سیلاب زدگان کے لئے آرٹیکل
“مکیں ہو گئے لا مکاں کیسے کیسے”
یہ دنیا دارالعمل ہے دارالنجات نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا پہ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مصیبتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی زلزلے تو کبھی سیلاب اور کبھی موذی مرض جیسی آفات انسان کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھتی ہیں۔
کتنے ہی معصوم ، غریب غربا اپنی حاصل حیات اپنی تمام تر جمع پونجی ان آفات میں لٹا دیتے ہیں۔
سیلاب میں کتنی مائیں اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو نگہانی آفات کی نظر ہوتا دیکھ رہی ہیں۔ کتنے کسان اپنی تیار فصل کو سیلاب میں روندتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ گھروں کے گھر اجڑتے جا رہے ہیں۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اللہ کا غضب اس کی رحمت سے بڑھ گیا ہے؟
نہیں ہمارے اعمال اللہ کے غضب کو خود دعوت دے رہے ہیں۔ بہن بیٹیاں پردہ کرنے کو تیار نہیں۔مرد اپنی نظریں جھکانے کو مردانگی نہیں کہتا۔ روز کہیں نہ کہیں سے جوان لڑکی اغوا ہو جاتی ہے۔ دن دہاڑے چہرہ ڈھانپے کچھ لوگ کسی نہتے کو سر عام گولیوں سے چھلنی کر جاتے ہیں۔ بیٹی کو شادی سے انکار پر زدوکوب کیا جا رہا ہے۔ غربت سے تنگ آکر ماں باپ اپنے بچوں کو زہر کھلا کر بھوک سے نجات دلاوا رہے ہیں۔ کتنی ہی لڑکیوں کی عصمتیں نکاح کا لالچ دے کر لوٹ لی جاتی ہیں۔
تو پھر زمین کیوں نہ کانپیے۔ کیوں یہ پانی کے ریلے دنیا سے گندگی ختم کرنے کے لیے نہ آیئں۔
ضرورت صرف اسی امر کی نہیں ہے کہ سیلاب زدگان کی مدد کی جائے۔ شدید ضرورت اس دنیا کو مکافات کی شام سے بچانے کی بھی ہے۔
اگر آذانیں سنا کر بھی بارشیں نہیں رک رہی تو طریقہ بدل کر دیکھ لینا چاہیے۔
کچھ دن کرپشن، بدعنوانی کو کہیں چھوڑ آنا چاہیے۔ دس کی چیز بیس میں بیچنا ترک کرنا چاہیے ۔ اللہ کی رحمت حاصل کرنے اور اسکے غیض و غضب سے بچنے کے لیے توبہ اور استغفار کرنا چاہیے۔
اللہ عزوجل اس زمین پہ جہاں آدم علیہ السلام کو نائب بنا کر بھیجا گیا تھا ، بے انتہا ظلم و ستم دیکھ کر اپنا غیظ و غضب نازل کرکے پھر بندے سے پوچھتا ہے
“اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا” الانفطار:6
کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن کی سزا ، جزا ہمیں دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ آسانیاں پیدا کرنے والوں کو آسانیاں مل جاتی ہیں۔ گھڑے کھودنے والے خود ہی ان گھڑوں میں جا گرتے ہیں۔ کیونکہ دنیا داروں کا انصاف اندھا ہو سکتا ہے مگر توحید باری تعالیٰ کا عدل بے باک اور پورا پورا حساب کرنے والا ہے۔
سلاب زدگان کی مدد کے لئے گھر میں پڑی اضافی اور فضول چیزوں کو بھیک کی طرح امدادی سامان میں مت بھیجیں۔ یہ وقت نہیں ہے مفاد پرستی کا۔ اپنی ذات سے بالاتر ہو کر اب سوچنا پڑے گا۔ امدادی سامان کسی تنظیمی کارکنان کو جمع کروایئں۔ امداد کرنا ہی ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ بلکہ ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم دھیان رکھیں یہ سامان ضرورت مندوں تک پہنچ بھی پا رہا ہے یا نہیں۔
ایسے بچے جن کے والدین ان آفات میں جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ انکو یتیم خانوں میں رکھنے کی بجائے ان سے بے اولاد گھروں کو آباد کر دینا چاہیے۔
ہر فرد اگر اپنے حصے کا کام احسن طریقے سے ادا کرے تو معاشرہ بہت سی برائیوں سے بچ سکتا ہے۔ نجات کے لئے اعمال بھی نیک ہونے چاہیے۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہی ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا سکتی ہے۔
“اور (در حقیقت بات یہ ہے کہ)اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان میں موجود ہوں۔ اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب نازل فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں”۔ الانفال:33
دارالجزا تک پہنچنے سے پہلے دنیا کی کھیتی کو نیکیوں کی افزائش سے سرسبز کر لینا ہی بشر مومن کی صفت ہے۔
اللہ پاک ہمیں تمام ناگہانی آفات سے محفوظ رکھے۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ توبہ استغفار کریں۔ تاکہ رحمت الٰہی نازل ہو سکے۔ ہمارا یہ ملک ایک بار پھر سلامتی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
سوزِ قلم: صفا خالد
*************