Sailabi tabahi aur hamara kirdar article by Shaneela Jabeen Zahidi

articles

“سیلابی تباہی اور ہمارا کردار “

کالم نگار ، مذہبی سکالر

شنیلہ جبین زاہدی

درد کی کیسی یہ ہوا چلی ہے ، ہر طرف ایک آہ و بقاہ ، کلیجے اندر سے پھٹے ہوئے  ، روح کانپی ہوئی اور زندگی سہمی ہوئی سی ہے ۔ ارض وطن یک بعد دیگرے کئی طوفاں سے نبرد آزما ہے ۔  ابھی 2005 ء کے زلزلے سے سنبھل نہیں پائے کہ 2019 ء میں covid کی لپٹ میں آگئے ، ابھی وہ سہہ نہیں پائے کہ 2021 ء میں برف باری کے باعث ہمارے اپنے پیارے بروقت امداد نہ پہنچنے کی وجہ سے گاڑیوں میں ہی ابدی نیند سو گئے۔ 2022 ء میں رہتی تباہی  سیلابی ریلے نے پوری کر دی۔ چاروں عالم  ایک قیامت سی برپا ہے ،   میں کیسے وہ الم بیان کروں کہ میرا ملک ڈوب رہا ہے ، میرے لوگ مر رہے ہیں ۔ بچے اپنی ماؤں کی گود ویران کئے پانی کی نذر ہوگئے ، میری روح کانپ گئی جب ایک بچی کو کیچڑ سے نکالا جا رہا تھا اور جو شاید اسی وقت دنیا میں آئی تھی اور پانی بہا کر ماں کو کہیں لے گیا اور بچی کو کہیں لے گیا ۔ ان بچوں کی آہ و بقاہ  سینہ چیر رہی ہے کہ جو صبح سکول گئے اور واپسی پہ نہ گھر تھے نہ گھر والے ۔ کیسی تکلیف اور کیسا درد تھا ان آنکھوں میں ۔ جب مال مویشی پال کر زندگی کی گزر اوقات کرنے والوں کے سامنے ان کے مویشی پانی میں بہہ گئے ۔

ہائے وہ ایک باپ کا ٹوٹتا لہجہ ، جب وہ اپنی بیٹی سے کہہ رہا تھا کہ جلدی نکلو پانی آگیا ۔جس باپ نے پوری زندگی گرمی کی دوپہر کاٹ کر جہیز تیار کیا ، کیسے کیسے ارمان ، امنگیں ، جذبے ، امیدیں ، زندگیاں،  ایک پل میں بہہ گئے ۔ 

اسے قسمت کی ستم ظریفی کہوں یا اپنوں کے ہاتھوں لگے لاپرواہی کے نتیجے میں بھگتنے والے کچوکے ۔ جہنیں دنیاوی جاہ  و حشمت اور اقتدار نے اتنا اندھا اور بہرہ کردیا کہ ارض وطن کی بحالی کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں گیا ۔ غریبوں کی بستیاں اور ہستیاں دونوں لمحوں میں تباہ ہوگئیں ۔ کھڑی تیار فصلیں کوئی آیا اور اک لمحے میں تباہ کر گیا ۔

**میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے****  

با نظر غائر اگر اک اک چیز کا مشاہدہ کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہم خدا ناراض کر بیٹھے ہیں۔ کیونکہ بحیثیت ایک مسلمان اس بات پر ایمان کامل ہونا چاہئے کہ قرآن کی بات کو حق مانا جائے ۔ جو کہ کہتا ہے کہ تم سے پہلی امتوں پر انکی نافرمانی کی وجہ سے عذاب نازل ہوتے رہے ہیں ۔ اللہ کے حکم کے بغیر ایک پتے کو بھی طاقت جنبش نہیں ۔ کیسے ممکن ہے کہ پھر اتنی بڑی تباہی بغیر اس کے حکم کے آگئی ۔ تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھیں تو عقل کی ناتوانی میں کچھ سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو۔

سیلاب کے اسباب میں اس بات پر تو کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ان قدرتی آفات میں سے ہے جنھیں روکنا کسی کے بس میں نہیں، البتہ اس کے نقصانات کو کم سے کم  کرنے کے لیے تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں ۔پاکستان میں ان نقصانات کو کم کرنے کے لیے جو تدابیر اختیار کی جانی چاہییں تھیں یا اختیار کی جا سکتی تھیں، وہ بروقت اختیار نہیں کی گئیں۔ لیکن اسباب سے آگے مسبب الاسباب کی طرف کم لوگوں کی توجہ جا رہی ہے جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔

جو اس کا شکار ہوگئے وہ تو اللہ کے حضور آہ و فغاں کرتے مالک کو ننگے سر  کھلی زمین پہ پکار رہے ہیں ۔ لیکن جو اس آفت سے بچ گئے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ مادیت پرستی سے نکل کر اس طرف دھیان کریں کہ اللہ نے کھلی آنکھوں سے تمہیں وہ سب دکھا دیا جو تم بھلائے بیٹھے ہو ۔ ابھی توبہ کا دروازہ تم پر بند نہیں ہوا ۔ کیونکہ پہلی امتوں پر عذاب کے وقت توبہ کا دروازہ بند کر دیا جاتا تھا ۔

ان بھائیوں کی مدد کریں جنکو اس مشکل اور درد کے لمحات میں ہماری ضرورت ہے ۔ جو ایک وقت کی روٹی کےلئے ترس رہے ہیں ۔ دل کھول کر انکی امداد کیجئے ۔ کیونکہ میں نے مطالعہ کیا تو میرے مشاہدے میں یہ حدیث مبارکہ آئی کہ

“”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی مومن کی دنیا کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کردی، اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور کردے گا۔۔ جس نے کسی تنگ دست پر آسانی کی، اللہ اس پر دنیا وآخرت میں آسانی کرے گا۔”””#

آج دنیا میں اپنے بہن بھائیوں کی مدد کریں کل حشر میں خدا اسکا خود اجر دیگا ۔ اس بات سے بالاتر ہوکر سوچئے کہ آپکی امداد ان تک پہنچ پائے گی کہ نہیں ۔ اللہ کے ہاں ہمیشہ نیتیں تلتی ہیں آپ اپنا قدم بڑھائیں ۔

ہمیں  وہ بچہ  سبق دے گیا کہ خود سارا دن کچرا اٹھا اٹھا کر پیسے جمع کیئے ۔ لیکن جب سیلاب زدگان کے لیئے امدادی کیمپ لگا تو یہ اس چھوٹے پرندے ابابیل کی طرح 10 کا نوٹ اس باکس میں ڈال رہا ہے ۔
یاد رہے ابابیل سب سے چھوٹا پرندہ ہے لیکن قدر و منزلت میں خدا کے ہاں بہت مقبول ہے ۔ کہ جب ظالموں نے کعبہ پہ لشکر کشی تو اس کا غول بھیج کر رب نے ہاتھی کے لشکر کو نیست و نابود کر دیا ۔ جب اللہ کے خلیل کو جلانے کےلئے نمرود نے آگ جلائی تو یہی پرندہ اپنی چونچ میں پانی بھر لایا ۔ کسی کے سوال کے جواب میں ابابیل نے کہا کہ میرے پانی سے یہ آگ تو نہ بجھ سکے گی لیکن کل قیامت کے دن مجھے اللہ اپنے خلیل کے مددگاروں میں ضرور اٹھائے گا ۔
آئیے اور ابابیل کا کردار ادا کیجئے ۔ جس طرح سے ہوسکے انکی مدد کریں ۔ کچھ نہ ہوسکے تو فقط انکے لئے ہاتھ اٹھا دیں اور اللہ سے التجاء کریں ۔ اللہ اس ملک عزیز کی خیر فرمائے ۔ قائد کے ملک کو ہر آن امان نصیب ہو ۔ اس ملک کے لوگوں میں وہ جذباء  ایمانی پیدا ہو کہ وہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں ۔

حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے لئے ایک قدم چل کر اس کی مدد کے لیے جاتا ہے تو وہ مسجد نبوی میں پورا مہینہ اعتکاف کرنے سے زیادہ افضل ہے۔

حکومت وقت سے بھی میری اپیل ہے کہ خدارا چھوڑیں ان طاقتوں اور جاہ حشمت کے چکروں کو،  اور اس ملک کے اس غریب طبقے کی طرف غور کریں جو کھلے آسمان تلے بے آسرا پڑے ہیں ۔ ان کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائیں ورنہ یہ بات یاد رکھیں کہ اگر 22 مربع میل کے حکمران عمر فاروق سے باز پرس ہوسکتی ہے تو آپ کس مغالطے میں ہیں ۔ جو دریا کنارے بکری کا بچہ مر جانے کی وجہ سے رب کے آگے کھڑے ہونے سے ڈر رہے تھے ۔ ایک دفعہ نظر اپنے ضمیروں کی طرف بھی ڈالئے کہ کیا ابھی وہ حیات ہیں ۔ اگر وہ ابھی زندہ ہوں تو سنئے ان لوگوں کی فریاد جو سسک سسک کے کہہ رہے ہیں ۔

مال ، مویشی ، ڈنگر رڑ گئے 
کھرلی، کھونٹے، چھپر رڑ گئے

 ٹٹ گئے کاواں، چڑیاں دے گھر
 ٹاہلی ، بیری ، ککر رڑ گئے

 پنڈدی وڈی مسیت ڈیہہ گئی 
 دریاں، پارے ، منبر رڑ گئے

 دھی دے ویاہ لئی سانبھے
بالن، بکسے ، بستر رڑ گئے 

 کیہہ دساں نقصان دا مل 
 ہیریاں ورگے پتر رڑ گئے

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *