل ہیں۔عورت ’’انسان ‘‘ کا نسوانی روپ ہے۔تو ظاہر ہے کہ اس کے امکانات بھی لامحدود ہیں۔ہم تاریخ کے تسلسل کا ایک حصہ ہیں۔برصغیر میں مسلمان معاشرے کی تاریخ ہمیں ہرگز یہ نہیں بتاتی کہ ہمارے آباؤ و اجداد عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔

برصغیر کے مسلم معاشرے میں عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم کرنے کے روشن شواہد موجود ہیں۔آج  بھی جب   میں دنیا بھر کے مسلمان معاشروں میں عورت پر ظلم ہوتا دیکھتی ہوں تو  مجھے بہت دکھ ہوتا ہے ۔کیونکہ میں مغرب کی آزاد و خود مختار عورت کو پس پشت ڈالتے ہوئے زمانہ جاہلیت کے دور میں زندہ دفن کر دی جانے والی عورت سے لے کر موجودہ دور میں ظلم و تشدد، جبر، غربت کی چکی میں پیستی، ہراساں کی جانے والی، تیزاب پھینک کر جلا دی جانے والی اور غیرت کے نام پر قتل کر دی جانے والی بنتِ حوا کو دیکھ کر خوف زدہ ہوں، اور ان کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کرتی ہوں اور اس کے علاوہ  پاکستانی حقوق نسواں کو اب بھی خواتین پر تشدد کے خلاف احتجاج جاری رکھنے، خواتین کی تعلیم کے بارے میں شعور بیدار کرنے، خواتین کے سیاسی، قانونی اور صحت کے حقوق کے لیے کام کرنے اور مزید خواتین دوست قوانین کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *