حضرت سعد بن معاز رضی اللہ عنہ
اقصیٰ ساقی
آپکا نام سعد’ کنیت ابوعمرو’ لقب سید الأوس
نسب: سعد بن معاز بن نعمان بن امرٶ القیس بن زید بن عبدالاشہل بن حشم بن حارث بن خزرج بن بنت عمر بن مالک بن اٶس۔
آپکی والدہ کا نام کبشہ تھا والد تو زمانہ جاھلیت میں ہی وفات پاگئے تھے البتہ والدہ کافی عرصہ زندہ رہیں ہجرت سے پہلے وہ بھی ایمان لے آئی تھیں.
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نہایت حسین وجمیل اور طویل القامت شخص تھے ظاہری حسن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو دینی ودنیاوی عزّت ووقار بھی عطا فرمایا تھا.
حضرت سعد رضی اللہ عنہ اخلاقی اعتبار سے بہت اونچے درجے پر فائز تھے انکے بارے میں حضرت عائشہ نے فرمایا کہ: “رسول ﷺ کے بعد سب سے بڑھ کر عبدالاشھل کے تین آدمی ہیں ان میں سے ایک سعد بن معاز ہیں” (مفھوم)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ: “ویسے تو میں بہت معمولی انسان ہوں لیکن تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے جس رتبے پر پہنچنا چاہٸیے میں اس رتبے میں پہنچ چکا ہوں پہلی بات رسول ﷺ سے جو حدیث سنتا ہوں اسکے اللہ کی جانب سے ہونے کا یقین رکھتا ہوں’نماز میں کسی طرف خیال نہیں کرتا مطلب خشوع سے پڑھتا ہوں’تیسرے جنازے کے ساتھ جاتا ہوں تو منکر نکیر کے سوالات کی فکر لگی رہتی ہے” حضرت مسیب فرماتے ہیں کہ یہ تین خصلتیں پیغمبروں کی ہوتی ہیں.
حضرت سعد کا اسلام لانا؛-
شروع میں جب یہ کافر تھے تو اسعد بن زرارہ نے مصعب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ:”اگر سعد بن معاز مسلمان ہوجاٸیں تو انکا قبیلہ بھی مسلمان ہوجائے گا” اس کے بعد جب سعد بن معاز مصعب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا:”سعد آپ میرے پاس بیٹھیں اور میری بات سنیں اسکے بعد ماننا نہ ماننا آپ کا کام ہے” حضرت سعد نے انکی بات مانی اور بیٹھ گئے مصعب نے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن کی کچھ آیتیں سنائیں جسے سن کر سعد بن معاز نے فوراً کلمہ شھادت پڑھ لیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
قبیلے کے اسلام لانے کا واقعہ؛-
حضرت سعد نے اپنے خاندان بنی عبدالاشھل کے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا:”اے میرے قبیلے کے لوگوں…!! تم لوگوں کے نزدیک میرا کیا مقام ہے؟”
سب نے کہا: “آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم سب سے بلند مقام پر ہیں”
یہ سن کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “میرے لئے تم لوگوں سے بات کرنا حرام ہے جب تک تم سب مرد وعورت اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لے آٶ”
حضرت سعد کا اپنے قبیلے پر رعب اور مقام تھا اسی لئے ان کی بات سن کر قبیلے کے چھوٹے بڑے نے انکی دعوت پر لبیک کہتے ہوٸے کلمہ پڑھ لیا حتیٰ کہ قبیلے کا کوئی بھی شخص ایسا نہ تھا جو مسلمان نہ ہو۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا مقام جنت میں:
ایک مرتبہ دومة الجندل کے امیر اکیدر نے آپ ﷺکی خدمت میں ریشمی جبّہ پیش کیا صحابہ نے ایسا خوبصورت نرم جبہ کبھی نہ دیکھا تھا اس لٸے صحابہ اس کو بار بار چھوتے اور اسکی نزاکت پر تعجب کا اظہار کرتے آپ ﷺ نے صحابہ کے اس عمل کو دیکھا اور فرمایا: “تم لوگوں کو یہ اچھا معلوم ہورہا ہے جنت میں سعد بن معاز ے رومال اس سے زیادہ بہترین اور نرم ونازک ہیں”۔
ان کی بہادری وشجاعت اور آپ ﷺ پر جاں نثاری:-
سعد عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ہوئے اور امیہ بن خلف کے مکان پر (جو ان کا دوست تھا) قیام کیا (امیہ مدینہ آتا تھا تو ان کے ہاں ٹھہرا کرتا تھا اور یہ مکہ جاتے تو امیہ کے یہاں ٹہرتے تھے) اورکہا جس وقت حرم خالی ہو مجھے خبر کرنا چنانچہ دوپہر کے قریب امیہ کے ساتھ طواف کے لیے نکلے راستہ میں ابو جہل سے ملاقات ہوئی ابوجہل نے پوچھا: “یہ کون ہیں؟” امیہ نے کہا: “سعد” .
ابو جہل نے کہا: “تعجب ہے کہ تم صابیوں (بے دین) کو پناہ دے کر اوران کے انصار بن کر مکہ میں نہایت اطمینان سے پھر رہے ہو اگر تم ان کے ساتھ نہ ہوتے توتمہارا گھر پہنچنا دشوار ہوجاتا”
سعد نے غضب آلود لہجہ میں جواب دیا: “تم مجھے روکو پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے؟ میں تمہارا مدینہ کا راستہ روک دونگا”
امیہ نے کہا: “سعد ابو الحکم (ابو جہل) مکہ کا سردار ہے،اس کے سامنے آواز پست کرو”.
سعدنے فرمایا: “چلو ہٹو، میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ مسلمان تم کو قتل کریں گے”.
ابوجہل نے بولا: “کیا مکہ میں آکر ماریں گے؟” .
سعد نے جواب دیا اس کی خبر نہیں۔
اس پیشن گوئی کے پورا ہونے کا وقت غزوۂ بدر تھا، آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو صحابہ سے مشورہ کیا، سعد نے اُٹھ کر کہا: “یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ پر ایمان لائے، رسالت کی تصدیق کی،اس بات کا قرار کیا کہ جو کچھ آپ لائے ہیں حق اور سمع اورطاعت پر آپ سے بیعت کی پس جو ارادہ ہو آپ وہ کر دیجئیے، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا اگر آپ سمندر میں کودنے کو کہیں تو ہم حاضر ہیں ہمارا ایک آدمی بھی گھر میں نہ بیٹھے گا، ہم کو لڑائی سے بالکل خوف نہیں اور انشاء اللہ میدان میں ہم صادق القول ثابت ہوں گے، خدا ہماری طرف سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے” . آپ ﷺ اس تقریر سے خوش ہوئے قبیلۂ اوس کا جھنڈا آنحضرتﷺ نے ان کے حوالہ کیا۔
سعد رضی اللہ عنہ کی وفات:
٥ ھجری میں غزوہ خندق میں زخمی ہوئے اس کے کچھ دن بعد انتقال ہوگیا وفات کے قریب وقت میں آپ ﷺ نے ان کے لئے دعا کی کہ انکا بہترین استقبال فرمائیں اور انکی وفات کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: “سعد اللہ کا نیک بندہ ہے جس کی آمد کی
خوشی میں عرشِ الہی جھوم اٹھا آسمان کے دروازے کھول دیٸے گٸے اور ستر ہزار فرشتے ان کے جنازے میں شرکت
کیلئے آئے جو پہلے کبھی زمین پر نہیں اترے تھے” .