Ehsas article by Aqsa Falak

articles

تحریر : احساس
نام : اقصی فلک

احساس فقط اس رشتے کو اپنی زندگی سے ہمیشہ کیلیے نکال دیں ، کیا ہوگا ؟ انسان کا انسان سے تعلق ختم ہوجائے گا ، انسان اور حیوانوں کا تعلق ختم ، جانوروں اور بے زبان مخلوقات سے انسانی تعلق ختم ہوجائے گا ، اللہ تعالی اور بندے کا تعلق ختم ہو جائیگا ، والدین اور اولاد کا تعلق ختم ہو جائیگا ، استاد اور شاگرد کا تعلق ختم ، ملازم اور مالک کا تعلق بھی ختم ہو جائیگا ، سوسائیٹی تباہ و برباد ہوجائے گی کہ فقط اگر اس ایک رشتے کو آپ اپنی زندگی سے ہمیشہ کیلیے نکال دیں ۔ دنیا کا نظام تو چل ہی رہا تھا تو پھر ایسا کیا تھا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا ۔ کیا ایسا نہ تھا کہ اس وقت بیٹی کی قدروقیمت کا احساس باپ کے دل سے نکل چکا تھا ،والدین اور اولاد کے تعلق میں دراڑ آچکی تھی ، اور اس دراڑ کی وجہ کیا تھی ؟ احساس کا ختم ہو جانا ، انکے دلوں سے محبت کا احساس ختم ہو چکا تھا ، استاد اور شاگرد کا تعلق ختم ہو چکا تھا ، یہ احساس ہی تو وہ رشتہ تھا جسے اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں شامل کرکے اسے اشرف المخوقات کا درجہ عطاکیا ، کیونکہ یہ مخلوق احساس کیلیے پیدا کی گئی ، انسان حیوانات سے بدتر ہوجائیں کے کے فقط یہ “احساس” کا ایک رشتہ اگر ختم ہوجائے ۔اگر ایک بندہ بیمار ھے وہ ہمارے سامنے تڑپ رہا ھے کیا تب بھی آپکے دل میں اسکے لیے ہمدردی کا احساس پیدا نہیں ہوگا ؟ کیا تب بھی آپ اسکو اسکی غلطیوں پر معافی نہیں دیں گے ؟ یہ احساس تو اتنا پیارا رشتہ ھے کے شاید اسکے بیان کو الفاظ نہیں دیے جاسکتے ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس گلی سے گزر کر جاتے تھے وہاں ایک عورت ان پر کوڑا پھینک دیتی، ایک روز جب نبی پاک گزرے تو وہ عورت نظر نہ آئی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے بھی وہاں سے گزر سکتے تھے ناں ؟ لیکن نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کے گھر دستک دیکر چلےگئے یہ دیکھنے کیلئے کہ خیریت تو ھے ، پتہ چلا کہ وہ بیمار ھے تو آپ نے اسکی عیادت کی ، اور اس عورت نے یہ دیکھ کر اسلام قبول کرلیا، سوچیں غور کریں ۔ یہاں احساس کا رشتہ ہی تو تھا نہ، اگر ہمارے اوپر کوئی کوڑا پھینکے تو ہم کیا کریں گے ؟ کیا کوئی اسکی خیریت معلوم کرنے بھی جاتا ھے ، جو اس سے دشمنی رکھتا ہو ؟ اس عورت کو اس دین میں احساس کا رشتہ نظر آیا ، جو اسکے دل میں اتر آیا ، ایک کتاب کا فقرہ ھے ” ” دوسروں کے قدموں میں کھڑا ہوکر دیکھیں اسکا کیا مطلب یہ کے ہم جس سے بات کر رہے ہیں خود کو اسکی جگہ پر تصور کریں یہ جاننے کیلیےکہ کیا میرا برتاو اس سے درست تھا؟ ہمارا کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق ہو اس کے ہر چھوٹے بڑے معاملات میں خود کو دوسرے کی جگہ تصور کرکے دیکھیں، اگر آپ مالک ہیں تو خود کو ملازم کی جگہ رکھ کر سوچیں ، اگر آپ دکاندار ہیں تو خود کو گاہک کی جگہ رکھ کر تصور کریں ، اگر میزبان ہیں تو مہمان کی جگہ خود کو تصور کریں ، تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیا آپ کا رویہ ان کے ساتھ درست تھا ، فقط احساس تو احساس ہی ھے ، یہ رشتوں کی قدر و قیمت کا ہو ، یا کسی کے ساتھ ہمدردی کرنے کا ، یا کسی کو معاف کر دینے کا ، یا کسی زخمی دل پر مرہم رکھنے کا ، یا کسی محتاج کی کسی ضرورت کو پورا کردینے کا ، یا کسی سائل کی مدد کردینے کا ہو یا کسی فاقہ زدہ کو راشن لے کر دینے کا ، یا کسی بھوکے کی ایک وقت کی بھوک کو مٹانے کا ، یا محبت کا احساس ، احساس کسی پیاسے پرندے کو پانی پلانے کا ہو یا کسی بھوکے جانور کو کھانا کھلانے کا ، کسی زخمی پرندے کی مرہم پٹی کرنے کا ہو یا کسی چڑیا کے بچے کو گرا دیکھ کر اسکو کسی کپڑے میں لپیٹ لینے کا یا کسی بیمار انسان کی تیمارداری کرنے کا ہو ، یا احساس کسی غریب طلبا کو کتابیں لیکر دینےکا ،اسکی فیس ادا کرنے کا ہو ، یا محلے کے کسی بزرگ شخص کے ساتھ چند لمحے گزارنے کا ہو ، یا ان کی کسی ضرورت کو پورا کردینے کا ، اور انکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لانے کا اور ان سے بہت سی دعائیں سمیٹ لینے کا ، اگر محبت کا احساس نہ ہو تو اسکی مخالفت میں نفرت جنم لیتی ھے اور نفرت تو تباہی کی بنیاد ڈالتی ھے ، حقوق اللہ کو ادا کرنے کا احساس ہو یا حقوق العباد ادا کرنے کا ، احساس ہی وہ حقیقت ھے کہ جو انسانوں کا درجہ بلند کرتی ھے ۔ احادیث مبارک میں آیا ھے ؛ اگر کوئی مسلمان کسی محتاج کی مدد کرتا ھے تو روز قیامت اللہ تعالی اسکی مدد فرمائیں گے ، اگر کوئی شخص کسی مصیبت زدہ کی ایک مصیبت کو دور کرتا ھے تو روز قیامت اللہ تعالی بھی اسکی ایک مصیبت کو دور کردیں گے ۔
قاسم علی شاہ کہتے ہیں ، زندگی میں ایک مقام وہ بھی آتا ھے کہ جب آدمی ان لوگوں کیلیے دعا کرتا جنہوں نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہوتی ھے ، یہاں احساس کی اک بہت بڑی بات پوشیدہ ھے ، وقتی طور پر کسی کی دی گئی زیادتیوں پر صبر کر جانا ، انکو معاف کر دینا ، کیونکہ جو معاف کرتا ھے وہ بھی ایک عظیم انسان ہوتا ھے ، اور اسکا یہ بڑا پن دوسرے انسان کو بھی عظیم بنا دیتا ھے ، اور اسی عظمت کے تحت ایک دن آپ اس کیلیے دعا گو ہوں گے ۔

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *