کتاب انسانی اور گہرائی
کتابوں کی گہرائی کا کبھی مطالعہ کیا ؟ وہ گہرائی اسے کس نے دی ایک انسان نے ، اور انسان کو وہ گہرائی کس نے دی اس کے رب عظیم نے ، تو پھر سوچیں وہ رب کتنا گہرا ہوگا جس کے کلام کی گہرائی کبھی ختم نہ ہو ، جس نے سمندر کو گہرائی دی ، جس نےزمین کو گہرائی دی اور جس نے ایک مٹی کے پتلے کو سمندر جتنی گہرائی دے دی۔ اسکی صفات عظیم میں سے ایک صفات گہرائی ھے ، جو اس نے اپنے کئی خاص بندوں کو عطا کی ۔ میرا موضوع یہاں کتاب انسانی کا ھے چونکہ کتاب گہرائی پر مشتمل ہوتی ھے تو گہرائی کے موضوع کو یہاں ساتھ رکھیں گے ۔ انسان گہرا ہوتا ھے بہت گہرا یہ چیز اسکی فطرت میں شامل ھے مگر کچھ لوگ اپنی فطرت کوکھو دیتے ہیں اور کچھ اسے پا لیتے ہیں ۔ فطرت کو پانے والا انسان عام نہیں ہوتا یہ بہت خاص ہوتا ھے ، اور یہ خاصیت اسے اسکا مالک عطا کرتا ھے ۔ تو بات کرتے ہیں کہ انسان فطرت کو کیسے پاتا ھے ؟ انسانی کتاب کا آغاز کہاں سے ہوتا ھے ؟ یہ چیز فطرت میں شامل ھے کہ جھوٹ بولنا بری بات ھے ، یہ چیز فطرت میں شامل ھے کہ نا حق کھانا غلط ھے ۔ انسان اس کو یا تو کھو دیتا ھے( اور جانے انجانے میں تمام ناجائز حرکات کرتا رہتا ھے ، یہ بات یاد رکھیں ایک غلط کام ہماری فطرت کو زنگ لگانے میں بلکل دیر نہیں کرتا اور یہی دوسرے غلط کام کا سبب بن جاتا ھے فطرت کا خراب ہوجانا ہی ایک کے بعد ایک گناہ کرواتا ھے ) جبکہ دوسری طرف یا تو اسکو پا لیتا ھے ۔ فطرت کا پالینا ایک بہت بڑی خوشقسمتی ھے ۔ انسان تب فطرت کو پاتا ھے جب وہ غور و فکر کی عادت ڈالتا ھے ، کہ جب وہ عظیم لوگوں اور ہستیوں کی طرز زندگی کو مشاہدہ یا پھر اسکو مطالعہ کرتا ھے ۔ انسان گہرائی تب پاتا ھے جب وہ ایک اچھی فطرت کا مالک بن جاتا ھے کہ جب وہ عظیم لوگوں کی زندگی سے سبق سیکھ کر اسکو اپنی زندگی میں شامل کرتا ھے ۔ پھر دوسرا درجہ سوچنے کا آتا ھے ، جب وہ غوروفکر کے تحت سوچ بچار کرتا رہتا ھے ، جب وہ آس پاس کے لوگوں کو دیکھتا ھے کہ یہ کیا کر رہے ہیں ؟ کن وجوہات کی بنا پر کر رہے ہیں ؟ وہ کیا سوچتے ہیں وغیرہ اور پھر تیسرا درجہ شروع ہوتا ھے گہرائی کا کہ جب وہ سب سے الگ ہوجاتا ھے ، یا اسے سب سے الگ کردیا جاتا ھے ، جب لوگ اس اچھی فطرت کے مالک کو سننا نہیں چاہتے ، یا اسے سمجھنا نہیں چاہتے ، یا یوں کہہ لیجئے وہ جو پانا چاہتا ھے وہی اسےکھونا پڑتا ھے ، وہ جہاں کہنا چاہتا ھے وہاں اسے خاموش ہونا پڑتا ھے ، اور پھر یہیں سے آغاز ہوتا ایک کتاب انسانی کا ۔ جس کا ہر روز ایک نئےورق سے آغاز ہوتا ھے یا جسکا روز ایک نئے ورق پر اختتام ہوتا ھے ۔ یہ کتاب انسانی تب مزید گہری تر گہری ہوتی چلی جاتی ھےجب کوئی کھولے بغیر ہی اسے واپس رکھ دے یا پھر ایسے کہہ لیں کہ جب وہ تو کسی کو اپنا ورق کھول کر دکھانا چاہے مگر کوئی اسے دیکھنا نہ چاہے ۔ کہتے ہیں ہمیشہ پتھر اسی درخت کو مارے جاتے ہیں جس پر پھل ہوں ۔ کتاب کا موضوع پڑھے بغیر ہی اسے جج کرلینا کتاب انسانی کیلیے ایک پتھر لگنے کے کہ مترادف ہی ھے اور یہی اسکے پھل دار ہونے کا ثبوت بھی دیتی ھے ۔ یا کہتے ہیں ستارے ہمیشہ اندھیرے میں چمکتے ہیں ، لوگ ورق کو الٹا الٹا کر کتاب کو اچھال دیتے ہیں لوگ کیا جانے ایک کتاب انسانی کی قدروقیمت ۔ کتاب انسانی کا آغاز اندھیرے سے ہوتا ھے اندھیرا اس کتاب کو گہرائی دیتا ھے یہ گہرائی اسکو ایک روشنی کا مالک بنا دیتی ھے ۔ کوئی کیا جانے اس روشنی کی قدر و قیمت ۔ یہ کتاب انسانی تو اتنی گہری ھے کہ اسکی گہرائی کو سمندر سے تشبیح دی جائے تو بھی کم پڑ جائے ، شاید اسی لیے لوگ اس میں غوطہ زن ہونے سےخوف محسوس کرتے ہیں یا پھراس سے دور بھاگ جاتے ہیں ، ہماری استادزہ کا کہنا ھے ؛ انسان جتنا گہرا ہو اتنا ہی اچھا لگتا ھے ۔ گہرا انسان خاص ہوتا ھے بہت خاص ۔ اور کتاب انسانی کی خاصیت ہی اسکی گہرائی ھے ، اور اس گہرائی میں غوطہ زن بھی ایک گہرائی ہی ہو سکتی ھے اس کے علاوہ کوئی بھی اسے جان نہیں سکتا ۔
Aqsa falak
.
*************