قرضِ محبت
رائٹر: لعبیٰ انیس
Louba Anees
وہ نم آنکھوں سمیت اپنے سامنے موجود جنازے کو دیکھ رہا تھا۔ بار بار اپنی آنکھیں انگلی کے پوروں سے صاف کرتا، وہ شدید پچھتاوے کی گرفت میں تھا۔ آج اسے شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے اپنی زندگی کے سب سے قیمتی رشتے کی کتنی بے قدری کی تھی۔ کاش، وقت پلٹ سکتا اور وہ اپنی ماں کے ساتھ اپنے رویے کو بدل سکتا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، اس کا خوف بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ گھڑی کی سوئیاں تھم جائیں، لیکن یہ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ وقت کبھی کسی کے لئے نہیں رکتا۔
اس کے چہرے پر خوف و ہراس چھایا ہوا تھا۔ یہ لمحے اس کے لئے بے حد قیمتی تھے، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ آج کے بعد وہ اپنی ماں کے شفقت بھرے چہرے کو کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔ دل خون کے آنسو رو رہا تھا، مگر اب پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہ رہا تھا۔ آخرکار وہ گھڑی آ پہنچی تھی جس کا اسے ڈر تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنی ماں کو قبر میں اتارا اور مٹی ڈالتے ہوئے بار بار اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرتا رہا۔ آہستہ آہستہ قبرستان خالی ہو گیا، مگر وہ اب بھی اپنی ماں کی قبر کے پاس بیٹھا بے آواز رو رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی ماں کی وفات کو دو ہفتے گزر چکے تھے۔
سب رشتے دار بھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے، اور گھر میں صرف وہ تھا اور اس کی ساتھی تنہائی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ گھر کی دیواریں اور چھتیں گویا اسے کاٹنے کو دوڑ رہی ہیں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اس کی ماں ابھی کسی کونے سے آواز دے کر اسے بلائے گی، لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ ناممکن ہے۔ یہ وقت کی ستم ظریفی تھی کہ جو آواز کبھی اس کے لئے کوفت کا باعث بنتی تھی، آج وہی آواز سننے کو وہ بے چین تھا۔
اس کے دل میں بار بار ایک معصوم سی خواہش ابھری۔۔۔۔۔کہ کاش کہیں ، کسی کونے سے اس کی ماں اسے پکارے اور وہ بنا ایک لمحہ بھی ضائع کیے آواز کے تعاقب میں ڈورا چلا جائے۔
اس کا ذہن ماضی کی گلیوں میں بھٹکنے لگا۔ وہ وقت یاد آیا جب اس کے والد ایک حادثے میں وفات پا گئے تھے اور ماں نے اکیلے ہی زندگی کی ساری مشکلات کا سامنا کیا۔ اس اب بھی یاد تھا کہ اس کی ماں گھر گھر جا کر سلائی کے لیے کپڑے جمع کرتی تھی، تاکہ ان کے گھر کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ اگر کبھی کھانے کو کچھ نہ ہوتا، تو وہ اپنی بھوک کی پروا کیے بغیر اپنی روٹی بھی اسے کھلا دیتیں اور کہتیں:
“بیٹا، تم کھا لو۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔”
جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا، اس کی ضروریات بھی بڑھتی گئیں، اور اس کی ماں نے مزید محنت کرنا شروع کر دی۔ وہ دن بھر ایک فیکٹری میں کام کرتیں اور رات کو گھر آ کر سلائی کرتیں۔ ایک رات بارش ہو رہی تھی اور سردی شدید تھی۔ اس نے اپنی ماں کو رات دیر تک جاگتے سلائی کرتے دیکھا تو ان کے نزدیک چلا آیا اور کہنے لگا:
“ماں، اب بس کریں۔ باقی سلائی صبح کر لیجیے گا، بہت سردی ہے۔”
لیکن ماں مسکراتے ہوئے بولیں:
“بیٹا! میں بالکل نہیں تھکی۔ آپ جاؤ، سو جاؤ۔ صبح اسکول بھی جانا ہے ۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اپنی ماں کی ان قربانیوں کی کبھی قدر نہ کی۔ ماں نے ہر قدم پر اس کی خوشیوں کو اپنی خوشیوں پر فوقیت دی، مگر اس نے ہمیشہ اپنی مرضی کو مقدم رکھا۔ جب وہ جوان ہوا اور اچھی نوکری مل گئی، تو اپنی ماں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ ماں بیمار تھیں، مگر انہوں نے کبھی شکایت نہیں کی۔ وہ کینسر جیسی بیماری سے لڑ رہی تھیں، مگر اسے ان کی تکلیف کا اندازہ تک نہ ہوا۔
اسے وہ لمحہ یاد آیا جب اس کی ماں ہسپتال کے بستر پر لیٹی تھیں۔ وہ انہیں دیکھ کر رو دیا، تو ماں نے مسکراتے ہوئے کہا:
“مت رو بیٹا! میں ٹھیک ہوں۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو رہی۔”
یہ الفاظ سن کر اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اسے جھنجھوڑ دیا ہو۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ماں نے ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کر لی تھیں اور وہ ہمیشہ کے لئے اپنی محبتوں اور قربانیوں کا حساب اس کے سپرد کر گئیں۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
“جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور جنت حاصل نہ کی، وہ تباہ و برباد ہو گیا۔”
ایک صحابی نے دریافت کیا:
“یا رسول اللہ ﷺ، میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
“تیری ماں۔”
صحابی نے دوبارہ پوچھا:
“اس کے بعد؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
“تیری ماں۔”
انہوں نے تیسری بار سوال کیا:
“پھر کون؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
“تیری ماں۔”
چوتھی بار جواب دیا:
“تیرا باپ۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں کی عظمت بے مثال ہے۔ وہ لوگ جو اپنی ماں کے ساتھ ہیں، انہیں چاہیے کہ اس عظیم ہستی کی قدر کریں۔ وقت ہاتھ سے نکل جائے، تو صرف پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔ ماں کی محبت جیسا رشتہ دوبارہ کبھی نصیب نہیں ہوتا۔ دنیا کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ انسان ماں کی محبت اور قربانیوں کی قدر وقت پر نہ کرے۔
ماں سراپا محبت ہے۔ جو لوگ اپنی ماں کے ساتھ ہیں، انہیں اس نعمت کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ یہ نعمت ان سے چھین لی جائے، ان کے ہر لمحے کو قیمتی بنائیں، ان کا احترام کریں، اور ان سے محبت کریں۔ کیونکہ جب ماں چلی جاتی ہے، تو پیچھے صرف تنہائی، اذیت اور پچھتاوا رہ جاتا ہے۔
کاش، ہم سب وقت پر اپنی ماں کی محبت کو سمجھ سکیں۔۔۔۔۔!
********************
ختم شد