عنوان۔ قربانی
تحریر۔ کرن احمد (اٹک)
قصہ کچھ عجیب ہے کہ ایک شخص کو دعا مانگتے ساٹھ سال کا عرصہ بیت جاتا ہے۔دعا کی جاتی ہے کہ اے میرے پیارے رب مجھے نیک اور صالحہ اولاد عطا کی جائے ۔اور دعا کی قبولیت ہوتی ہے چوراسی سال کی عمر میں۔شدت سے مانگی گئی بڑھاپے کی محبوب اولاد ۔اور پھر حکم ربی ہوتا کہ اے میرے نبی اسے میری راہ میں قربان کر دو ۔ایک طرف محبوب رب کی آزمائش اور دوسری طرف وہ اولاد جسے مانگتے ہوئے زبان کپکپانے لگی۔بحکم خداوند ی کو پورا کرنے کے لئے حضرت ابرہیم علیہ السلام نے فلسطین سے مکہ تک کا گھٹن اور مشکل سفر طے کیا۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منی کی وادی میں لائے ۔اور بیٹے کو کہا کہ آپ کو اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا ہے ۔اور بیٹا یہ جواب دیتا ہے کہ جو آپ کے رب کی رضاھے وہ ہی میری رضا۔دونوں کے دل میں اپنے حقیقی مالک کے لئے تڑپ اور عشق تھا جسکا ثبوت وہ اپنے عمل سے دینے جا رہے تھے ۔حضرت ابرہیم علیہ السلام نے چھری بیٹے کی گردن پر رکھی اور تاریخی الفاظ کہے جن کی گردش آج بھی ہوا کی لہروں میں سرایت کرتی محسوس ہوتی ہے ۔حضرت ابرہیم علیہ السلام نے نگاہ آسمان کی جانب اٹھائی اور فرمایا اے میرے رب بیشک تیری آزمائش کڑی ہے لیکن یہ مت سمجھنا کہ اسماعیل کی محبت تیری محبت پر غالب آ گئی ہے۔ میرے رب مجھ سے راضی رہنا یہ کہتےساتھ ہی چھری چلا دی۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اللّٰہ پاک نے چھترا بھیج دیا اور یوں چھترے کی قربانی ہو گئی۔یہاں حضرت ابرہیم علیہ السلام امتحان میں کامیاب ہو گئے اور اپنے عمل سے سے ثابت کر دیا کہ محبوب کی آزمائش ہمیشہ سخت ہوا کرتی ہے ۔قربانی عربی زبان کے لفظ قربان سے نکلا ہے ۔قربان کہتے ہیں ہر وہ عمل جو اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کیا جائے ۔ویسے تو ساری عبادات اللّہ پاک کی رضا اور خوشنودی کے لئے کی جاتی ہیں لیکن اس عبادت میں انسان کی عقل حکمت اور مصلحت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔قربانی دس گیارہ اور بارہ ذالحجہ کو ہی کی جا سکتی ہے ۔اس کے بعد اگر کوئی قربانی کرے گا تو وہ بھی صدقات میں شامل ہو گی اسے قربانی نہیں کہا جا سکتا ۔ہر سال لوگ اپنی استطاعت کے مطابق مختلف جانور ذبح کرکے سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔قربانی کے جانوروں میں اونٹ، گائے، بیل،بکرا،بکری ،چھترا اور دنبہ وغیرہ شامل ہیں ۔واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں قربانی کے جانور کی قربانی درست ہونے کے لئے ان کے لئے ایک خاص عمر تعین ہے۔ یعنی بکرا ،بکری کی عمر ایک سال ہو ۔اونٹ کی عمر پانچ سال ہو ۔گائے ،بیل اور بھینس کی عمر دو سال ہو ۔البتہ دنبہ یا بھیڑ ایک سال سے کم ہو اور اتنا فربہ ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ۔تمام جانوروں کی عمریں اس سے کم نہ ہوں ورنہ قربانی جائز نہیں ۔زیادہ عمر ہوتو بہتر ہے ۔قربانی کا عمل اتنا زبردست ہے کہ جو کرے وہ ہی پائے ۔قربانی کی ایک فضیلت تو یہ ہے کہ جیسے ہی قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرے گا اللّٰہ پاک قربانی کرنے والے شخص کی بخشش فرما دے گا۔افضل عمل ہے کہ جس نے قربانی کی نیت کی ہو ذالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ تراشے ۔بلکہ قربانی ہونے کے بعد کاٹے جائیں تاکہ ان بالوں اور ناخنوں کی بخشش ہو سکے ۔اگر کوئی شخص قربانی کی استطاعت نہیں رکھتا تو وہ یہ عمل کرے تو اسے قائم مقام قربانی کا اجر ملے گا۔یہاں پر امیر غریب دونوں کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے ۔بہتر تو یہ ہے کہ قربانی کرنے والا شخص جانور کی قربانی ہوتے وقت اسکے پاس موجود ہو ۔اگر نہیں بھی ہوتا تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔لیکن سامنے کے اجر اور بخششِ کا معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔قربانی کے لئے جانور صحت مند ہونا چاہیے اور اعضاء کا پورا ہونا بھی ضروری ہے ۔کہا یہ جاتا ہے کہ اگر قربانی کے جانور کے کان چاول کے دانے کے برابر کٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں ۔جانور بے عیب ہونا ضروری ہے ۔قربانی کے جانور کے جسم پر جتنے بال ہوں گے ہر بال کے بدلے ایک نیکی عطا کی جائے گی ۔
حدیث میں ہے کہ کھاؤ بھی اور جمع بھی کر کے رکھو ۔
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ قربانی کا سارا گوشت خود رکھ لیا جائے ۔ غریبوں ، مسکینوں اور یتیموں کو بالکل نہ دیا جائے ۔اس سے قربانی کا اصل مقصد پورا نہیں ہوتا ۔قربانی کا گوشت کوئی عام گوشت نہیں بلکہ خاص الخاص ہے ۔دنیا میں جتنی بھی کھانے کی اشیاء ہیں قربانی کا گوشت سب سے اعلیٰ غذا ہے ۔
.
*************