Social media (positive aspect)
Topic:
السلام علیکم!امید ہے سب خیریت سے ہوں گے۔تو آئیں آج روشنی ڈالتے ہیں سوشل میڈیا کے کچھ مثبت پہلوؤں پر۔جی جہاں سوشل میڈیا کے بے شمار نقصانات ہیں وہی پر اس کے بے شمار فوائد بھی ہیں ۔بیشک جو بھی نئی چیز ایجاد ہوتی ہے وہ اپنے ساتھ مثبت اور منفی دونوں پہلو لے کر آتی ہے اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس کا استعمال کیسے کرتا ہے اور اسے اپنے استعمال سے اچھا بناتا ہے یا برا۔یاد رہے کہ کوئی چیز یا کوئی انسان اچھا برا نہیں ہوتا بس اس چیز کا استعمال اور انسان کے اعمال اسے اچھا یا برا بنا دیتے ہیں۔سوشل میڈیا جس کی طرف ہر ایک کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے چاہے وہ کوئی بھی ذریعہ ہو۔۔۔ انسٹاگرام ،ٹویٹر،فیس بک۔۔۔۔ لوگ مشینی زندگی سے نکل کر سہولت کی طرف جانا چاہتے ہیں اور جا رہے ہیں۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آن لائن بزنس کے ذریعے گھر بیٹھے لاکھوں کما رہے ہیں۔اور ان کو کسٹمرز کی تلاش میں جابجا بھٹکنا نہیں پڑتا وہ اپنے فیس بک، انسٹاگرام اور دوسرے سوشل میڈیا کے ذرائع سے اپنے کسٹمرز کو تلاش کرتے ہیں اور انہیں گھر بیٹھے ہر قسم کی معلومات مہیا کرتے ہیں ۔نہ صرف معلومات بلکہ آن لائن بزنس سے کسٹمرز کا آرڈر ان کے گھر تک پارسل کر دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ میں یہاں اپنی ان بہنوں کی بات کرنا چاہوں گی جو دیہاتی علاقوں میں رہنے کی وجہ سے باہر نکل کر جاب نہیں کر سکتیں،نہ ہی انہیں گھر سے باہر نکل کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور اگر چند بہنوں کو اجازت مل بھی جائے تو ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ شہر میں آکر اپنی تعلیم حاصل کر سکیں یا کوئی جاب کر کے اپنے والدین یا خاوند کا ہاتھ بٹا سکیں تو ان کے لیے سوشل میڈیا نے بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔بے شمار چینلز یوٹیوب پر تعلیم دیتے ہیں اس کے علاوہ آن لائن جابز وغیرہ ان سب نے انسان کی زندگی کو کافی حد تک آسان بنا دیا ہے۔
اب اگر بات کی جائے تعلیم کی تو دنیاوی تعلیم کے لیے تو والدین اپنی اولاد کو ہر سہولت مہیا کر دیتے ہیں اچھے سے اچھا اسکول،کالج،یونیورسٹی اور گھر میں ٹیوٹرز مگر بات جب دینی تعلیم کی آتی ہے تو کسی کو مدرسے سے مسئلہ ہوتا ہے تو کسی کو ان سیکیورٹی یاد آ جاتی ہے۔۔۔اس لیے ان لوگوں کے لیے بھی دینی تعلیم حاصل کرنا اب مشکل نہیں رہا ۔سوشل میڈیا کے ذریعے ہر قسم کی دینی تعلیم ،ہر قسم کے روز مرّہ کے مسائل بچے ، بچیاں اور خواتین و حضرات گھر بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں یہ سب سہولیات فراہم ہیں ورنہ قربان جائیں صحابہ کرام (رضوان اللہ اجمعین)اور تابعین پر کہ جو ایک ایک حدیث کی تلاش میں کئی دنوں کا سفر طے کر کے ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے۔ہم اگر سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں اور فضول کی ویڈیو گیمز ،میمز اور دوسروں کی پوسٹس پر کمنٹس اور انکو طعنے دینے کی بجائے اپنی اصلاح کے لیے دین کا کچھ علم سیکھ لیں تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے گی۔
جیسا کہ میں نے ذکر کیا انسان کے بس میں ہے چیزوں کے استعمال کو اچھا یا برا کرنا تو اسی سلسلے میں حدیث مبارکہ ہے:
“إن الله لا ينظر إلى صوركم وأموالكم ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم”
ترجمہ:
“بیشک اللّٰہ پاک تمھاری صورتوں اور اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔”
اس حدیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں واضح الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اللّٰہ پاک انسان کو اس کے عمل اور دل سے جانتا ہے۔یہاں عمل کے ساتھ دل کا ذکر ہوا جس سے مراد نیت ہے کہ انسان پہلے دل کی سنتا ہے نیت کرتا ہے پھر ہی عمل کرتا ہے تو جس انسان کی نیت اچھی ہو گی اس کا عمل بھی اچھا ہو گا۔
حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ:
“ان الاعمال بالنیات”
ترجمہ:
“بیشک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔” ان احادیثِ مبارکہ کو یہاں ذکر کرنے کا میرا مقصد اپنی بات کو تقویت دینا تھا کہ سوشل میڈیا کو ہم کیسے استعمال کرتے ہیں یہ ہماری نیتوں پر ہے اس میں ان ایپس کا کوئی ہاتھ نہیں۔
یہاں میں آپ کو سوشل میڈیا کا ایک اور فائدہ بتاتے ہوئے ایک واقع بتانا چاہوں گی ایک لڑکی (جنھیں میں جانتی ہوں) اپنی ذندگی کی مشکلات سے تنگ آکر ڈپریشن میں جا چکی تھی۔وہ اپنے دل کا حال کبھی کسی دوست سے ڈسکس نہ کرتی کہ کیا پتہ انسان کب بدل جائے اور اگلے بندے کے سارے راز اگل دے ۔یا شاید اسے ڈر یہ تھا کہ اپنی زندگی کی مشکلات وہ کسی قریبی کو بتا کر پھر اس کا سامنا کیسے کرے گی وہ کسی کو کمزور بن کے نہیں دکھانا چاہتی تھی ۔مگر اس کا نقصان اسے خود کو ہی ہو رہا تھا دن بدن وہ ڈپریشن میں جا رہی تھی اور اس کو دلی سکون بھی میسر نہیں تھا کہ دل کا بوجھ جو ہلکا نہیں تھا ۔ایک دن اس کی کسی پوسٹ کے کمینٹ پر ہی ایک لڑکی سے بات چیت شروع ہوئی۔پہلے تو رسماً سلام دعا سے بات کا آغاز ہوا مگر پتہ ہی نہ چلا کہ یہ راسماً سلام دعا کب گہری دوستی میں بدل گئی اور اس لڑکی نے آخر کار فیصلہ کر ہی لیا کہ اب میں اپنی زندگی کی آپ بیتی اس دوست سے ڈسکس ضرور کروں گی ۔اور اس دوست کا سامنا ہونے کا ڈر بھی نہ ہو گا جس سے وہ خود کو کمزور سمجھ پاتی۔اس نے اپنا سارا حال احوال اپنی دوست کو سنایا اور کسی طرح اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا ۔اس کی پریشانی تو دور نہ ہوئی مگر دلاسے کے چند جملے اسے پرسکون ضرور کر گئے تھے۔اب جب بھی وہ پریشان ہوتی اپنے اللّٰہ عزوجل کے بعد اپنی پریشانی اپنی دوست سے شئیر کر کے اسے سکون ضرور مل جاتا ۔اسی طرح وہ لڑکی بھی آہستہ آہستہ ڈپریشن سے نکلنے میں کامیاب ہو گئ۔
یہاں میں بس یہ کہنا چاہوں گی کہ کچھ آن لائن دوست بھی قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے ہماری زندگی کا خوبصورت حصّہ بن جاتے ہیں اور یہ سب ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ملتے ہیں ۔میرے نزدیک تو اس سے بڑھ کر مثبت پہلو کوئی نہیں ہو سکتا۔
بہت سے لوگوں کو میری بات سے اختلاف ہو گا اور آپ صحیح بھی ہوں گے مگر میں نے یہاں اپنے نقطٔہ نظر سے اپنے ٹاپک کو واضح کرنے کی ایک ناکام سی کوشش کی ہے ۔
اگر کسی کو میری کوئی بات بری لگے تو معذرت خواہ ہوں۔معاف کر دیجیۓ گا ۔دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔فی امان اللّٰہ۔
.
*************