پاکستان کا مستقبل یا ہمارا۔
سدرہ اختر راجپوت
ابوالکلام آزاد کے کچھ الفاظ تھے۔۔۔۔۔۔”ایک وقت آئے گا جب پاکستان کا نوجوان پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہو کر پاکستان کے وجود پر سوال اٹھائے گا”
اور آج ان کے یہ الفاظ انکی امید پر پورے اترتے نظر آتے ہیں ہم نوجوان پاکستان میں رہ کر آج پاکستان کو اسی نظریے سے دیکھ رہے ہیں۔ہمارے حکمران پاکستان کے مستقبل کو چھوڑ کر خود کے مستقبل کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔
کچھ لوگوں کو یہ بات چبھے گی لیکن حقیقت کو کوئی نہیں بدل سکتا ہمارا پیارا پاکستان جس کا مطلب ہی ایک کلمے سے جوڑا گیا ہے اس پاک پاکستان میں غداری عروج پر ہو چکی ہے۔
تعلیم،محنت کو کوئی اہمیت ہی نہیں جہاں پیسا وہاں کام ورنہ محنت کے باوجود بندہ ناکام۔۔۔۔ہر جگہ بس سفارش موجود ہے غریب کیسے آگے بڑھے گا؟؟ نہ اس کے پاس پیسہ ہوتا ہے نہ اس کی اتنی پہنچ۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں سال بھر میں کتنے نوجوان ناکام ہو کر اپنی جان کا نظرانہ پیش کردیتے ہیں کیا ایسا تھا میرا پاکستان؟کیا اس لیے قائد اعظم نے ہمیں آزاد کروایا تھا کہ ہم آزاد ہو کر بھی غلام رہیں؟
خیر ابوالکلام آزاد کے الفاظ میں بات پاکستان کے مستقبل کی ہورہی ہے لیکن پاکستان کا مستقبل کس کے ہاتھوں میں ہے؟ہم نوجوانوں کے ہاتھ میں لیکن جب ہمارا ہی مستقبل ہم سے چھینا جا رہا ہے تو ہم کیسے پاکستان کا مستقبل بنا سکتے ہیں؟
پاکستان تو محض ہمارے حکمرانوں کے لیے ایک نام رہ گیا ہے۔
اس بارے میں ضرور سوچیے گا کہ آخر ہم کیا کریں۔۔۔؟
.
*************