Pachtawa by Talha Ahmed

موضوع :پچھتاوا
مصنف:طلحہ احمد

میں اپنے کھیت کی اُس مٹی کی خوشبو کو آج بھی محسوس کرسکتا ہوں۔جس مٹی سے میں کبھی بے زار ہوا کرتا تھا۔مگر افسوس آج میں اپنے گاٶں کی اُس میٹھی مٹی کی خوشبو سے کوسوں دوُر ہوں۔
مجھے اپنے والدین کی صحبت میں گُزرے وہ بُرے دن آج بہت یاد آتے۔ اور یہ احساس میری پسلیوں کے پیچھے موجود ایک گوشت کے ٹکڑے پہ مسلسل دستک دیتا ہے۔ اور مجھے بتاتا ہےکے وہ بُرے نہیں بلکہ وہ ایسےشیریں دن تھے کے جس کی شفا بھری مٹھاس پوری کرنے کیلیے ایک مکھی کی ساری زندگی مشقت میں گزر جاتی ہے۔مگر اب افسوس کرنے کے سوا کوٸی اور حل باقی نہیں ہے۔کیونکہ اب نا تو موسی آۓ گا۔اور نا ہی دریا میں راستہ بنے گا۔ ہاۓ حسرت ابا جی کی وہ لذیذ گالیاں۔
آج میں بہت امیر ہوں۔میں اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر مہنگی مہنگی مختلف اقسام کی شراب بھی پیتا ہوں۔
مگر قسم اُس پیدا کرنے والے کی جس کے احکامات کی شراب پیتے ہُوۓ میں کبھی پاسداری نہیں رکھتا۔اور گُناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہوں۔
شراب بھی وہ نشہ نہیں دیتی ۔ (حالانکہ حرام کام میں بہت لزت ہوتی ہے)۔ جو سرور اباجی کی چوری سگریٹ اُٹھا کر سلگانے میں آتا تھا۔
میں خواہشات کی تکمیل کیلیے اتنا آگے نکل گیا ہوں۔ کہ میری منزل بھی اب مجھ سے کافی پیچھے ہے۔ میں اتنا تیز بھاگا ۔ اور بھاگتا بھی کیسے نا میں جوان اور تندرست جو تھا۔کبھی ایک شہر تو کبھی دوُسرے۔الگ الگ طرح کی خواہشات اور الگ الگ منصوبے ۔ مجھے ہمیشہ پینڈو ہونا ایک گالی محسوس ہوتی تھی۔
اور آج میرے پاس کس چیز کی کمی ہے۔بینک بیلنس گاڑی شہرت سب کچھ تو میں نے حاصل کر لیا ہے۔
بس میں بلڈ پریشر شوگر اور کٸی طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوں ۔ مجھے آج بھی وہ کھوٸ ہوٸ تندرستی نہیں مل رہی ہے۔
آج میری عمر تقریباً اسی برس ہے ۔ میرے بیٹے میری بیٹیاں سب بہت کامیاب ہیں۔ حتٰکہ میرے بچوں کے بچے بھی کامیابیوں کی سیڑ ھیاں چڑھ کر آسمان کی بلندیوں کو چُھو رہے ہیں۔
اور اب مجھے احساس ہوتاہے۔ یہ میری زندگی جس کی مثال اُس پانی کی سی ہے جس پانی کا ایک قطرہ دوران ٕ بارش میری انگلی پہ کبھی ٹپکا ہو گا۔
اب میری زندگی ختم ہونے کو ہے۔ آج میں دُنیاوی کامیابیوں سے بھرا بس وہ پانی کا قطرہ ہوں۔
بلکہ عمر کے اس حصے میں پہنچ کر مجھے خیال آتا ہے۔ میری تو پیداٸش ہی اُس قطرے سے ہے۔ جو قطرہ اگر میرے کپڑوں پہ گر جاۓ تو میں خود کو ناپاک پاتا ہوں
مجھے ایک اور خیال بھی آتا ہے ۔اُس دوسری زندگی کا جو کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے۔ کیا پتا شاید ابھی اگلے ہی لمحے شروع ہو جاۓ۔
وہ زندگی کہ جس کی مثال دنیا میں موجود تمام پانیوں کی ہے۔جس کی گہراٸ کا مجھے اندازہ ہی نہیں ۔اور ہر ہونے والی نٸ بارش اِن گہراٸیوں کو بڑھاتی چلی جا رہی ہے۔
مجھے دو راستے دیے گۓ تھے۔جس راستے پہ جانے سے منع کیا۔اسی راستے پہ دوڑ کر میں ہر ریس جیتا ہوں۔
عمر کے اس حصے میں پہنچ کر مجھے بار بار احساس ہوتا ہے ۔اب جبکہ اتنی کامیابیوں کے بعد بھی میں ناکارہ ہو چکا ہوں۔
کاش میں کبھی اپنی زندگی کے اُس پہلے دور سے آگے نا بڑھ پاتا۔ کاش یہ اسی سال میں ایک محدود داٸرے میں رہ کر گزار دیتا۔آج میرے کٸ چھوٹے چھوٹے صغیرہ گناہ ہوتے۔
اب تو مجھے صرف اس پیدا کرنے والے قہار اور جبار سے امید ہے اور میری امید بھی میرے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ کیونکہ میرے عمل نے اُسے میرے لیے جبار بنایا ہے۔
مگر میں امید کا دامن نہیں چھوڑوں گا۔شاید یہ زندگی کے بقیہ کچھ لمحات کی امید اُسے میرے لیے رحمن اور رحیم بنادے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *