Gohar e nayab ke naam article by Aiman Arif

articles

عنوان: گوہرِ نایاب کے نام از قلم ایمن عارف


            میری طلب بھی انہی کے کرم کا صدقہ ہے             قدم یہ اٹھتے نہیں ہیں اٹھائے جاتے ہیں…
آج اگر میرے قلم نے بصد عجز ونیاز اس پیکر خلوص و وفا پر اٹھنے کی جسارت کر ہی لی ہے تو اپنے الفاظ کو محبتوں اور عقیدتوں کا غسل دینا واجب ہو گیا تھا۔ جاڑے میں، اُفقِ مشرق سے طلوعِ مہر کا منظر ہو یا غروبِ آفتاب کے وقت پھیلی شفق، برکھا رُت کی رم جھم ہو یا دھنک کی ست رنگی اور بھی بھلی ہو جاتی ہے,جب الفاظ منظر کشی کرتے ہیں۔یہ الفاظ ہی تو ہیں جو ہمارا تصور کسی خاص چیز یا شخص کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ کہ زندگی کی جاودانی اور اُس کے منظروں کا اظہار الفاظ ہی تو کرتے ہیں۔ہم پھول کہیں گے تو ہمارا تصور پورے چمن کا منظر ہمارے سامنے لے آتا ہے۔ ہم لفظ سمندر بولیں تو سننے والے کا ذہن یقینا پانی کے بہت بڑے ذخیرے، موجوں، کشتیوں اور ساحل کی طرف جائے گا۔الفاظ بھی مصور کے برش کا کام کرتے ہیں. مجھے  اپنی کم علم و کم عقل ہونے کا بڑی شدت سے احساس ہے لیکن میرے الفاظ اپنا اثبات چاہتے ہیں کہ وہ جذبات کو قلم میں اتارنےکا لازمی حصہ ہیں۔کچھ روز قبل 16ستمبر بروز جمعہ بعد از نماز مغرب اپنے مادرِ علمی کی طرف عازمِ سفر ہوئی۔2014 سے شروع ہونے والا یہ سفر آج تک جاری و ساری ہے لیکن میرے دل کی کیفیات آج بھی اس چھوٹے بچےجیسی ہو جاتی ہیں جسے اسکی والدہ پہلی مرتبہ حصول علم کا سامان بستے میں ڈالے، اسکا ہاتھ تھامے درس گاہ تک لے جا رہی ہو اور جو گھر سے تو بخوشی نکلا ہو لیکن درسگاہ کی بلند وبالا عمارت پر نظر پڑتے ہی دل ایسے کانپ رہا ہوکہ جیسے ابھی منہ کو آ جائے گا۔ یہ کیفیات کسی خوف کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ یہ فقط کہانی کا دوسرا رخ ہیں جس میں ماں نے بچے کے دل میں علمی احترام کو پروان چڑھایا ہوتا ہے اور اب وہ احترام قدم بہ قدم کیفیات کو سانچے میں ڈھال رہا ہو۔ دل کا سنمبھلنا تو ابھی ممکن نہ تھا۔۔پر اتنے میں بابا حضور چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے فرمانے لگے بیٹی قبلہ پیر صاحب جی سے ملاقات کرنی ہے عمرہ کی مبارکباد بھی تو دینی ہے۔ یہ کہنا ہی تھا کہ بابا حضور میرا ہاتھ تھامے دارلعلوم کی طرف چل دیے۔ مطلوبہ کمرہ  میں جانے سے قبل ان گنہگار نگاہوں نے شرف دیدار کی ٹھنڈک کوپالیا تھا۔ اور شیخ کامل کی دور رس نگاہوں نے بھی ہمیں دیکھ لیا تھا۔ پھر حسب معمول مرد حضرات سے کمرہ خالی کروایا گیا۔ سلام دعا کے بعد مجھ نا چیز کی طرف نگاہ کرم ہوئی اور بابا حضور سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے “یہ میری ایمن بیٹی ایسا خوبصورت لکھتی ہے کہ اس کے آگےقلم کچھ بھی نہیں”پھر تبسم فرمایا! اور پھر نگاہ میری طرف کی اور دریافت کرنے لگے!کہ مضامین کا سلسلہ کہاں تک پہنچا؟ میں بسد عجزو نیاز بس اتنا ہی کہہ سکی “حضور آپکی دعا چاہیے” پھر کیا تھا وہیں موجود میرے بھائی جان کو حکم دیا عقیل بیٹا!آب زم زم لے آؤ؛ ورنہ ایمن بیٹی کہیں تاخیر ہونے پر مضمون ہی نہ لکھ ڈالے۔۔۔کیا خوبصورت انداز دعا ہے کہ آب زم زم کو خلق کا نصیب کر دیا، مزید کرم نوازی تو دیکھیے فرماتے ہیں! بیٹی میں تمھارا ہر مضمون بڑے غور سے پڑھتا ہوں۔بہت خوبصورت! اور لکھا کرو۔وہ لمحہ میری زندگی کا حاصل تھا کہ الفاظ میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے اور نگاہیں اس جسمانی باپ کو تک رہی تھیں کہ جو آنکھوں میں آنسؤوں کا سمندر لیے اک بار میرے (روحانی باپ) قبلہ پیر صاحب کو دیکھ رہا تھا جسکی جھولی میں اس نے اپنے خون پسینے کی ساری کمائی اپنی بیٹی کی صورت ڈال دی تھی،اور اک نگاہ گنہگار بیٹی کو۔۔سو تخیل کے آئینے بدلےعکس تیرا ہی جابجا نکلا۔۔!!شیخ کی نگاہ کا صدقہ میں بھی اک جملے “گوہرِ نایاب کے نام” میں تمام خوبصورت نظاروں،عقیدتوں،کو سمیٹنا چاہتی ہوں اگرچہ یہ ناممکن ہے لیکن اپنے شیخ کامل کو خراج عقیدت پیش نا کرنا بھی بے ادبی کے زمرے میں آنے کا خوف ہے مجھے۔آج میرے مربی و محسن پیر و مرشد سفیرِ ضیاءالامت پیر سید زاہد صدیق شاہ بخاری کی پیدائش کا دن ہے۔ جو ایسا چراغ بن کر تشریف لائے کہ اک زمانہ نور کی آبشاریں اپنے دامن میں سمیٹ رہا ہے۔کسے معلوم تھا کہ 25 ستمبر کو پیدا ہونے والا یہ بچہ کروڑوں نسلوں کی آبیاری کرے گا اک ایسا نظام زندگی لائے گا کہ ان نسلوں کا ہر بچہ ہدایت کی روشنی میں نہا جائے گا۔ہر اک ایسا پھل دار درخت بن جائے گا کہ جو سایہ بھی فراہم کرنے والا ہوگا اور دین کی تبلیغ کرنے والا بھی۔ ایسا مرید بنے گا کہ اپنے شیخِ کامل کی نظرِ خاص میں رہ کر ہر اس مقام تک جائے گا  کہ جس کا تصور تک ہم جیسے گنہگاروں کو نصیب نہیں۔میری خوش قسمتی کا ستارہ تو اسی دن سے روشنی پانے لگا تھا جب میرے ذہن و دل میں بغیر دیکھے ہی اس پیکرِ وفا کی محبت پیدا ہو گئی تھی۔ کہتے ہیں انتظار سے موت بہتر ہے۔تو بس کیسی ہی کٹھن وہ انتظار کی گھڑیاں گزریں اور آخر وہ وقت سعید بھی آن پہنچا جب مجھے اس چشمٔہ فیض کی طرف عازم سفر ہونا تھا۔2014 میں  باقاعدہ اپنے پیرو مرشد کی سیرت کامطالعہ کرنے کا موقع میسر آیااور وہی میری پیدائش کا دن بھی تھا۔کہ وہ دن میری منزل کی طرف پہلا قدم ،پیرو مرشد کے مشن سے آگاہی کا پہلا زینہ تھا اس سے پہلے کی تمام زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ بے مقصد گزاری ہوئی محسوس ہونے لگی اور ہر آنے والا دن روشن مستقبل اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے منور کرتا، اللّٰہ کے حضور عاجزی میں اضافہ کرنے والا بنتا رہا۔کیا بات کروں ان کے کرم کی؟ کیا ذکر چھیڑوں انکی سیرت،انکی صورت کا وہ تو ایسا سمندر ہیں کہ ان میں حقیقتاً ڈوب جانے والا  کوئی شخص بھی گہرائی تک نا پہنچ پائے۔ہو سکتا ہے کہ میں انکے کرم، انکی صورت کا ذکر چھیڑوں تو مفتیانِ کرام کی عتاب سے بچنا مشکل ہو جائے اسی لیے احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے مختصراً لکھوں گی۔کچھ عرصہ قبل کی بات ہے میری ایک استانی جن  سے میرا عقیدت و محبت کا رشتہ اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ وہ کچھ بیمار رہنے لگیں۔” کہتے ہیں انسان جس سے محبت کرتا ہے اسکا ذکر اسکی ہر بات میں آ جاتا ہے”۔ میں بھی اپنی ہر نشست میں ہر بات پر باباجان کا ذکر کرتی۔جس بھی ڈاکٹر کے پاس جاتیں وہ کہتے کہ آپکو کوئی بیماری ہی نہیں ہم آپکی دوا کیسے کریں؟پریشانی کے عالم میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ مجھے اپنے پیر صاحب کے پاس لے جائیں وہ مجھے اتنے خوبصورت لگتے ہیں کہ انکی تصویر دیکھی ہے فقط پر انکے چہرے پر نور کا یہ عالم ہے کہ وہ بھی نظر بھر کر نہیں دیکھی جاتی۔میرے تو جیسے جسم میں خون اور خوشی کی لہریں ایک ساتھ دوڑنے لگیں۔مصروفیت کے باوجود میں اگلے ہی دن انھیں بابا جان کے حضور لے گئی۔منظر تو دیکھیے کہ ابھی بابا جان سے انکا سامنا نہیں ہوا تھا کہ وہ کہنے لگیں میرا دل خوف الہٰی میں ڈوب رہا ہے۔میرا جسم کانپ رہا ہے۔خلق سے پانی کا اترنا مشکل ہے۔یہ الفاظ ہی سننا تھے کہ میری آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر اُمڈ آیا کہ میں اس ہستی کی بیٹی ہوں کہ جس کہ بارے میں میرے مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!”هم الذین یذکر الله برؤیتهم.اولیاء اللہ وہ ہیں جن کو دیکھنے سے اللہ یاد آجائے۔اپنی زندگی پر رشک کا احساس دامن گیر ہوا۔کہ کرم پر کرم میرا مقدر ہوتا جا رہا ہے۔اس محبت کے لبادے کا کوئی ماپ نہیںمیں نے جس عمر میں بھی پہنا برابر آیاابھی تو یہ وہ کیفیت تھی جو شرف ملاقات سے پہلے تھی۔ اب آگے کا منظر دید کے قابل ہے کہ  ہر کسی کے لیے شفقت و محبت بھرا لہجہ،قلب و روح کو سکون بخشنے والے شیریں الفاظ، انداز فکر ایسا کہ ہر ملاقاتی کا دامن سیدھا بارگاہِ الٰہی میں پیش کر دیں کہ اے میرے رب یہ تیرا بندہ میرے پاس اپنی مشکل لے کر آیا ہے اسے صرف تیرے ہی کرم کا آسرا ہے تو  اپنے اس بندے کو خالی دامن نا لوٹانا۔پھر مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا بیٹی! آپکی استانی سے آپکے ادب و محبت کا یہ منظر دیکھ کر میری انکھیں ٹھنڈی ہو گئی ہیں کہ میں نے آپکی اور اپنی زندگیاں ضائع نہیں کیں ہیں۔ذرا اور تو سنیے کہ ابھی مجھ پر کرم کی اور برسات بھی باقی تھی کہ وہ الفاظ میری سماعت تک آئے جو میرا کل سرمایہ ہیں، میری استانی جی سے مخاطب ہو کر فرمایا !”میری بیٹی کو اللّٰہ بڑے رنگ لگائے گا” اور آج میرے قلم کا رنگ بھی انہی رنگوں میں سے ایک رنگ ہے۔
ملاقات کہ اس مختصر دورانیے نے جہاں اک بار پھر مجھے  میرے بلند بخت ہونے کا احساس دلایا تھا وہیں میری استانی جی بھی میرے مرشدِ کامل کی سیرت و کردار کے گن گانے لگیں۔‏تم  پر  موقوف ہوگا  داررومدارِحیات !تم  ہی  زندگی کی نِعمت خاص ہوگے !!اپنے تعلیم کا دورانیہ 2020 میں جب مکمل کر کے واپسی کا سفر کرنا تھا دل پریشان رہنے لگا،آنسو بغیر اطلاع کیے آنکھوں سے چھلکنے لگتے۔ایک دن ایسے ہی پریشانی کے عالم میں بابا جان سے ملاقات کا شرف نصیب ہوا۔ بابا جان شفقت بھرے لہجے میں فرمانے لگے۔” بیٹیے پریشان نہ ہویا کر” ۔ وہ جو اللہ ہے نــا وہ سب سنبھال لے گا__!!!تم سجدے میں گر جاؤ اور مانگتی جاؤ۔!!!کچھ توقف کے بعد فرمانے لگے “میں نے آپ سب کے ساتھ کوئی دھوکا نہیں کیا کوئی نقصان کا سودا نہیں کیا”تو وہ دل جو بابا جان کے گھر سے رخصت کے بعد اگلی زندگی لے لیے پریشان تھا،جانے سے گھبراتا تھا وہ آپکے ان الفاظ کے سائے میں سو سال جینے کی خواہش کرنے لگا۔اس کے بعد جب بھی بابا جان سے ملاقات کا شرف نصیب ہوا خالی دامن کو بھر کر ہی واپسی کا سفر ہوا۔یہ وہ ہستی ہیں کہ جنہوں نے ہمیشہ ہمیں یہ سبق پڑھایا کہ دلوں میں محبت لیئے۔ جنت کا عزم لیئے۔ ہاتھوں میں قرآن لئے۔ اللہ پر توکل کئے۔ منزل کی طرف بڑھتے جانا ہے۔ کبھی گرنا ہے، کبھی چلنا ہے۔۔ پر رستہ نہیں بدلنا ہے۔ ایمانی ساتھیوں کے ساتھ۔اللہ سبحانہ وتعالی کے سہارے آگے آگے آگے، بہت آگے بڑھنا ہے۔ وتواصو بالحق، وتواصو باصبر کرنا ہے..خسارے سے نکلنا ہے۔ نفس و شیطان کی جنگوں میںایمان و اخلاص کو فتح کرنا ہے۔ذکر کے قلعے میں خود کو محفوظ کر کے۔ماحول کی تاریکیوں اور آندھیوں سے نبٹنا ہے۔بمثل چراغ بن کر روشنی کو پا کر۔روشنیوں کا سفیر بننا ہے۔قرآن کو  عمل و فکر میں ڈھال کر۔دنیا میں عام کرنا ہے۔ قرآن کی روشنی کو۔ رب کے محبت بھرے پیغام کو۔ ساری دنیا تک پہنچا کر۔ لوگوں کو اللہ سے جوڑ کر۔ دلوں کو روشن کرنا ہے۔ زندگیوں کو روشن کرنا ہے۔قبروں کو روشن کرنا ہے۔ اس روشن کتاب کو ساتھ لئے۔ ان روشن راستوں پر چلنا ہے⁦۔المختصر!ابھی تو چند لفظوں میں سمیٹا ہے تجھے میں نےابھی تو میری کتابوں میں تیری تفسیر باقی ہے میرے الفاظ بہت چھوٹے ہیں میرے بابا جانی میرے مرشدِ کامل کا مقام بہت بلند ہے۔میرے  قلم کی اتنی رسائی نہیں کہ آپکے قدموں کی دھول تک بھی پہنچ سکے۔بس اتنا کہہ سکتی ہوں کہ درد دل خلوص و وفا احساس انسانیت رفیق قلب و روحانیت بلند حوصلگی اعلی ظرفی عجز و انکساری کثرت نگاہ و فکر کا تقدس ظاہر و باطن کی پاکیزگی خلوت و جلوت کی پاکیزہ رعنائی یہ سب جب ملتے ہیں تو “زاہد صدیق” بنتا ہے۔ایسے ہی ہستیوں کے لیے اقبال نے کہا تھاہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہےبڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدایہ زاہد بھی وہ ہیں کہ صبح کا آغاز تہجد سے اور رات بستر پر سورہ ملک کی گونج میں ہوتی ہے۔
میرے بابا جان میرے قلم کی کمزوری آپکو بیان کرنے سے قاصر ہے۔فقط اتنی سی التجا ہے کہ موت بھی آئے تو آپکے دامن سے وابستگی میں آئے۔زندگی بھی آپکی شفقت و محبت میں گزرے۔ آپکی عمر دراز صحت و تندرستی والی ہو_ آمین ثم آمین۔#ہمارے_بابا_ہماری_جان

.

*************

3 thoughts on “Gohar e nayab ke naam article by Aiman Arif

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *