Khud mukhtariyat article by Rafia Siddique

السلام علیکم ۔۔

یہ مارچ کے اوائل دنوں میں سے ایک ڈھلتی شام کا وقت تھا جب میرا اور ابا جان کا نادرا کے دفتر جانا ہوا آنکھوں سے کئ منظر ہوتے ہوئے گزر رہے تھے پھر یکہ یک ایک منظر ایسا گزرا جس پہ آنکھیں ٹھہر سی گئی تھیں وہ منظر کھیتوں کا تھا جہاں بہت سی عورتیں بہترین لباس زیب تن کیے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے میں مشغول تھیں خیال رہے یہاں بہترین لباس برینڈڈ لباس یا زرق برق لباس کو نہیں کہا گیا بلکہ اس مکمل لباس کو کہا گیا ہے کہ ہزاروں مردوں کی موجودگی میں بھی عورتیں اپنی زینت کو پوشیدہ کیے سہل ہو کر کام کر رہی تھیں ذھن میں ایک خیال کوندا کہ وہ عورتیں جو قیمتی لباس میں ملبوس سینکڑوں مردوں کی ہوس بھری نظروں سے غافل چلتی پھرتی دعوت نظارہ پیش کر رہی ہوتی ہیں چندہ کسی کی بات کو خاطر میں نہ لاتی ہوئیں ضمیر پہ گناہوں کا بوجھ لئے ہوۓ ترقیوں کے زینے طے کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب گامزن ہوتی ہیں کتنا تضاد تھا نہ دونوں کے زریعہ معاش میں دونوں اقسام اپنے گھروں سے روٹی کپڑا کی حرص لئے نکلی ہیں اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا لباس کبھی بھی ہماری ظاہری شخصیت کا آ ئینہ دار نہیں ہو سکتا ہے میں نے حد سے ماڈرن عورتوں کو رب کی بارگاہ میں حاضر ہو کر بچوں کی طرح روتے دیکھا ہے پردہ کرنے والیوں کو اپنی حدود سے تجاوز کرتے بھی دیکھا ہے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی پہ اچھے یا برے ہونے کا لیبل لگا کر اپنی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے پر ایک بات کہوں دلوں میں مدفن رازوں تک رسائی صرف اس پروردگار عالم کو حاصل ہے ہماری طرف کوئی دیکھ کر اگر برائی کی طرف راغب ہو جائے تو اس گناہ کرنے والے کا گناہ بھی ہمارا ہی نامہ اعمال بھاری کرے گا اور اسی طرح اگر کوئی نیکی کرے تو اسکا ثواب بھی نیکی پھیلانے والے کو دیا جائے گا جبکہ اس کے گناہ و ثواب میں کوئی کمی نہ آے گی مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کے ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں کہ جہاں کوئی ناچ گانا کرے تو ہم اسے پسندیدگی کی سند دیتے ہوئے اسکے لاکھوں کمانے کا سبب بنتے ہیں لیکن کوئی اچھائی کا کام کرے تو ہماری غیرت فورا سے بیشتر نمودار ہو جاتی ہے فتوے لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے نفع و نقصان کا تخمینہ لگاتے ہوئے حدودوقیود کا تعین کروانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے میں پوچھتی ہوں کے غیرت ان باتوں پر کیوں نہیں آتی جن باتوں پے غیرت کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ بہت سی سوچوں کا تانا بانا بنتے جب واپسی کا قصد کیا تو ایک بہت کم عمر لڑکی کو رکشہ چلاتے دیکھا مجھے نجانے کیوں برا فخر محسوس ہوامیری ذرا سی دعا اور تهپكی سے مجھے ایسا لگا کے وہ مسکرا اٹھی ہو ایسی مسکراہٹ جو آپکو اپکی منزل کی طرف رواں دواں کرنے کیلئے ایک نئے جوش اور نئے ولولے سے روش ناس کرواتے ہوے پر عزم کر دیتی ہے ۔اور میں خود میں ایک عجیب سی کثافت کے چھا جانے پر جو بوجھل پن تھا اسکو چھٹتے ہوۓ محسوس کیا ایسے جیسے ایک طویل جلسا دینے والے گرم دن کے بعد موسلا دھار بارش کا برسنا راحت کا باعث بنتا ہے ۔گناہ ایک بہت چھوٹا لفظ ہے مگر سرزد ہو جانے کے بعد دمك کی طرح ذات سےچمٹ جاتا ہے کیا مجبوری میں کیے جانے والے غلط کام کا گناہ نہی ہوتا یہ ایک ایسا سوال تھا جس نے الجھن میں ڈال دیا تھا پھر سوچا ایسی کونسی مجبوری ہو سکتی ہے جو آپکو اپکا ایمان بیچنے پر مجبور کر دے مجھے قحبہ پہ ہمیشہ ترس آتا تھا مگر جب سے میں نے ان بچوں کو جو گندے نالے سے رزق تلاش کر رہے تھے احساس ہوا کے اللّه نے جہاں ہر انسان میں چھوٹا سا رب رکھا ہے نہ وہی ایک چھوٹا سا فرعون بھی رکھا ہے اب یہ انسان منحصر ہے کے جسکو چاہے خود پہ غالب کر لے چاہے تو ہاتھوں کوگندہ کر کے پیٹ بھر لے یا پھر روح کو گندا کر کے ایک گالی بن جائے زندگی نے تو گزر ہی جانا ہے سفید نہیں تو سیاہ آپکے اندر کی کمزوری آپکے رستے کا تعین کرتی ہے پہلا قدم رکھنے کے بعد احساس ہو جائے نہ کے غلط رستہ چن لیا ہے تو لوٹ آ ۓ پلٹ آۓ کے اپکا رب برا معاف کر دینے والا درگزر کر دینے والا ہے بھیڑیا تو ایک بہت عقلمند جانور ہے کبھی بھی مردار نہیں کھاتا پھر مرد کو بھیڑیے سے تشبیہ کیوں جس طرح عورت کو رستے کے تعین میں خود مختار رکھا گیا ہے نہ بلکل اسی طرح مرد کو بھی با اختیار رکھا گیا ہے مجبوری کا نام دے کر غلط رستے کا اختیار کر لینا آپکے اندر کی فرعونیت تو ہو سکتی ہے مجبوری نہیں خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں…
بنت صدیق ۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *