صنف: افسانہ نگاری
عنوان:
سراب راہیں
از حفضہ کنول
زندگی بہت بے رحم ہے۔ یہ کبھی بھی ملنے والوں کو ساتھ نہیں رکھتی۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں تمہیں اپنے بارے میں سب کچھ بتاؤں، لیکن تم ہو کہ مجھے سنتے ہی نہیں۔ سننا تو دور، تم تو مجھے دیکھتے بھی نہیں۔ میں بھول جاتی ہوں کہ تمہیں کیا کہنا تھا، کیوں کہنا تھا؟
دیکھو نا، ہر ایک کی محبت کی کوئی نہ کوئی منزل ہوتی ہے۔ آہ! لیکن میری محبت؟ میری محبت کی منزل؟ یہ دونوں تو بس ایک سوالیہ نشان ہی ہیں، جیسے میری ذات ایک سوالیہ نشان ہے۔
کہتے ہیں کہ محبت آنکھوں کے ذریعے دل میں اترنے کا ہنر رکھتی ہے، لیکن تم نے تو کبھی میری آنکھیں دیکھی ہی نہیں۔ تمہیں کیسے پتہ چلے گا میری محبت کا؟ اس میں تمہارا بھی کوئی قصور نہیں ہے، کیونکہ تمہارے دل میں بھی کوئی اور بستا ہے۔
لیکن اگر میرے یہی احساسات تمہارے علاوہ میرے رب العالمین، میرے خالق و مالک، میرے پروردگار کے لیے ہوتے تو وہ میرے احساسات کی قدر ضرور کرتے۔ آہ! میں نے ایک ایسے انسان سے دل لگایا جو میرے لیے ایک پہیلی کی طرح ہے۔ نہ وہ مجھے سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی میں اسے کچھ کہہ سکتی ہوں۔
لیکن اب میں خود کو بدل رہی ہوں، صرف اور صرف اپنے پروردگار کے لیے۔ اور مجھے پتہ ہے کہ وہ مجھے اس کے بدلے بہترین سے نوازے گا۔
وہ خیالوں میں ہی ایک ایسے انسان سے محوِ گفتگو تھی، جو اس کا کبھی تھا ہی نہیں۔ سرد، ٹھٹھرتی اندھیری رات میں، جہاں ہر کوئی اپنے نرم گرم بستر میں دبکا ہوا خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا، وہیں ایک فرد ایسا بھی تھا جس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ اگر اس کے ارد گرد نظر دوڑائی جائے، تو اسے سخت سردی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ وہ اس وقت ایک باغ میں بیٹھی تھی، جو ایک بار دیکھنے والے کو خوف میں مبتلا کر دیتا، لیکن وہ اس سب سے بے نیاز اپنے ماضی میں غرق تھی۔اگر کوئی اسے اس سرد رات میں اس قدر بے نیازی سے بیٹھے دیکھتا تو اُسے اِس لڑکی کے پاگل ہونے کا گمان ہوتا کیونکہ ایک انسان جو سمجھ بوجھ رکھتا ہو، وہ کبھی بھی ایسی جگہ کا انتخاب نہیں کرے گا۔ لیکن اسے تو اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ اپنے احساسات کو ہمیشہ کے لیے مار چکی تھی، اب ان احساسات کی قدر کرنا اس کے نزدیک بے مول سی بات تھی۔
جہاں کچھ لوگوں کے لیے ان کا ماضی بہت ہی دلکش اور خوبصورت ہوتا ہے، وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ان کا ماضی سکون نہیں لینے دیتا۔ ہر گزرتے پل کے ساتھ ان کی اذیت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور وہ بھی ان میں سے ہی ایک تھی۔
اس کی زندگی کی کتاب کا ایک ایک ورق درد و غم سے بھرا ہوا تھا۔ محبت کے خواب تو سبھی دیکھتے ہیں، لیکن جب وہ خواب سراب ثابت ہوں، تو خواب دیکھنے والی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بے نور ہو جاتی ہیں۔ اس نے بھی اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کی تھی، لیکن حقیقت کی دنیا میں خواب اکثر کرچیاں بن کر دل کو زخمی کر دیتے ہیں۔
اس کی محبت ایک ایسے شخص کے لیے تھی جو کبھی اس کا تھا ہی نہیں۔ وہ ایک خاموش سامع کی طرح اس کی ہر بات سنتا، لیکن کبھی اپنی بات نہ کہتا۔ وہ شخص اس کی زندگی میں اس طرح شامل تھا، جیسے چاندنی رات کے آسمان میں کوئی ستارہ جو دور سے چمکتا ہوا نظر آئے، لیکن قریب جانے پر معلوم ہو کہ وہ تو برسوں پہلے بجھ چکا تھا۔
اس کے خواب، اس کے جذبات، اور اس کی تمام تر محبت کا محور وہی تھا۔ لیکن وہ محور ایک دھوکہ تھا، ایک سراب تھا، جو اس کی زندگی میں صرف خلا چھوڑ گیا تھا۔ وہ اکثر سوچتی کہ اگر اس شخص کو کبھی اس کی محبت کا احساس ہو جاتا، تو کیا ان کی کہانی کچھ اور ہوتی؟ لیکن ان سوالات کے جواب وقت کے دھندلکے میں کھو گئے۔
اب وہ اس سراب کو چھوڑ کر اپنی حقیقت کو قبول کر چکی تھی۔ اس نے اپنی منزل بدل لی تھی۔ اب اس کی محبت کا محور کوئی انسان نہیں تھا۔ وہ جان چکی تھی کہ اصل سکون صرف اس کے رب کی محبت میں ہے۔ وہ باغ، جہاں وہ سرد راتوں میں بیٹھی اپنے ماضی کے زخموں کو سہلاتی تھی، اب اس کے لیے عبادت کی جگہ بن چکا تھا۔
رات کی تاریکی میں، جب سب کچھ ساکت ہوتا، تو وہ اپنے دل کے زخموں کو اپنے رب کے سامنے رکھ دیتی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا خالق اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ وہ ایک نئی روشنی، ایک نئی امید کے ساتھ اپنی زندگی کی کتاب کا نیا باب لکھنے جا رہی تھی۔
اب اس کا ہر عمل اس کے رب کی رضا کے لیے تھا۔ اس نے اپنے خوابوں کی کرچیاں جمع کر کے انہیں اپنے رب کی محبت کے گلدان میں سجا دیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ زندگی کی راہیں ہمیشہ آسان نہیں ہوتیں، لیکن جو لوگ اپنے رب کی محبت کو اپنا محور بنا لیتے ہیں، ان کے لیے کوئی بھی راستہ سراب نہیں رہتا۔
رات کی تاریکی میں، اس کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو، عبادت کا رنگ اختیار کر چکے تھے۔ وہ جان گئی تھی کہ اصل محبت وہی ہے جو انسان کو سکون دے، نہ کہ اذیت۔ اب وہ اپنی زندگی کی کہانی کو ایک نئے زاویے سے لکھ رہی تھی، جہاں محبت کا محور صرف اس کا خالق تھا۔
زندگی کے ان تلخ تجربات نے اسے مضبوط بنا دیا تھا۔ وہ جان چکی تھی کہ دنیا کی محبتیں عارضی ہیں، اور ان کے پیچھے بھاگنا وقت کا ضیاع ہے۔ اس نے اپنے رب کی محبت کو اپنا مقصد بنا لیا تھا، اور یہی محبت اسے ایک دن کامیابی کی بلندیوں تک لے جانے والی تھی۔
“زندگی کی سراب راہیں، حقیقت کے چراغ سے روشن ہو سکتی ہیں، اگر انسان اپنی منزل کو پہچان لے۔”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭