Shadoly shah ki chuhy koun article by Anwar Sultana

articles

شادولے شاہ کی چوہے کون؟

قلم نگار :انورسلطانہ

آپ نے اکثر اوقات اپنے گلی محلے میں چھوٹے سر والے بچوں کو بھیک مانگتے دیکھا ہوگا ؟کیا آپ ان کو دیکھ کر ڈر جاتے  ہیں؟ہمارے والدین ہمیں کہتے ہیں کہ بیٹا ان کو انکار مت کر نا کیونکہ ان کی بددعا نہیں لینی چاہیےلیکن ہم نے  کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ بچے کون ہیں؟کہاں سے آتے ہیں؟ اور ان کے سر کے چھوٹے ہونے کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

دراصل میں بھی ان چھوٹے سر والے بچوں یعنی جن کو شادولے شاہ کے چوہے کہا جاتا ہے ،ان کی تاریخ سے واقف نہ تھی لیکن ایک دن ان کو دیکھا تو ان کی تاریخ جاننے کی جستجو ہوئی تو پھر کیا ؟گوگل کھولا اور ان کے بارے میں پڑھنا شروع کیا اور پتہ چلا کہ ضلع گجرات  میں ایک مزار ہے جہا ںجو خاندان بے اولاد ہوتا ہے یا اولاد ہوتی ہے اور مر جاتی ہے وہ مزار پر منت مانتے ہیں اور مراد بھر آنے پر اپنی پہلی اولاد  کو وہاں چھوڑ آتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ شاہ دولہ کے مزار پر منت ماننے والوں کے ہاں جو پہلا بچہ یا بچی پیدا ہوتا ہے وہ ذہنی طور پر تقریباً معذور ہوتا ہے، اس کا سر بالکل چھوٹا ہوتا ہے جبکہ شکل چوہوں سے ملتی جلتی ہے اور اگر کوئی عورت منت پوری ہونے کے بعد اپنی پہلی اولاد کو اس مزار کی نذر نہ کرے تو پھر ساری عمر اس عورت کے ہاں ایسے ہی بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہے اور  حقیقت یہ ہے کہ جو والدین کم علمی یا کمزور عقیدے کے سبب اپنے بچوں کو بطورِ عقیدت مزار پر موجود بھکاری مافیا کے حوالے کر دیتے ہیں وہ ایسے بچوں کے سروں پر ایک مخصوص ٹوپی نما شکنجہ چڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے سروں کی نشوونما رُک جاتی ہے بلکہ ان کی دماغی اور جسمانی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے اور پھر یہ بچے رفتہ رفتہ ذہنی طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ ان بچوں کی زندگی کا مقصد کیا رہ جاتا ہے؟یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے آگے جا کر نہ صرف اپنے والدین بلکہ ملک کا مستقبل بہتر بنانا تھالیکن  اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد  ہوتاہے جو کہ بھیک مانگنا، کھانا اور پھر بھیک مانگنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہتے اور نہ ہی زندگی کی بھاگ دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ساٹھ کے عشرے میں حکومت نے یہ مزار سرکاری تحویل میں لے کر یہاں ایسے بچے لینے پر پابندی لگا دی تھی لیکن شاہ دولہ کے مزار پر آج بھی ایسے بچوں کی کثرت سے موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ بھکاری آقاؤں کے ہاتھوں نہ صرف یہ کاروبار عروج پر ہے بلکہ اُنہوں نے اس حوالے سے توہمات کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق آج بھی شاہ دولہ کے مزار کے ساتھ 10 ہزار بچے موجود ہیں…… جو بھیک منگوانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان بچوں کا کوئی والی وارث نہیں۔ یہ مزار کی ملکیت ہیں۔ یہ بچے نہ کوئی سوچ رکھتے ہیں…… اور نہ ان کی اپنی کوئی مرضی ہی ہوتی ہے۔ چوں کہ دماغ میکینکل طریقے سے ناکارہ کیا جاتا ہے……

 پاکستان میں بھکاری مافیا شاہ دولہ کے چوہوں کا استحصال کرتے ہوئے نہ صرف ان سے شہر شہر، گاؤں گاؤں بھیک منگواتا ہے بلکہ پیشہ ور بھکاری اِن چوہوں کو ماہانہ ٹھیکوں پر بھی لے جاتے ہیں اور تو اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا باقاعدہ کنٹریکٹ ہوتا ہے اور پھر جب کنٹریکٹ کی مدت ختم ہو جاتی ہے تو انہیں واپس دربار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔         

یہ انسانیت سے گری ہوئی مافیا ان معصوم بچوں اور بچیوں کا ساری عمراستعمال محض اپنا کاروبار چلانے کے لیے کرتی ہے۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ذہنوں سے اس نظریے کو ختم کریں کہ پہلا بچہ منت پوری کر نے کے لیے ان کے مزار پر چھوڑ کر آئیں۔۔۔پیر،فقیراور دربار یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے بہت بڑے وسیلے ہیں ان  کے بارے میں خود سے عقائداور نظریات کے قیام سے پرہیز کریں ۔۔ان کے مزاروں پر ضرور جائیں ،فاتحہ خوانی کریں مگر اس قسم کی منت ومرادوں  سے پرہیز کریں ۔

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *