Khwaja sira, insani haqooq aur hmara muashra article by Sidra Akhter

articles

خواجہ سرا،انسانی حقوق اور ہمارا معاشرہ

سدرہ اختر

عموماً خواجہ سرا اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ایک ۔خلوق ہے ان کے بارے میں ہمیں بولنے کا کوئی حق نہیں لیکن ہمارے معاشرے میں انکو حقوق دینا تو بہت دور کی بات ہے انکو غلط نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں ان کے ہر عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ذرا سوچیں۔۔۔!!
کیا ان کو جینے کا حق نہیں؟
کیا یہ ان کا قصور ہے کہ وہ ایسے ہیں؟
کیا وہ معاشرے میں عزت کے حقدار نہیں؟
کیا ان کو اپنی خواہشات پورے کرنے کا حق نہیں؟
کیا ان کے ساتھ غلط برتاؤ,غلط رویہ اختیار کرنے والے اشرف المخلوقات کہلوانے کے لائق ہیں؟
اگر ہم مکمل ہیں تو کیا ان کو تذلیل کرنے کا حق ہمیں حاصل ہے؟
کیا ہمیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں کیا یہ حق ان کو حاصل نہیں؟
کیا ان کو آزادی سے جینے کا حق نہیں؟
کیا آپ ان سب سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں؟نہیں بالکل نہیں ۔۔۔
خدارا اس بات کو سمجھیں کہ اللہ کی بنائی ہوئی ہر چیز اعلیٰ ہے ہر چیز عزت کی حقدار ہے۔
کیا کبھی یہ سوچا ہے کہ ان مسکراتے ہوئے چہروں کے پیچھے کتنے غم چھپے ہیں وہ مسکراتا چہرہ جو اپنے منہ پر منہ کھوٹا سجائے سارہ دن سب کو ہنساتا ہے خود اندر سے کس قدر بے زارو قطار روتا ہے تنہائی میں نہیں ہمیں یہ سب کچھ نہیں معلوم ہمیں بس اتنا معلوم ہے وہ خواجہ سرا ہے جن کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔
خواجہ سراؤں کے پیدا ہونے پر پہلے گھر والے ان کو گھر سے بے دخل کر کے تعلق ختم کر دیتے ہیں بعد میں معاشرے میں موجود درندے انہیں ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔اگر کوئی عام انسان قتل ہوجائے تو ہر طریقے سے مکمل کاروائی کی جاتی ہے لیکن اگر اسی جگہ کوئی خواجہ سرا کا قتل ہوجائے تو کوئی قدم نہیں اٹھائے گا کیوں؟؟کیونکہ ان کا گناہ یہ ہے کہ وہ ہم جیسے نہیں؟؟
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا ضمیر مر چکا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ہر کسی کو ہر حق حاصل ہے انسانیت کے حوالے سے لیکن ٹرانس جینڈرز کو کوئی حق حاصل نہیں جو کہ سراسر غلط ہے اگر وہ اپنا پیٹ پالنے کے لیے کچھ کریں تو لوگوں کے رویے ان کو اس قدر گھاؤ پہنچاتے ہیں کہ ان کو اپنا وجود ہی کھٹکنے لگتا ہے۔کبھی سوچا ہے کہ اگر آپ کے اس رویے سے وہ اللہ کے سامنے رو پڑے تو کیا ہوگا کیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔
ویسے ہمارے معاشرے میں ہر چیز کو اہمیت حاصل ہوتی ہے لیکن خواجہ سراؤں کو جہاں بھی دیکھ لیا جائے تو انہیں غلط ناموں سے پکارا جاتا ہے ان کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے جو کہ سراسر غلط ہے وہ ایسے ہیں اس میں ان کا قصور نہیں انہیں خدا کی پاک زات نے بنایا ہے جن کا مزاق اڑانے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے جس دن ہم اس بات کو سمجھ جائینگے اس دن انسانیت جنم لے لے گی۔ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ یہ اپنی زندگی کس طرح جیتے ہیں جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو لوگوں کے رویے کس قدر ان کو ٹھیس پہنچاتے ہیں لیکن یہ پھر بھی ایک مسکان اپنے چہرے پر رکھتے ہیں اور اپنا غم ظاہر نہیں کرتے جو کہ ان کے مہان ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔
خواجہ سراؤں کو ہم اس بات کی سزا دیتے ہیں اس گناہ کے لیے ذلیل کرتے ہیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں جو کہ ایک قدرتی عمل ہے۔

حقوق کا تحفظ:
ہمارے معاشرے میں جہاں مرد عورت لڑکا لڑکی سب کو عزت سے کام کرنے کا حق ہے وہاں خواجہ سراؤں کے لیے بھی آسامیاں بنائی جائیں اور ان کو پوری عزت و آبرو کے ساتھ کام کرنے دیا جائے تاکہ وہ اپنے ہونے پر شرمندہ نہ ہوں۔

خواجہ سرا برادری آج کل ایک نازک دور سے گزر رہی ہے, پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے 2018ء میں ایک قانون بنایا گیا, جس میں خواجہ سراؤں کو پاکستان کی مکمل شہریت دی گئی, لیکن کچھ شر پسند عناصر نے اس قانون کو چیلینج کر دیا ہے اور خواجہ سراؤں کے تشخص کو مسخ کرنے کی کوشش زوروشور سے کی جارہی ہے لیکن انشاءاللہ حق جیتے گا اور باطل کو منھ کی کھانی پڑے گی۔
پاکستان کے ایک اہم ادارے نے اس قانون کے حق میں فیصلہ دیا ہے جو کہ بہت خوش آئند ہے, اور ہماری ہونے والی جیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
میرا پیغام ہے کہ تمام ادارے اپنے اپنے فورم سے خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے بیانیہ جاری کریں تاکہ خواجہ سرا برادری اپنے بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ آپ کے شانہ بشانہ زندگی میں آگے بڑھ سکے ہیجڑا کلچر سے جڑے ہوئے خواجہ سراؤں کا مغالطہ ہے کہ جو اس کلچر سے جڑے ہوئے نہیں ہیں انہیں چاہیے کہ وہ خود کو اعلانیہ خواجہ سراء نہ کہیں اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ انفرادی طور پہ آپ کسی کے ممتاز تشخص کو مسخ کرنے جا رہے ہیں اس میں کوئ شک نہیں کہ کلچر خواجہ سراؤں کو تحفظ فراہم کرتا ہے, اور سوشل سپورٹ بھی ملتی ہے۔
رشتوں کے ٹھکرائے ہوے یہ تیسری دنیا کے لوگ اپنوں میں خود کو شامل کر کے رشتوں سے مالا مال ہو جاتے ہیں, لیکن اس کا مطلب قطعی یہ نہیں کہ اگر کوئ خواجہ سرا کلچر سے جڑے بغیر اپنے الگ انفرادی تشخص کے ساتھ اپنی زندگی میں مطمئن ہے تو اس کو اس کی مکمل اجازت ہونی چاہیے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خواجہ سراؤں کا کلچر نہ صرف اپنا دامن اتنا وسیع رکھتا ہے کہ کوئی بھی خواجہ سرا کسی بھی تفریق کے بغیر کلچر میں آسکتا ہے بلکہ اسے گرم جوشی سے خوش آمدید کہتا ہے, بلکہ کلچر اس بات کی بھی مکمل آزادی دیتا ہے کہ اگر کوئی خواجہ سرا اپنے الگ تشخص کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔

اک روز کی بات ہے میں اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی کہ میری گاڑی راستے میں آئے ایک اسٹاپ پر رُکی۔ آنکھوں نے کچھ عجیب و غریب منظر دیکھا۔ اور وہ منظر کچھ یوں تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو کچھ لوگوں سے بدتمیزی کرتے دیکھا۔ بدتمیزی اپنی جگہ شدت اختیار کر چکی تھی بچے تالیاں بجھا کر کھبی مذاق اُڑا رہے تو کبھی پتھر مارنے میں لگے تھے۔ وہ کچھ لوگ جو ان سب چیزوں کا سامنا کر رہے تھے وہ کوئی اور نہیں بلکہ اسی معاشرے کا حصہ تھے جنہیں لوگ خواجہ سرا کے نام سے جانتے ہیں اور اُس وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ آخر کوئی کیسے اپنی اولاد کو اس طرح تنہا چھوڑ سکتا ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اُس سے سیدھے منہ بات نہ کرے۔

سب سے پہلے اپنے گھر کی دہلیز سے شروعات کرتے ہیں کہ اگر کسی خاندان میں کسی خؤاجہ سرا کی پیدائش ہو جاتی ہے تو ہم اُس کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ ماں، باپ ہوں یا بہن بھائی یا محلے میں رہنے والے لوگ سب کے لیے وہ ایک مذاق بن جاتا ہے۔ جب کہ اولاد تو اولاد ہوتی ہے چاہے وہ خواجہ سرا ہو یا نارمل بچہ یا پھر ایک ایبنارمل۔ قبول کریں یا نہ کریں وہ ایک الگ بات ہے لیکن اگر کسی خاندان میں معذور بچہ پیدا ہو جائے تو ہم اسے قبول کر لیتے ہیں جنہیں دیکھ کر والدین کو تکلیف کے سوا کچھ نہیں ملتا جو ہر طرح سے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں ہم اس حالت میں بھی انہیں قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ ہماری اولاد ہوتی ہے ہمیں ہر حال میں پیاری ہوتی ہے۔ لیکن خواجہ سر ا کو ہم کیوں نہیں قبول کرتے جبکہ اگر ہم اُس کی پرورش کریں اچھے سے، اُس کو ہر موقع پر پروموٹ کریں تو شاید کل کو وہ آپ کا ہی نام روشن کرنے کا سبب بن جائے، لیکن ہم کیوں نہیں ایسا کرتے؟ ہم کیوں اُس کے پیدا ہوتے ہی اُسے خواجہ سراؤں کی بستی میں چھوڑ آتے ہیں؟

جبکہ پیدا کرنے والی تو وہ ایک ہی پاک ذات ہے نہ۔ تو پھر ہم کیوں اُن کے ساتھ ہی ایسا سلوک کرتے ہیں۔ والدین قبول کر کے تو دیکھیں معاشرہ خود بخود قبول کرے گا۔ ان کی اچھے طریقے سے تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے نہ کہ معاشرے کی۔ معاشرہ صرف ٹھوکروں پر رکھتا ہے تو پھر ہم کیسے یہ توقع کر لیں کہ معاشرہ ان کی قدر کرے یا انہیں حقوق دلانے کی بات کرے۔ خواجہ سرا کوئی خلائی مخلوق نہیں بلکہ اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔ آئے روز اخبارات اور ٹی وی میں یہ خبر آرہی ہوتی ہے کہ فلاں خواجہ سرا کو کسی نے اغوا کر لیا یا پھر قتل کر دیا۔ خبر دینا تو بہت آسان ہے لیکن کھبی ہم نے ان کے بارے میں سوچا۔ کبھی ہم نے ان کے لیے آواز اُٹھائی؟ بیچارے خواجہ سرا ہی ایک دوسرے کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں۔ وہ بھی انصاف کے لیے کبھی ایک جگہ دھکے کھاتے پھرتے ہیں تو کبھی دوسری طرف۔ بہرحال چھوڑیں یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے اپنے جگر کے ٹکروں کو کھلونا بنا کر معاشرے کو دیا ہے۔ اب آپ اُمید کر سکتے ہیں کیا جن کو آپ کھلونا سمجھ کر دیتے ہیں معاشرہ اُس کھلونے کی قدر کرے گا یا اُس سے کھیلے گا۔

کیا ہی چلا جائے گا کہ اگر ہم ان اولادوں کو بھی قبول کر لیں جن کو پال پوس کر بڑا کریں اچھی تربیت کریں دنیا کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دیں ،ایسی اولادوں کی وجہ سے ہی دنیا میں بھی سکون ہوگا اور آخرت میں بھی۔ یقینا بوجھ اُٹھانے کا حقدار وہی ہوتا ہے جس کا بوجھ ہو۔ وہ بھی انسان ہوتے ہیں،انہیں بھی تکلیف ہوتی ہے، درد ہوتا ہے، اور غم کے بادل بھی کبھی کبھار برستے ہیں، وہ تنہائی میں بیٹھ کر یہ بھی سوچتے ہیں کہ دوسروں کی طرح ہمارے والدین کیوں نہیں ہیں۔ ہمیں کیوں اس طرح دنیا میں جہنم بننے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ اس میں ہمارا کیا قصور ہے،کیونکہ اُن کے اپنے اختیار میں قطعا نہیں ہے کہ وہ پیدا ہو یا نہ ہو۔ قدرت کے ان فیصلوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے بلکہ ہمارا فرض ہے ایسے بچوں جنہیں معاشرہ خواجہ سرا کے نام سے جانتا ہے کسی فیملی میں اگر ان کی پیدائش ہو جاتی ہے تو انہیں بھی ایک نارمل بچے کی طرح قبول کیا جائے۔ شاید ہمارے اسی اقدام کی وجہ سے معاشرے میں بھی تبدیلی کی ایک نئی کرن نظر آئے۔ انشااللہ یہی اولاد آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنے گی۔

خواجہ سرا سے جڑی کہانیاں اور ان کے ساتھ کیا جانے والا سلوک سالوں سے زیر بحث ہے لیکن اس میں آج بھی معاشرتی تبدیلیاں نہیں آسکیں۔۔۔لیکن خواجہ سراؤں نے خود اپنے حقوق کے لئے جب آواز اٹھائی اور تعلیم کے ساتھ اپنا تعلق جوڑا تو ان کے لئے کئی راستے کھل گئے۔۔۔پاکستان کی پہلی ڈاکٹر خواجہ سرا ہیں سارہ گل جنہوں نے بہت مشکل حالات دیکھے لیکن ان کے ساتھ بس یہ ایک اچھی بات تھی کہ ان کے گھر والوں نے ان کی تعلیم پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔۔۔وہ فورسز کے اداروں سے پڑھیں اور ان کی انگریزی اور اردو دونوں ہی بہت اچھی رہی۔۔۔ایسا بہت بار وقت آیا جب سارہ کو اکیلا رہنا پڑا اور اپنے لئے جنگ لڑنی پڑی۔۔ان کا کہنا تھا کہ عام لوگوں کو اگر بیس ہزار کرائے پر گھر ملتا ہے تو خواجہ سرا کو تیس ہزار پر ملتا ہے۔۔۔ہمارا علاج، ہماری خواہشات۔۔۔سب ایک سوال ہیں۔۔۔سارہ گل نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی ڈاکٹر بنیں گی جو خواجہ سراؤں کے علاج کے حوالے سے مہارت حاصل کریں گی کیونکہ پاکستان میں ایسے لوگ ہیں ہی نہیں جو خواجہ سراؤں کو صحیح معنوں میں انسانیت کے درجے میں شامل کریں۔

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *