تحریر : اسلام اور معاشرہ
رائیٹر: قراۃالعین بشیر
اخلاق معاشرے کے بگاڑ اور
سنوار میں بڑا معاون ہوتا ہے…. درس ماں کی گود سے عملی درسگاہ تک اور پھر سیکھنے کا عمل سکھانے تک انسان کے ساتھ چلتا رہتا ہے… دور حاضر میں غلط کاریوں کی بڑھتی شرح کی بنیاد یقیناً درس اور درسگاہ کا کم ہوتا معیار ہے…. ہمارے ہاں تربیت کا دور تب شروع ہوتا ہے جب بگاڑ بچے کی اندر اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہوتا ہے…. اس سے پہلے بس یہی کہا جاتا ہے کہ بچہ ہے کوئی بات نہیں، سمجھ جاۓ گا کوئی بات نہیں اور پھر وہ کوئی بات اتنی بڑی بات بن جاتی ہے کہ والدین کی عمروں کی کمائی عزت شاہنواز اور جعفر جیسوں کے قدموں تلے دھول بن کے اُڑنے لگتی ہے اور باپ محض اتنا کہہ پاتا ہے کہ کاش میں ڈھیل نہ دیتا، کاش میں تربیت کر پاتا….. مسئلہ کی جڑ پر نظر ڈالنے سے پہلے مسئلہ دیکھ لیتے ہیں…. گزرتا وقت بڑا بھیانک روپ اختیار کر چکا ہے… قتل، زیادتی، ،طلاق اور کئی دوسرے فعل اسلام کے نام پہ آزاد ہونے والے ملک کا حصہ بن چکا ہے جسے اسلامی جمہوریہ کہا گیا پر سمجھا نہیں گیا…. ایک غیر مسلم نے کہا تھا کہ میں کلمہ اس لیے نہیں پڑتا کیونکہ مسلمان ہونے کے بعد مجھے جھوٹ، غیبت، چوری، شراب سب چھوڑنا پڑے گا…. ان الفاظ کو دیکھا جائے تو پتاچلتا ہے کہ مسلمان کی صفات کیا ہیں اور ہمارا معاشرہ کس مقام پر ہے؟ ماموں کا بہن کے بچوں سے زیادتی کا واقعہ ہو یا سوتیلے امام مسجد باپ کا بیٹیوں سے زیادتی کا کرب، پیسے کے پیچھے بگڑے رئیس کا بیوی کو موت کے گھاٹ اُتار دینے والا درد ہو یا بیٹے کا ماں کو کلہاڑی کے وار سے قتل کر دینے کی خبر، ہر کہانی اپنا تعارف چیخ چیخ کر بیان کر رہی ہے…. نظام اور قانون پہ جتنی تنقید کی جاۓ کم ہے… ہمیں وارث وہ ملے ہیں جو ورثہ بیچ گئے… مسیحا وہ ملے ہیں جو دوا چھین کے لے گئے… حاکم وہ ملے ہیں جو نوکر کر گئے اور منبر وہ ہیں جو ایک گھنٹہ دین دینے کے ڈیڑھ لاکھ کم سمجھ رہے ہیں….. مسئلے کی جڑ ہی علم ہے…. اسکی کمی اور زیادتی دونوں خطرناک ثابت ہوۓ ہیں…. پڑھ اپنے رب کے نام سے جیسی آیات کے وارث منبر و مینار کو کاروبار سمجھ بیٹھے ہیں… کچھ عرصہ فیس بک کی دنیا پر کچھ باتوں کا تجربہ کیا ہے میں نے کہ ہر دوسے شخص کو تعلق بنانے میں دلچسپی ہے، لڑکیوں سے باتیں کرنے کا جنون سر چڑھ کے بول رہا ہے اور یقیناً یہ سب وقت گزاری کے زمرے میں آتا ہے اس کے باوجود اس راستے کو اپنانے کا مقصد کیا ہے؟ یقیناً اس نسل کے اندر کی ہوس اور بس…. میرے نزدیک بگاڑ کے ذمہ دار ہمارے ادارے ہیں جہاں پر محض پیسے کے بدلے ڈگری سے نوازا جاتا ہے یعنی کہ کاروبار چل رہا ہے…. میں نے مدرسے میں پڑھنے والے بچوں کو عام تعلیم حاصل کرنے والوں سے کئی گنا زیادہ بہترین پایا ہے جبکہ ہمارے ادارے صرف سائنس پر زور دیے جارہے ہیں اور آج تک ہم اس کے باوجود اس میدان میں بھی کوئی معرکہ نہیں مار سکے….. والدین کی پہلی ذمہ داری ہے بچوں کو قرآن کی تعلیم ترجمہ کے ساتھ دینا… یہ کہہ دینا کہ قرآن پڑھنا ثواب ہے کافی نہیں ہوگا…. قرآن سمجھنے کے لیے آیا تھا، زندگی کو اس سے سیکھ کر گزارنے کے راز حاصل کرنے تھے ہم نے لیکن ہم ثواب پر اکتفا کر رہے ہیں…. بچوں کو ترجمہ پڑھانے کے بعد ایک حاص عمر میں تفسیر کی جانب راغب کرنا والدین کی ذمہ داری ہے…. اُسے معلوم ہوگا کہ اسلام کیا ہے، احکامات کیا ہیں، شریعت کیا ہے اور میری حد کیا ہے….. اُس کی پرورش پاکی میں ہوگی، اُسے قرآن کی سمجھ ہوگی اور وہ بے حیائی اور برائی سے دور رہے گا، خدا کا خوف پیدا ہو گا اور پھر یقیناً سوشل میڈیا پر چکر نہیں چل رہے ہوں گے….. نسل میں بگاڑ کی بنیادی وجہ دین سے دوری ہے اور کچھ نہیں….. اس کے بعد دوسری ذمہ داری منبر کی ہے علماء کی ہے کہ مساجد اور مدارس کو ایسی جگہ بنائیں جہاں لوگ اپنے مسائل کے حل کو لیے آئیں، جہاں نماز کے بعد کچھ وقت مولانا صاحب شرعی مسائل اور دین کے بنیادی احکامات سے آگاہ کریں تا کہ افراد کی تربیت میں بہتری آۓ اور بلاشبہ معاشرہ افراد سے بنتا ہے….. ہمارے ہاں مساجد نماز تک محدود ہیں اور نمازی بھی بڑی عمر کے چند مرد….. ہم دین سے اتنا دور ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب آنے والی نسلوں کو دین کے حصول کے لیے بھی مشکلات کاٹنی پڑیں گی….. ہم میں سے کوئی بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہا…. سب ناکام ہو چکے ہیں، کئی ایسی باتیں اور مثالیں ہیں جو لکھنے لائق ہیں لیکن اتنا کہنا کافی ہو گا اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو…. اولاد کی تربیت آپ پر لازم ہے صرف پیدا کرنا حق نہیں تھا…. بیٹیوں سے زیادہ بیٹوں پر سختی کریں، ہوس اپنے عروج پر ہے… جسموں کا کھیل جاری ہے، وہ وقت نہ لائیں کہ ہم پہ پتھر برساۓ جائیں….
.
*************