Maqsad e zindagi article By Tuba Afreen

articles

    مقصد زندگی

از قلم طوبیٰ آفرین

آج میں نے ایک جگہ پڑھا تھا وہاں لکھا تھا زندگی ہے بڑی.. میں سوچ رہی کیا واقعی زندگی بڑی ہوتی ہے ….60 یا 70 سال کی زندگی ہوتی ہے یا پھر 100 سال کی …سوچا جائے تو یہ بہت سال ہوتے ہے مگر پھر بھی مجھے لگتا ہے زندگی بہت چھوٹی ہے ….پلک جھپکتے گزرجاتی ہے ۔ 60 ، 70 سالوں پر محیط زندگی ایک خواب ہوتا ہے بس ۔ دو دنیا کے درمیان ایک سفر اور یہ سفر کب تمام ہوئے پتہ بھی نہیں چلتا ۔ سانسیں کب رک جائے ، کب اس دارفانی سے رخصت ہوجائے ، گماں بھی نہیں ہوتا ۔ ہم سے محبت کرنے والے ہماری موت پر آنسوں بہاتے ہے کچھ دن بعد انھیں صبر آجاتاہے اور کچھ سالوں بعد ہمارا نام تک مٹ جاتا ہے یوں جیسے ہم دنیا میں آئے ہی نا تھے ۔ بچپن، جوانی ، بڑھاپا ہماری زندگی ان مراحل پر مشتمل ہوتی ہے ۔ بہت سی حسرتیں ہم اپنے دل میں چھپائے چلے جاتے ہے ۔ بچپن سے جوانی انسان شعور کی طرف قدم کا سفر اور جوانی سے بڑھاپا انسان کا تمام زندگی کے تجربات تک کا سفر۔ ہم دنیا میں آئے ، یہ ہماری سوچ ہے ۔ ہم دنیا میں آئے نہیں بیجھے گئے ہے ، کس لیے؟ کیا اتنی زندگی صرف اللّٰہ نے ہمیں عیش و عشرت کے لیے عطا کی ہے ۔ ہم پیدا ہوئے ، اپنا بچپن نادانی میں گزاردیا ، اپنی جوانی ایک اچھے لائف سٹائل کی خواہش میں نظر کردیا اور اپنا بڑھاپا دوسروں کی محتاجی پر ختم کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے اصل میں زندگی میں کیا کیا ؟ ہماری تمام تجربات سے گزرتی ہوئی زندگی میں ‘رب” کہاں ہے ؟ وہی رب جس نے ہمیں پیدا کیا ۔ جس کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے ، اور جو ہر چیز پر قادر ہے ، اگر وہ چاہیں تو ہمیں ایک ہی لمحے میں خاک کرسکتا ہے ۔ ہماری زندگی کو ایک ہی کن پر پلٹا کر رکھ سکتا ہے ۔

زندگی کیا چیز ہے کبھی سمجھ ہی نہیں آتی ۔ زندگی گزر جاتی ہے زندگی کو سمجھتے ہوئے اور آخر میں رہ جاتی ہے صرف خاک ۔

پیدا ہونے سے موت تک کا سفر زندگی کا سب سے مشکل سفر ہوتا ہے جو انسان طے کرتا ہے ایک لمبی مسافت جس میں کئی ہماری راہوں میں پھول بچھتے ہے تو کہی پتھروں سے ہمارے دل تک لہو لہان ہو جاتے ہے ۔

کیا ہے زندگی؟ کون سا سکون ہے اس میں جو لوگ موت کو بھول جاتے ہے ؟ یہ کیسا سکون ہے جو ہمیں ہمارے رب سے دور کر دیتا ہے کہ ہم اپنے تخلیق کرنے والے خدا کو فراموش کر بیٹھتے ہے ؟ زندگی کی آسائشوں کا لطف اٹھانا کیا واقعی سکون ہے ؟ کیا ہم جیسے سکون کہتے ہے وہ واقعی سکون ہے ؟ کیا صرف زندگی کے نشیب و فراز سے گزرنا ہی زندگی ہے ؟ کیا ہے پھر زندگی؟ کیوں ہمارے لئے اتنی قیمتی ہے یہ؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے ہم جسے زندگی کہتے ہے وہ واقعی زندگی ہے کہ نہیں ؟ نہیں نا ! ہم سوچے بھی کیسے ؟ ہماری سوچوں پر تو دنیا کی رنگینیوں کا ایسا خمار چھایا ہوا ہے جس کے نشے میں چور ہوکر ہم نے خالق کائنات کی تخلیقات پر غور کرنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔ ہم تو  خواہشات کے ایسے پجاری  بن چکے ہے کہ خواہشات کے نا مکمل ہونے پر اس رب سے شکوہ کرنے بیٹھ جاتے ہے جس رب کو ہم نے دنیا کی رنگینیوں میں ایسے بھلائے ہے اگر وہیں رب ہم سے ہماری کوتاہیوں پر پردہ پوشی کرنے کے بجائے ہمارے گناہوں کو لوگوں میں عیاں کرنے لگے تو زمین بھی ہمیں پناہ نہ نہ دے ۔ہم نے خود کو دنیا کی رنگینیوں میں اتنا مدہوش کرلیا ہے کہ ہم اپنا مقصد بھول گئے ہے ، ہم اللّٰہ کو بھولتے جا رہے ہیں۔ ہم نے اس عارضی دنیا کو اپنا سب کچھ مان لیا ہے ۔ کیوں ؟ ہم نے حرام اور حلال میں فرق کرنا چھوڑ دیے ہے ۔ ہم نے کامیابی اور شہرت حاصل کرنے کے لالچ میں اپنا سب کچھ اس میں جھونکنے جارہے ہے ۔ ہمارا ایمان مکمل طور پر ڈگمگا چکا ہے ۔ کیونکہ ہم نے اس کتاب کو بھلادیا ہے جو ہمارے لئے دینی اور دنیاوی دونوں جہان میں کامیابی کا باعث ہے ۔ اللّٰہ نے قرآن میں خود فرمایا ہے “اور حقیقی زندگی عالم آخرت ہے ” پھر بھی ہم نے اس فانی زندگی کو حقیقی مان لیا ہے ۔ بیشک ہم نے اپنے لیے ایک بہت بڑا خسارہ کا انتخاب کیا ہے اس دنیاکی رنگینیوں میں ڈوب کر۔

اس سے پہلے کے مٹی کا بدن خاک بنے

اٹھ کر مصلے پر جوانی رکھ دو

ہمیں لوٹنا تو اس رب کی طرف ہی ہے جس نے ہمیں تخلیق کیا جس نے ہمیں عروج بخشا اور بیشک ہمارے زوال پر بھی وہی قادر ہے ۔ بہتر نہیں ہے کہ ہم اپنا مقصد زندگی یاد رکھے …… بیشک “دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے ” نکل آئے اس دھوکے کی زندگی میں سے ، کچھ بھی نہیں اس زندگی میں سوائے ایک سراب کے ۔ اور سراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے انسان ہمیشہ تہی دامن رہ جاتا ہے ۔ انسان کی پستی اس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ وہ اپنی ابتدا بھول گیا اور شخص کی انتہا کیا ہوگی پھر ؟ نچوڑ یہ ہے کہ اپنا مقصد زندگی اس رب کو بنائے جس پر ہم یقین رکھتے ہے اور جس کے صحیح راستے سے ہم بھٹک گئے ہے بیشک اللّٰہ بہترین ہدایت دینے والا ہے ۔

.

*************

One thought on “Maqsad e zindagi article By Tuba Afreen

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *