کلام قرآن کے خزانے اور انسان کی خودی
(Aqsa Falak)
کبھی اے نوجواں مسلم، تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جسکا ھے اک ٹوٹا ہو تارا
انسان اپنی اصل اور اپنی حقیقت آج کھو بیٹھا ھے ، مفہوم ؛ اے مسلم نوجواں ! کبھی غورو خوض بھی کیا تو نے کہ کس عظیم قوم سے ترا تعلق ھے ؟ درحقیقت ہر انسان اک تارا ھے ، آسمان کا چمکتا تارا لیکن یہ اور بات ھے کہ وہ اپنی اہمیت کو جانتا ھے کہ نہیں ۔ وہ یہ جانتا بے کہ نہیں کہ وہ دراصل کیا چیز ھے ۔ اپنی اصل اور حقیقت کو کھو دیا انسان نے بقول اقبال:
اپنی اصل سے ہو آگاہ اے غافل ! کہ تو
قطرہ ھے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ھے
اے مسلم قوم تمہارا تعلق تو اس عظیم قوم سے تھا جسکی عظمت و رفعت ، جاہ جلال آسمان کی طرح بلند تھا لیکن تمام تر تعلقات ختم کردیے اور اپنا ایمان تک کھو دیا ۔۔
ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ھے
تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ھے
آج انسان نے اپنے آپ کو آرام پسند بنالیا ھے ، عیش و عشرت کو اپنے لیے پسند کرلیا ھے ۔ تو بتا ئیے ذرا کیا آج کوئی اس سوال جواب بھی دے سکتا ھے 1) اللہ نے ہمیں دنیا میں کس لیے بھیجا ؟؟
2) کیا اللہ نے ہمیں آرام کرنے کیلیے بھیجا ھے ؟
اگر آرام و سکون کیلیے بھیجنا ہوتا تو اسکے لیے تو ہمیں پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ تو پھر ۔
3) کھیل کود کھیل تماشوں کیلیے بھیجا ؟
قرآن میں بار بار کہا گیا ہے “ہم نے انسان کو کھیل تماشوں کیلیے دنیا میں نہیں بھیجا”
تو کیا اللہ دولت کمانے کیلیے دنیا میں بھیجا ؟ کیونکہ آج کے دور کا تو سب سے بڑا المیہ یہی ھے کہ جو انسان دولت کما کے امیر ہوگیا وہ کامیاب ھے ایسا ہی ھے ہمارے نظریات میں جو ہمیں امیر اور دولت مند نظر آتے ہیں دل ان کی طرف مائل ہوتا ، لوگ دولت کو پسند کرتے ہیں اور جو لوگ غریب اور سادے ہوں ہم ان سے دور رہنا پسند کرتے ہیں کیا ایسا نہیں ؟ جبکہ درحقیقت مال کی کشادگی اللہ کی رضا کی دلیل نہیں لوگ دولت شہرت کیلیے کماتے ہیں ، یا لوگوں کی رضا کیلیے ۔ لوگ دولت کماتے کماتے اپنے رب کے کتنے حکموں کی نافرمانی کر جاتے ہیں اور انہیں اس بات کا اندازہ تک نہیں ہوتا ۔ یا تو وہ دولت اللہ کی رضا کے لیے کمائی جائے ، اسکی حدود کو توڑے بغیر ۔ آج دولت کا پجاری ھے انسان ۔ جبکہ قرآن کہتا ھے مال اور اولاد تمہاری آزمائشیں کیلیے ہیں ۔ یہی دو چیزیں انسان کو یا تو اللہ کے قریب کردیتی ہیں یا انکی چاہت اور محبت میں انسان اتنا محو ہو جاتا ھے کہ اپنے رب کو بھول جاتا ھے ۔ اولاد نعمت اسطرح ھے کہ اسکی تربیت اچھی کرکے اسکی اصلاح کی جائے اسکو رب کا فرمابردار بنایا جائے تو یہ آپکے لیے صدقہ جاریا بن جائے گی اسکی ہر نیکی آپکے نامہ اعمال میں مزید اجر کا ذریعہ بنتی جائے گی ، جبکہ دوسری جانب یہی اولاد آزمائیش تب بن جائے گی جب آپ اللہ سے بڑھ کر اس سے محبت کرنے لگے گیں ، اس پر اپنا حق سمجھنے لگے گیں ، اسکی تربیت نہیں کریں گے ، اس کو اس دنیا کی ہر نعمت دیکر لذت اتنی دیں گے کہ وہ دنیا میں گم ہو جا ئے گا اسکا کیا گیا ہر گناہ آپکے نامہ اعمال میں گناہ کا ذریعہ بنے گا اللہ کا حکم وہ نہیں مانے گا تو گناہ آپکو بھی ملے گا ، آخر آپ نے اسکی تربیت کیوں نہ کی؟ اسے حرام و حلال کا کیوں نہیں بتایا؟ اسکو اللہ کی حدود سے آگاہ کیوں نہ کیا ؟ اسکو نیکی اور گناہ کا فرق کرنا کیوں نہ سیکاھا ؟ انسان دنیا میں گم ہو گیا ھے کہ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اللہ کی حدود کیا ہیں ؟ دنیا میں چلنا ھے دولت بھی کمانی ھے، گھر بھی لینا ھے سب کچھ کرنا ھے مگر جو اللہ کی بنائی گئی کچھ بائنڈریز ہیں ان کو کراس نہیں کرنا ۔ ایک limit سے آگے نہیں بڑھنا مگر افسوس کا مقام ھے آج سرعام ان حدود کو توڑا جا رہا ھے ۔ رب ناراض ہوجائیگا روز قیامت حدود کو توڑنے کے بارے میں سوال ہو گا ۔ مگر کسی کو کوئی خوف خدا نہیں ۔ رب کا خوف ھے یہ دعوئے کرنے والے سرعام اللہ کی حدوں کو توڑ رہے ہیں آج ۔ اللہ کی بانڈریز کیا ہیں انہیں قرآن میں واضح طور پر بیان کیا گیا ھے بقول اقبال ؛
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
قرآن کیا ھے ؟
کوئی اس سوال کا جواب دے سکتا بے، قرآن کی اہمیت آج کیوں ہر دل میں ختم ہوگئی ھے ۔ قرآن کو سوائے آج کوئی وظیفہ کرنے ، رمضان میں ایک قرآن ختم کرنے ، یا شادی والے دن بطور رسم بیٹی کے سر سے گزارنے ، مرنے والے کی روح کو اسکا ثواب بخشنے بس اس کیلیے کوئی کھولتا ھے ۔ کیا واقعی قرآن صرف اسی لیے نازل ہوا ؟؟ بقول اقبال ؛
تم ذلیل و خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر قرآن کو چھوڑ کر آج مسلمان دربدر خوار ہوتے پھر رہے ہیں ۔ قرآن کو آج صرف ناظرہ پڑھا جاتا ھے ۔اگر یہ صرف ناظرہ پڑھنے کیلیے ہوتا تو کیوں قرآن کے ذریعے اتنے سال صحابہ کی تربیت کی گئی ؟ قرآن کوئی عام کتاب نہیں ۔ قرآن خزانوں کا سر چشمہ ھے اس میں علم کے خزانے چھپے ہوئے ہیں ۔ یہ قیامت تک کے انسانوں کیلیے ہدایت ھے ۔ قرآن کے کئی معجزات ہیں ۔ قرآن ہم سے ہم کلام ہوتا ھے ہم جو سوچ رہے ہوں جو کام کر رہے ہوں اگر قرآن کو ترجمے سے پڑھیں تو ایسی آیات سامنے آجاتی ہیں کہ ہم کہتے ہاں ابھی میں یہی تو سوچ رہی تھی ۔
1) قرآن میں ہمارا ذکر ھے ہمیں لگتا ھے کہ یہ ہماری کہانی ھے۔
2) قرآن میں ہمارے ہر سوال کا جواب ھے چاہے وہ سوال کوئی بھی ہو کسی بھی طرح کا ہو دنیا سے کسی بھی متعلق ہو ، یا دین سے متعلق ، چاہے کسی کی شخصیت کو جاننے کیلیے ہو ہمیں ہر سوال کا جواب قرآن سے ملے گا ? گارنٹی ھے ۔
3) قرآن میں ہر علم ھے پوری کائنات کا علم اس قرآن میں موجود ھے وہ سائنسی علم ، وہ فزکس، کمیسٹری، یا بیالوجی کا ہو یا ریاضی ، شرعیت کا علم ہو یا علم روحانی ہو یہ قرآن کا معجزہ ھے کہ اس میں ہر طرح کا علم موجود ھے ہم جو علم بھی اس سے لینا چاہیں ہمیں وہ قرآن سے ملے گا ، بشرطیکہ کہ ہم اس علم کیلیے مشقت کریں ، محنت کریں ، قرآن کو سمجھنے کیلیے غوروفکر اور تدبر کریں ۔
4) قرآن کا معنی ہو مفہوم بدلتا رہے گا ہمارے وقت اور حالات کے مطابق ۔ ہم پر جو گزر رہا ہو ، جن حالات میں ہم قرآن پڑھیں گے یہ ہمارے ذہن اور سوچ کے مطابق ہمیں سمجھ آئے گا ۔
6) قرآن کو جو تھامے گا وہ کامیاب ہوجائیگا ، قرآن اسکو ہیرا بنا دئیگا ۔ حضرت جبرئیل نے قرآن کی آیات کو پہنچایا ، وہ فرشتوں کے سردار کہلائے ۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہمارے نبی کو تمام جہانوں کا سردار بنا دیا گیا ۔ امت محمدیہ کو قرآن ملا اس امت کو امت معتدل ہونے کا شرف عطا کیا ۔ یہ امت تمام امتوں سے برتر ھے ۔
7) قرآن میں جیسا کے ہر علم موجود ھے ، یہ رہنمائی کرتی ھے ، سیلف ڈیولپمنٹ ، سیلف موٹیویشنل ، فزیکل فٹنس، skills دینا ، بہادری دینا ایسی بہادری کے جس میں انسان رب کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے ، موت نظر آرہی ہو پھر بھی انسان کہ پاس روشنی کی ایک کرن باقی رہتی ھے ، ایک امید باقی ہو کہ نہیں میرا رب موجود ھے یہاں وہ میری مدد کریگا ، اور با مقصد زندگی ، یہ سب قرآن دیتا ھے
کیا آپ جانتے ہیں جتنی سائینس قرآن میں چھپی ہوئی ھے اتنی کہیں بھی نہیں ھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جو بے شمار علم کے خزانے عطا کیے اس میں سائنس کا علم بھی ھے ، قرآن کی آیات میں واضح طور پر سائنس کی آیات نظر آتی ہیں ۔ ایک دفعہ سائینس کی نظر سے قرآن کو دیکھیں تو سہی ۔ جو چیزیں سائنس آج پروف کر رہی ھے وہ قرآن میں 1400 سال پہلے سے موجود ہیں ۔ کیوں پہلے جتنی بھی سائنسی تحقیق ہوئی وہ مسلمانوں نے کی کیسے ؟؟ ، سب سے پہلے سائنسدان مسلم سائنسدان ہیں ۔ آج ہمیں ہماری کتابوں میں انگریزوں کی تھیوریاں پڑھائی جاتی ہیں جبکہ ان کے ہاں مسلم سائنسدان کئ کتب پڑھائی جاتی ہیں ۔ مسلمانوں کی وہ کتب وہ تحقیقی کتابیں آج اہل مغرب کئ لائبریریوں میں موجود ہیں ۔ تو سوال پیدا ہوتا ان مسلم سائنسدان کے پاس ایسا کون سا علم تھا جس کی بنا پر انہوں نے غورو فکر کی عادت ڈالی جسکی بنا پر انہوں نے سائنسی علوم کو فتح کیا ؟ وہ قرآن کا علم تھا ، جو تمام علوم کا سر چشمہ ھے ۔
بقول شاعر؛
طب اور کیمیا ، ہندسہ اور ہیت سیاست، تجارت ، عمارت فلاحت
لگاو گے کھوج ان کا جا کر جہاں تم
نشان انکے قدموں کے پاو گے واں تم
قرآن اور سائنس پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں ، ایک ناول جو بیالوجی تحقیق اور قرآن پر لکھا گیا ۔ الیقین با لحق اس کو پڑھیں ۔ آپکو قرآن کی قدروقیمت کا اندازہ ہوجئیگا۔ مگر آج کے دور میں افسوس کا مقام یہ ھے کہ انسان نے قرآن کو چھوڑ دیا ، تو قرآن نے بھی انسان کو چھوڑ دیا ھے ۔ آج کا سسٹم ، ہمارے سارے مسلم سائنٹسٹ انکی لکھی گئی کتابیں اہل مغرب کو پڑھائی جا رہی ہیں اور ہمارے ہاں سارے انگریزوں کی تحقیقوں کو پڑھ رہے ہیں ۔ انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ ان کا کیا کمال ۔ یہ محروم ہر نعمت سے ۔ انکی کی گئی ہر تحقیق مسلمانوں کی تحقیق کو دیکھ کر تھی ، آج کا تعلیمی نظام ایسا ھے کہ آپ کسی درخت کے پتوں ، اور شاخوں کو تو پڑھ رہے ہیں ، لیکن وہ ایک چھوٹے سے بیچ سے پھوٹا کیسے؟ ، ایک ننھا منھا سا بیچ ، اور ایک اتنا بڑا درخت یہ نہ پتا ہو ۔
علم کے ہزاروں خزانے ہیں ۔ انسان کسی بھی علم کو فتح کر سکتا ھے بشرطیکہ وہ علم کو اللہ کے نام سے حاصل کرے ۔ کہ یہ اللہ کا علم ھے ۔ جیسا کہ ” اقراء بسمہ ربک الذی خلق” ترجمہ : آپ اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا ” کیا آج واقعی ایسا ھے ؟؟ کسی کو علم سیکھتے ہوئے اسکا رب یاد آتا ھے؟ جب غیر مسلم کی تھیوریوں کو پڑھیں گے تو آپ کو آپ کا رب کیسے یاد آسکتا ھے ؟ ؟ غیر مسلم یاد آئیں گے نا، کہ وہ کتنے قابل ہیں ، آپ انکی ذہانت کے گن گائیں گے ۔ اور پھر نتیجتا انہی کو فالو بھی کریں گے ۔ یہ ھے نقصان قرآن کو چھوڑنے کا ۔ جبکہ ہر علم و تحقیق کی بنیاد کا آغاز قرآن سے ہوا ۔ مگر آج مسلماں سو رہا ھے ۔ اسکو کچھ معلوم نہیں ۔ نا اپنی اہمیت کا اندازہ نہ قرآن کی قدر و قیمت کا اندازہ ۔
کبھی اے نوجواں مسلم ، تدبر بھی کیا تونے
ایک ٹیچر سے ایک مرتبہ کسی موقع پر ملاقات ہوئی ۔ وہ کہتی تھی مجھے ریاضی پسند ھے اور میں اسکو پڑھاتی ہوں ۔ پر جب سے قرآن کو تھاما ھے مجھے قرآن میں سے ریاضی کے سوال ملتے ہیں ۔ اسکی ہر آیت میں ۔
اللہ نے ہمیں کسی اور ہی مقصد کیلیے دنیا میں بھیجا تھا ، خزانوں سے بھری کتاب ہمارے ہاتھ تھما دی مگر آج ہم غفلت کی گہری نیند میں سو رہے ہیں ۔
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن
آج جاگنے کی ضرورت ھے مسلمانوں کو ، آج مسلمان اہل مغرب کی اندھی تقلید کر رہے ہیں، اللہ کی حکموں کی سرعام نافرمانی کی جارہی ھے ۔ دنیا میں آپ کو اللہ کے علاوہ سب مل جائے گا ۔ آج کی تعلیم سے مسلمان رب کے قریب ہونے کی بجائے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔
وہ کیا گردوں تھا تو جسکا ھے اک ٹوٹا ہوا تارا
آج اگر کوئی علم کی لگن رکھتا ھے ، علم کے خزانوں کو حاصل کرنا چاہتا ھے ، دنیا و آخرت میں فلاح اور کامیابی چاہتا ھے تو اسے قرآن کو تھامنا ہوگا ۔ اسکے معنی اور مفہوم کو سمجنا ہوگا ۔ آپکو دنیا اور آخرت کا مکمل علم صرف اور صرف قرآن مجید سے ملے گا ۔ تو آئیے ہم مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں ۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی ہماری منتظر ھے ۔ آج قرآن کے ذریعے سے ہم اپنے نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔ قرآن کی تعلیمات اور اسکے معنی اور مفہوم کو سیکھ کر خود اس پر عمل پیرا ہو کر اور پھر اسے دوسروں تک پہنچا کر ۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ، نئے صبح و شام پیدا کر
جیسا کہ آج سے چودہ سو سال پہلے ایک قرآن نے صحرا نشینوں کی زندگی کو بدل دیا ۔ انہیں غلامی کی زنجیروں سے نکال کر آزادی دی انکی اصلاح کی اور انہیں پوری دنیا کا حکمران بنا دیا گیا ۔
جس نے تہذیب و تمدن کو موءدب کردیا
وحشیوں ، اور صحرا نشینوں کو مہذب کردیا
تہذیب کی شمعیں روشن کی اونٹوں کے چرانے والوں نے
کانٹوں اور گلوں کو قسمت دی ، ذروں کے مقدر چمکائے
آئیے تھام لیں قرآن کو اور پورے کے پورے دین میں داخل ہوجائیں ۔القر آن ففر و الی اللہ “پس دوڑو اللہ کی طرف” آج انسان سکون کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ھے ۔ تو جان لیں سکون کہاں چھپا ہوا ھے ۔ القرآن الا بذکر اللہ تطمعن القلوب “خبردار سکون صرف اللہ کے ذکر میں پوشیدہ ھے”
قرآن کے معجزوں میں سے ایک معجزہ سکون کا ھے ۔ قرآن کی آیات میں سکون چھپا ہوا ھے ۔ یہ ڈیپریشن کا علاج ھے ۔بندہ دو چیزوں کا مجموعہ ھے روح اور جسم ۔ آج انسان نے اپنے جسم کو تو غذا فراہم کی ھے لیکن اپنی روح کے تقاضوں کو بھلا بیٹھا ھے ۔ جسم مٹی سے بنا ھے تو اسکی خوراک بھی مٹی سے ملتی ھے ۔ پھل ، سبزیاں ، دالیں ، گندم ، چاول وغیرہ تمام خوراکیں مٹی سے ملتی ہیں ۔ اور روح آسمان سے آئی ھے اسکی خوراک بھی اللہ نے آسمان سے بھیجی ھے ۔ روح کی غذا کلام اللہ ھے ۔ کلام قرآن جب روح میں اترتا ھے تو روح کو سیراب کرتا ھے ، جسکی روح کو اس کی خوراک ملتی رہے پھر وہ کبھی ڈیپریشن کا شکار نہیں ہو سکتی ۔ پھر اسکو سکون کی تلاش میں ادھر ادھر نہیں پھرنا پڑتا۔
بے خبر! تو جوہر آئینہ آیام ھے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ھے
.
*************