کاش تیرے دل میں اتر جائے میری بات
از قلم : شنیلہ جبین زاہدی
مجھے جس اگن نے قلم اٹھانے پہ مجبور کیا ۔ وہ جذبہ میرے لفظوں کا محتاج نہیں ۔ میرے ٹوٹے ہوئے حوصلوں کو جو اک تصور پھر سے جواں کر دیتا ہے میری ذات کی بکھری کرچیوں کو جو اک احساس سمیٹ دیتا ہے وہ میرے بے ربط جملوں کا محتاج نہیں، لیکن چند جملے فقط اس کی راہوں کی دھول کرنا چاہوں گی کہ شاید کچھ فرض ادا ہو ۔
آج سے چند سال قبل 2013 میں ان آنکھوں نے ایک ہستی کا دیدار کیا جس نے وہاں موجود کئی پیاسی روحوں کو سیراب کیا ۔ جس کو دیکھ کے زبان سے فوری ادا ہونے والے الفاظ ۔۔۔لا الہ الا اللہ تھے ۔ یہ کیفیت صرف میری نہیں بلکہ وہاں موجود تمام ذی ہوش کی تھی ۔ پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ یہ ہستی جن کو دیکھ کے سب بھاگ کے ایک قطار میں کھڑی ہوئیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہزاروں بیٹیوں کی عصمت ، اور ہزاروں بیٹوں کے سر کا تاج ” سید زاہد صدیق شاہ بخاری” ہیں ۔ آن واحد میں وہ ہستی تشریف لاتی ہیں تو بے رونق چہروں پہ بہار کی رت سی چھا جاتی ہے ۔ بے قرار دلوں کو سکوں سا آجاتا ہے ہماری نظروں کےلئے یہ منظر بالکل نیا تھا ۔ لیکن آنیوالے نے آکے کسی کو بھی بیگانہ نہیں رہنے دیا ۔ اپنی میٹھی زباں سے اور پر تاثیر لہجے سے دکھی دلوں پہ پھاہے رکھنا شروع کر دیئے ۔ باریش انسان ، نفیس طبیعت، میٹھا لہجہ ، اور بیٹیوں کے سروں پہ ہاتھ رکھتے جاتے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں میری آنے والی نئی بیٹیاں پریشان تو نہیں۔
اب پوچھنے والا جب زاہد صدیق ہو تو جو نہ بھی رونا چاہے وہ بھی رو دینے کو تیار تھا کہ چپ کروانے والا جو وہاں آچکا تھا ۔
اس مرد قلندر کے زباں حق سے نکلنے والے جملے آج بھی ایک عجیب کیفیت میں لے جاتے ہیں
“قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ “
“کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے”
یہ پہلا سبق تھا جو بابا حضور نے اپنی بیٹیوں کے کانوں میں انڈیلا جو روح تک میں سرایت کر گیا ۔
پھر فرمایا
بیٹیو ! تمہاری آئیڈیل سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنھا کی ذات ہونی چاہئے ۔
اسکے بعد اپنے مرشد کریم حضور ضیاء الامت کے ارشادات سے وہاں کی فضاء معطر کی ۔ پھر وہاں سے تشریف لے گئے اور جاتے ہوئے فرما گئے کہ میری بیٹیوں کا خیال رکھئے گا ۔ ہائے قربان جائیں اس احساس کے جو جاتے جاتے بھی محبت کی ڈور ہاتھ میں تھما کے گئے ۔ کہ یہ محبتوں کا گھر ہے یہاں کوئی پریشانی نہیں۔
وہ گھر واقعی مھبتوں کا امین تھا ۔ صبح تہجد کی نماز کےلئے اٹھایا جانا نماز کے بعد سب کا یک زبان ہوکے ذکر اللہ کرنا ۔ پھر اپنے اپنے اسباق کی دہرائی اور نماز فجر کے بعد اسمبلی ، اور وہاں بالخصوص استاتذہ کا یک رنگ سفید لباس آنکھوں کو مزید حیرہ کئے دیتا تھا ۔ ایسے محسوس ہوتا کہ جنت کی جن حوروں کا تصور ہم کرتے آئے ہیں ۔ شاید وہ ان جیسی ہوں ۔
پھر وقت آہستہ آہستہ آگے بڑھتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دورہ حدیث کی تعلیم بھی مکمل ہو گئی اور اس باپ کو دھوپ چھاؤں گرمی سردی میں وہاں آتے جاتے دیکھتے رہے ۔
اس دنیا کا دستور رہا ہے کہ جس جگہ ہم جاتے ہیں وہ جگہ ایک دن ہمیں چھوڑنا ہوتی ہے ۔ لیکن جو فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے اسے کون ٹال سکتا ہے ۔ یاد رہے یہ وہ جگہیں نہیں جن کو چھوڑتے ہوئے انسان کو کچھ محسوس نہ ہو ۔ پاکستان کے کئی علاقوں سے مختلف خاندانوں کے لوگوں کو محبت کی مضبوط گرہ میں باندھ دینے والے سے بچھڑتے وقت جسم سے روح اڈھیرنے کی سی تکلیف ہوتی ہے ۔ یہ تکلیف کوئی ان سے جاکے پوچھے جنکی آنکھیں ترس گئیں کئی سالوں سے وہ اس ہستی کا دیدار نہیں کر پائیں ۔ میری سماعتوں نے بارہا یہ جملے سنے کہ ہمیں وہ جگہیں بہت یاد آتی ہیں جو روحانی کیفیت وہاں تھی وہ دنیا میں کہیں نہیں ملی ۔
آج مجھے اعتراف ہے اس بات کا کہ جو سکوں اس ہستی کے قرب میں میسر تھا وہ دنیا کے کسی گوشے میں نہیں ۔ مجھے اندلس کی سر زمین جو آجکل سپین کے نام سے جانی جاتی ہے یہاں آئے ہوئے تقریبا سال ہونے کو ہے ۔ میری آنکھیں وہ منظر ڈھونڈتی ہیں ۔ میرا دل اس محبت کو محسوس کرنا چاہتا ہے جو بابا جان کے لہجے میں ہے ۔
یہاں شاعر کا قلم ادھار لوں گی جو کہتا ہے ۔
“ہم کو رکھا چھاؤں میں خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے اک فرشتہ باپ کے روپ میں “
یہ “بابا حضور” اور “بابا جان” کہنا بھی ایک ایسی ہی بے لوث ہستی نے سکھایا کہ جو قرار جاں ، سفیر ضیاء الامت ہیں ۔جن کا ذکر اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے اور طوالت کے خوف سے اس کو مختصر کئے دیتی ہوں ۔
یہاں بھی اس صوفی باصفا کی دعاؤں نے اپنی بیٹی کو ضائع نہیں ہونے دیا اور اندلس کی زمیں جو کبھی مسلمانوں کی ملکیت تھی ۔ یہاں بھی جو سبق حضور سفیر ضیاء الامت نے پڑھایا ، اس کو آگے پہچانے کا عزم لئے اسپین میں بھی وہی علم بلند کرنے کی ٹھان لی ۔ اللہ کے فضل و احسان اور سفیر ضیاء الامت کی دعائیں یہاں بھی میری تقویت کا موجب بنتی رہیں ۔ یہاں بھی یہ نعرہ پھر سے بلند کیا کہ
“دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرے ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے “
مجھے بہت سکوں ملا ان جملوں سے جو پاکستان کے” ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب” نے جو اخوت فاؤنڈیشن کے بانی ہیں۔ قرطبہ کی سرزمین پہ میرے ہاتھ میں سرٹیفکیٹ تھماتے ہوئے کہ آپ جیسے بچے ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں ہمیں آپ پہ فخر ہے ۔ درحقیقت یہ جملے میرے لئے نہیں بلکہ زاہد صدیق کی تربیت کو بولے جارہے تھے ۔ پھر جب پاکستان کی سفیر باسلونا اسپین محترمہ شازیہ منیر نے کونسلیٹ آفس میں زاہد صدیق کی اس بیٹی کی اسپیچ کے بعد بولے کہ”” am proud of you beta ….. مجھے خوشی ہو رہی کہ پاکستان سے ابھی تاریخ کو یاد رکھنے والی ہماری نوجوان نسل موجود ہے جو تاریخ کو نہ صرف یاد رکھے ہوئے ہے بلکہ اس کو آگے پہچانا بھی جانتی ہے آپ پاکستان کا سرمایہ ہیں” “ان کے یہ الفاظ بھی حقیقتا “باباجان سید زاہد صدیق شاہ بخاری ” کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے ۔ مجھے پاک فیڈریشن کے بانی “سر ثاقب طاہر” کے الفاظ بھی یاد ہیں جب انھوں نے پاکستان ڈے پہ میری سپیچ کا دوسرا انعام حاصل کرنے کے بعد ایک ملاقات پہ کہے کہ آپ جیسے بچے ہماری قوم و ملت کا سرمایہ ہیں اور مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ آپ دین اور دنیا دونوں کے علم سے آراستہ ہیں ۔ مجھے اس وقت بھی اس مرد قلندر کے وہ الفاظ پوری جاذبیت کے ساتھ یاد آگئے ۔
کہ بیٹیو !( تواڈی اک اکھ نئین بلکہ دونو اکھاں روشن نے ) یعنی دین و دنیا دونوں کی تعلیم میں نے تمہیں فراہم کر دی ۔
یہ بیان کرنے کا مقصد! یہ واضح کرنا تھا کہ سید زاہد صدیق شاہ بخاری نے اپنا فرض ادا کر دیا ۔ انھوں نے ہم سب کو وہ پیغام پہنچا دیا جو ان کے ذمے تھا ۔ اب یہ آپ سب کا آگے فرض نبھانے کا وقت ہے جو جو اس در سے سیکھ کے آئے پہلے خود اس پہ مکمل عمل پیرا ہوں ۔ اپنی زندگیوں کو ضائع نہ کریں جتنا ممکن ہوسکے اس کو آگے بڑھائیں۔جو جو جس جس عہدے پہ بٹھایا گیا ہے اسکو پورے اخلاص کے ساتھ نبھانے کا عزم کر لیں۔ درس و تدریس سے منسلک اپنا فرض پوری ایمانداری اور دیانتداری سے نبھائیں ۔ جو کچھ نہین کر سکتا وہ پورے خلوص سے بارگاہ ایزدی مین ہاتھ اٹھا دے اور یہ دعا مانگے کہ
سدا بہار دیویں اس باغےکدے خزاں نہ آوے
ہوون فیض ہزاراں تائیں، ہر بھکھا پھل کھاوے۔
اپنے دلوں کو تعصب کی آلودگی سے پاک کرلیں اور دین متین کی جو شمع زاہد صدیق نے پھر سے ہمارے ہاتھوں میں تھمائی ہے اس سے پوری دنیا کو روشن کر دیں۔ کیونکہ زاہد کا سبق ہی عاجزی اور حیا داری ہے وہ زمانے کی بیٹیوں پہ تطہیر کی چادر دینے آیا اور یہی کام وہ کرتا رہا ۔ بیٹوں کو نگاہ پاک اور حیا سوزی کا درس دیا ۔ اپنے آپ کو اتنا بدل لیں کہ آپ جس راستے سے گزریں تو لوگ گواہی دیں کہ یہ زاہد صدیق کی اولاد ہے یہ ان کی تربیت ہے ۔
واضح رہے کہ زاہد صدیق نے پوری دنیا کو وہی سبق دوبارہ یاد کروایا جو آج سے چودہ سو صدیاں پہلے آمنہ کے لال سید المرسلین جان کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا تھا ۔ عین شریعت محمدی کی پاسداری کرتے ہوئے زندگی گزارنے والے نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ کوئی بات یا عمل خلاف شریعت نہ ہو ۔ یہی درس وہاں سے گزرنے والے ، رہنے والے ، پڑھنے والے کو بھی ازبر کروایا ۔ خود بھی وفا کا پیکر رہے اور زمانے کو بھی وفا سکھائی ۔ مجھے یہاں ایک بات یاد آگئی کہ ڈاکٹر امجد ثاقب (بانی اخوت فاؤنڈیشن) صاحب نے قرطبہ پہ گفتگو کے دوران ایک بہت خوبصورت بات کہی کہ کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا بلکہ کام کرنے والے کی نیت اور اخلاص کا ہوتا ہے کہ وہ اس کو پوری ایمانداری سے نبھا رہا ہے کہ نہیں ۔اگر ہم سب مل کے اپنے اپنے حصے کا کام پورے اخلاص اور لگن کے ساتھ کریں گے تو کامیابی و کامرانی ہمارا مقدر ٹھہرے گی ۔ آپ نے کہا کہ اگر ایک خاکروب پورے اخلاص کے ساتھ راستہ صاف کریگا تو وہ اپنے فرض کو تو نبھا رہا ہے ،لیکن ساتھ ساتھ وہ دیکھنے والوں اور گزرنے والوں کے لئے باعث تسکین بھی بن رہا ہے ۔ تو سمجھ لو وہ کامیاب ہوگیا۔ رزق حلال بھی کما لیا اور باعث تسکین بھی بن گیا ۔
میری گزارش ہے کہ زاہد صدیق کے برسوں کی کمائی کو یوں رائیگاں نہ کرو ۔ بہت سالوں کی تگ و دو کے بعد یہ گلشن آباد ہوا ۔ ایک لمحے کےلئے خود احتسابی کیجئے کہ اگر ایک شخص تن تنہا یہ گلشن آباد کر سکتا ہے تو آپ سب مل کے اس کی آبیاری میں جب اس کا ساتھ دیں گے تو بات کہاں تک جا پہنچے گی ۔
ایک بات واضح رہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کے لئے جب آگ جلائی گئی تو ایک چھوٹے سے پرندے نے اپنی چونچ میں پانی بھر کے اس آگ پہ پھنکا کہ یہ آگ بجھ جائے ، تو کسی نے اس سے پوچھا تمہارے ایک قطرے سے یہ آگ کہان بجھے گی تو اس نے جواب دیا کہ آگ نہ بجھے لیکن کل قیامت کے دن جب ابراہیم کے وفاداروں کا ذکر ہوگا تو میرا نام بجی اس میں شامل ہوگا ۔ بس یہ سوچ اپنے من میں اجاگر کرنے کی سعی کرلیں ۔جو اس وقت زیر تعلیم ہیں وہ ان سے محبت کی وہ چاشنی وصول کر لیں کہ جسے وہ آنے والے وقت میں اجالا کر سکیں ۔ زاہدی قافلے میں شامل ہوکے فاروق کی قیادت میں آگے بڑھنا شروع کر دیں ۔ اس فیضان کو دنیا میں عام کر دیں جو زاہد صدیق کے قرب سے حاصل کیا۔ یہ بات کبھی نہیں بھولنا کہ زاہد صدیق اب ایک شخص کا نام ہے بلکہ اب یہ ایک شخصیت بن چکی ہے ایک نظریہ بن چکا ہے زاہد ایک سوچ بن چکی ہے ایک فکر بن چکی ہے ۔ جو بس دوسروں کےلئے کئی سالوں سے بے لوث جیئے گئی ۔ جس نے ہر ایک کو اپنے سینے سے لگایا ۔ جو گرتے تھے ان کو اٹھا کے گرد صاف کرکے ڈھارس بندھائی اور اپنے ساتھ چلا لیا ۔آپ سب بھی دئیے سے دیا جلاتے جائیں اور محبت کا یہ پیغام چاروں عالم میں پھیلا دیں ۔ ممکن ہے کہ میرے قلم نے اس موضوع کو سیراب نہ کیا ہو لیکن جو گوش گزار کیا ہے امید ہے رائیگاں نہیں جائیگا ۔
میری یہ دعا رہے گی
عمرِ خضر عطا کر اس مردِ باوفا کو..
فکر و نظر کو جس نے پھر بال و پر دئیے ہیں..
پرچم اُٹھا کے جس نے احیاء دینِ حق کا..
عزم و یقین کے موتی، دامن میں بھر دئیے ہیں..
.
*************
Good
MashaAllah ❤️
??