“وطن کی مٹی گواہ رہنا “
ازقلم: صفا خالد
حصہ: اول
“ہم ایک ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں صرف مسلمان نہیں بلکہ ہر مذہب اور کلچر کے لوگ آزادی سے زندگی گزار پائیں گے”
یہ اس نظریہ کے الفاظ ہیں جو قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کے خطاب میں کہے تھے۔
یہ الفاظ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا کلچر زرخیز ہے یہاں اقلیتوں کو کوئی خطرہ نہیں، یہاں غیر مسلم کے حقوق پامال نہیں ہوتے۔ ہمارے ملک میں آقا اور غلام کا تصور سرے سے ممکن ہی نہیں۔ یہاں بچے سے لے کر بوڑھے تک کو اظہار رائے کا مکمل حق حاصل ہے۔ ہر فرد اپنے مذہب کہ تابع اپنی زندگی کی روانی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ نسلی تعصبات سے پاک یہ خطہ علامہ اقبال کے خواب کا عملی جامع ہے۔
‘ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
امیر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے’
( بانگ دارا)
علامہ اقبال نے فرمایا تھا کے “اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام فقط ایک مذہب اور روایت کے طور پر نہیں بلکہ ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تو ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت کو قائم کریں”
آپ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ خواب ان کے سیاسی مسلک، حدیث و سنت کے عقائد اور ان کے جمہوری نظریات کے عین تابع تھا۔
انسان جہاں جنم لیتا ہے جس خطے میں اس کی زندگی کی صبحیں روشن اور شامیں پروان چڑھی ہوں پھر اس خطے سے محبت کرنا اس کا فطری عمل ہوتا ہے۔ انسان کے رنگ و روپ سنوارنے والی، اس کی شخصیت کو نکھارنے والی، اس کی ذات کو ایک مخصوص قوم کے فرد ہونے کی حیثیت دینے والی یہ پاک سر زمین اگر اسی انسان کی محبت سے بے فیض رہ جاۓ تو ایسا انسان کسی بھی معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔
حب الوطنی تقاضا کرتی ہے کے تمام تر ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر سوچا جائے۔ حب الوطن قوم کے لیے ‘ایثار’ پہ بات آجائےتو شہیدوں کے لہو کی کہانیاں ہمارے سامنے ہیں۔ ہم اپنے اسلاف کی عظیم داستانوں پر بصدق یقین رکھتے ہیں۔ کہ ہم نے یہ ملک سیکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے۔ کتنی ماؤں کے سامنے ان کے لختِ جگر کٹ گۓ، کتنی بہنوں کی عصمتیں پامال ہویئں، کتنے عزیزوں سے ان کے پیارے بچھڑ گئے۔
ہمارے بہادر فوجی ایک دوسرے کے خون کو گرماتے رہے یہ کہہ کر کہ، دیکھو سینے پہ گولی کھانا پیٹھ پہ نہیں کہ کہیں ہماری مایئں شرمندہ نہ ہو جائیں ، ہماری میت دیکھ کے ہماری بہنوں کے سر نہ جھک جایئں کہ ہم پیٹھ پہ گولی کھا کے آۓ ہیں۔ یہ داستان نہیں بلکہ لہو سے لتھڑی ہوئ ایک تاریخ ہے۔ ہندو اور سکھ فسادات کی وہ ہولی ہے جو علیحدگی کے وقت پاکستان آتے ہوئے بے یارومددگار مسلمانوں سے کھیلی گئی۔
14 اگست 1947 کو صبح 9 بجے دستور ساز اسمبلی میں ایک خصوصی اجلاس کے موقع پر ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا ‘پاکستان کے اقتدار اور آزادی کا اعلان’ اس نغمے کی ترجمانی کر رہا تھا جب قائد اعظم محمد علی جناح نے انگلستان اور وائسرائے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ یقین دلایا تھا کہ
“ہمارا ہمسایوں سے بہتر اور دوستانہ تعلقات کا جذبہ کبھی کم نہ ہوگا اور ہم ساری دنیا کے دوست رہیں گے”۔
14 اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب، 27 رمضان المبارک 1366ھ ٹھیک بارہ بجے ایک خود مختار اور آزاد مملکت کا دنیا کے نقشے میں اضافہ ہوا تھا۔
اور پھر اس وقت کی تاریخی عوام نے یہ سنہری الفاظ سنے۔۔۔۔
” 13 اگست 1947، 11:59pm
یہ آل انڈیا ریڈیو لاہور ہے۔ آپ ہمارے اگلے اعلان کا انتظار کیجئے۔
اور پھر!
14 اگست 1947، ٹھیک بارہ بجے، یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے۔ آپ کو پاکستان مبارک ہو۔
یہ تاریخ ساز انتہائی مختصر الفاظ پر مبنی جملہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھا۔ یہ روح پرور الفاظ آج بھی ان گنت دلوں کو سرشار کرتے ہیں۔
“میری مستی میں آنا ہے
میری ہستی میں شعور
جان فزا میرا تخیل ہے
تو شیریں ہے، سخن”
یہ لاکھوں قربانیاں یہ ہزاروں قصے اس وطن کی ثقافت، اس ارضِ پاک کی تہذیب، قومِ برصغیر کی روایات کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہم زندہ و تابندہ قوم ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ اگر سوچیں تو کیا ہم ان بہادر اور بایاب لعل و گہر جیسی فوج کی برابری کر سکتے ہیں جو جان تک کا نذرانہ پیش کرنے پر بھی گھبراتے نہیں تھے۔ وطن کی حفاظت کا عزم لے کر ہر محاذ پر ڈٹ جانے والے وہ بہادرسپوت ہمارے ملک پاکستان کی تاریخ کا مایہ ناز سرمایا ہیں۔
یہ تمام دل افروز قصے نہیں ہیں یہ ہمارے وطن کی عظیم گواہیاں ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ جب میں اپنے وطن کے سرسبز لہلہا تے کھیت کھلیان دیکھتی ہوں۔ یہ بل کھاتے دریا ، سمندر کے دھارے، یہ اونچی پہاڑوں کی فصیلیں،یہ فصل گل، یہ رنگ و بو، یہ لالہ گوہر، یہ غیور قوم، یہ شیریں سخن، یہ مہمان نوازی یہ برکت اور رحمت، یہ شجاعت کی بہادر مثالیں میرے تخیل کو ابھارتی ہیں کہ میں اپنے اس چاہتوں کے امین دیس سے اور بھی تو ٹوٹ کر محبت کروں۔
یہ مٹی گواہی دیتی ہے کہ اس ملک کے باشندے اس جسدِ واحد کی طرح ہیں کہ ایک حصہ تکلیف میں ہو تو پورا جسم بے چین رہتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ اس ملک کے ہر بسنے والے کا دل جذبہ ایمان سے سرشار کر دے۔ ایسا جذبہ جو حب الوطن ہونے کی ضمانت دے۔ خدا ہمیں اس قابل بنا دے کے ہم ہماری تاریخ کے بقائے دوام افراد ٹیپو سلطان ، سراج الدولہ ، نواب بہادر یار جنگ ، محمود غزنوی ، سرسید احمد خان ،علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم محب وطن سے رہنمائی حاصل کرسکیں۔ وطن سے محبت صرف جذبات کی لو تک یک قلم کی سیاہی تک محدود نہیں رہنی چاہیے ہمیں اس سر زمین پر ایسا پرامن ماحول قائم کرنا چاہیے کہ مشرق سے لے کر مغرب تک جنوب سے لے کر شمال تک ہمارے اس خطے کو امن کا نشان سمجھا جاۓ۔
ہمیں اس امر کے لیے خود کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے حب الوطنی تقاضا کرتی ہے کہ ہم ملکی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہاں بسنے والے لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت کریں، کرپشن اور بدعنوانی جیسے موذی مرض سے اپنی سر زمین کو پاک رکھیں۔ کیونکہ یہ مٹی واجب المحبت ہے یہ سرزمین واجب الاحترام ہے۔ یہ عزم کا نشان پاکستان صرف شادباد لوگوں کی پہچان ہونا چاہیے۔
“دعا ہے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو”
باخدا یہ دیس ہمارا ہے ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
ختم شد۔
.
*************