تعلیم یافتہ ماں بہتر کیوں؟
قلم نگار :انورسلطانہ
تعلیم ایک ایسا زیور ہے جو جس کسی کو ملتا ہے وہ دولت مند ہوجاتا ہے اور مزے کی بات تو یہ ہے دولت بھی ایسی جس کو خرچ کرنے سے اس میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے ،ا ٓج کے دور میں تعلیم مرد اور عورت دونوں کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ تعلیم سے انسان میں شعور، سمجھ اور اچھے برُے کی تمیز پیدا ہوتی ہے جبکہ جہالت ایک ایسی بُرائی ہے جو گھروں کو تباہ اور برباد کر دیتی ہے کیونکہ گھر کا نظام عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے اسی لیے ایک پڑھی لکھی عورت تو ایک کنبے کو سنبھال سکتی ہے مگر ایک ان پڑھ عورت یہ کام نہیں کر سکتی ۔
خاندان ایک اکائی کی حیثیت رکھتا ہے ،خاندان کا نظام یا مشینری چلانے کے سلسلے میں ماں کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے، ماں کی گود بچہ کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے بچہ جب شکم مادر میں ہوتا ہے تو اس دوران خون کے ذریعے ماں کی ذہنی صلاحیتیں اور بہت سی عادات بچہ میں منتقل ہو جاتی ہیں ، ماں کی گود سے بچہ ابتدائی تعلیم حاصل کرتا ہے، ایک پڑھی لکھی ماں اپنے گھر میں جتنی بلند سطح پر مثبت ماحول پیدا کرے گی، بچے اس ماحول کے اثرات کو اسی قدر شدت اور موثر طریقے سے قبول کریں گے اور ان میں ذہنی اور فکری صلاحیتیں پیدا ہوگی۔یہ ہی حقیقت ہے کہ بچہ اپنے گھر کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ وہ گھر میں ماں باپ اور بہن بھائیوں کی سرگرمیوں اور مصروفیات کو دیکھتا اور ان کا مشاہدہ کرتا ہے۔ انہیں جو کچھ کرتے ہوئے دیکھتا ہے خود بھی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ۔
سورۃ الزمر میں ارشاد ہے’’کہہ دو کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں، سمجھتے وہی ہیں جو عقل والے ہیں‘‘
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں تعلیم اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم پر بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک تو شرحِ خواندگی ویسے ہی کم ہے اور اس میں بھی خواندہ خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلے میں مزید کم تر ہے۔ غیر تعلیم یافتہ لوگوں سے ہٹ کر اکثر پڑھے لکھے گھروں میں بھی یہ تاثر عام ہے کہ چونکہ لڑکی نے پرائے گھر چلے جانا ہے، جہاں جاکر اُس نے ’گھر سنبھالنا ہے‘، لہذا اُسے صرف امور خانہ داری میں ہی ماہر ہونا چاہیئے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی ہے کہ لڑکے نے کل کو خاندان کی معاشی ضروریات کا بوجھ اُٹھانا ہے، اِس لئے پیسہ لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کی تعلیم پر خرچ کرنا ہی عقلمندی ہے۔
ایسے گھرانوں میں لڑکی کا جہیز قرض لیکر بھی بنالیا جاتا ہے لیکن اُس کی مناسب تعلیم و تربیت کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں کیا جاتا مگر اِن دونوں مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ لڑکی نے اپنی آئندہ آنیوالی زندگی میں ایک نسل کی تربیت کرنی ہے۔ اگر وہ خود ہی تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہوگی تو نسلیں کیسے سنور پائیں گیں؟
کہا جاتا ہے کہ ’’تعلیم یافتہ عورت کی وجہ سے ایک خاندان تعلیم یافتہ ہوجاتا ہے‘‘
اگر دیکھا جائے تو کسی حد تک لڑکیاں خود بھی اپنی تعلیم کے معاملے میں غیر سنجیدہ ہوتی ہیں۔آپ سچے دل سے بتائیں کیا آپ نے ایسی لڑکیاں نہیں دیکھیں جو مواقع اور ذرائع ہونے کے باوجود ’اچھا رشتہ‘ ملتے ہی اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتی ہیں؟یا شادی کے بعد خود کو محض کچن یا سنگھار میز اور نت نئے کپڑوں کی خریداری تک محدود کرلیتی ہیں؟
ہمارے ہاں تعلیم کثیر نظامی ہے، جس کو ایک تعلیم یافتہ عورت سمجھ سکتی ہے اور کس نظام کو کیسے لے کر چلنا بہتر ہے؟ وہ اس کا فیصلہ کسی حد تک بہتر کر سکتی ہے ورنہ ایک ناخواندہ عورت کے لئےبچے کا اسکول چلے جانا ہی کافی ہے۔ وہ بچے کو سکول بھیج کرباقی ساری ذمہ داری اساتذہ پر ڈال دیتی ہے اور یہ خیال کرتی ہے کہ اس کا بچہ بہت بڑا افسر بن جائے گا۔
عمومی طور پر پڑھی لکھی گھریلو عورت یہ سمجھتی ہے کہ اس کو اساتذہ کے ساتھ، بچوں کا ساتھ دینا ہے اور بچے کو مناسب وقت بھی دینا ہے لہٰذا وہ معاشرے کا کسی صورت بھی غیر اہم کردار نہیں ہیں۔
مشہور کہاوت ہے کہ ”مجھے تعلیم یافتہ مائیں دو، میں تمہیں تعلیم یافتہ قوم دوں گا۔‘‘ اس میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ پڑھی لکھی عورت کا نوکری کرنا، جاب کرنا بہت ضروری ہے، گھر سے نکلنا بہت ضروری ہے۔اس کا مطلب محض یہ ہے کہ نسلوں کے لیے اس کا تعلیم یافتہ ہونا ہی کافی ہے۔ اگر وہ اپنی تعلیم کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اگلی نسلوں تک اپنی تمام تر کاوشوں کو پہنچا دے تو تعلیم کا اس سے بہتر استعمال کوئی نہیں ہو سکتا۔
لہذا ایک تعلیم یافتہ عورت ہر صورت معاشرے کا ایک فعال کردار ہے، اس کو اتنا غیر اہم نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی اس گھریلو عورت کو اتنا ذہنی دباو و ذہنی اذیت دینی چاہئے کہ وہ خود کو کمتر محسوس کرنے لگے۔ ہمیں اس حوالے سے اپنی سوچ میں مثبت نظر ثانی کر نےکی ضرورت ہے کہ ایک تعلیم یافتہ گھریلو عورت بھی معاشرے کا بھر پور اور فعال کردار ہے۔
.
*************