زندگی کیا ہے؟؟
از قلم :رئیسہ صدیق
ویلیم شیکسپیئر کہتا ہے “زندگی ایک ڈرامہ ہے جس میں ہر انسان اپنا اپنا کردار ادا کر رہا ہے “ہماری سوچیں تو بس لفظ “ڈرامے” میں اٹک چکی تھیں اب کیا تھا اس پر تجربہ کرنے کے لیے ہم نے کباڑ خانے کا رخ کیا۔ تقریبا گھنٹے بھر بعد ہم اپنی مطلوبہ چیزوں کو ایک توڑے میں ڈالے چھت کی جانب چل دیئے۔۔۔ لیکن ہائے رے قسمت ۔۔۔اماں جو شاید کسی سہیلی کے ہاں جا رہی تھیں ہمیں توڑے کے ساتھ چھت پر جاتے دیکھ کر چلائیں ۔۔۔اے کدھر جا رہی ہو۔۔۔؟ ہاتھ میں کیا ہے۔۔۔؟ ہائے یہ توڑے میں کیا بھر کر لے جا رہی ہو۔۔۔؟ کیا کرنے جا رہی ہو۔۔۔؟اماں کے ایک دم سوالوں کی بارش میں ہم تو نہا ہی گئے۔۔۔ اماں میں تو بس۔۔۔۔نہیں بتاو یہ چوروں کی طرح چھپ کر کدھر جا رہی ہو۔۔۔؟ اب اماں کی آواز اونچی ہو چکی تھی اسی وجہ سے ہم بوری کو پکڑے الٹے قدموں اماں کی طرف بھاگے۔۔۔اماں کیا کر رہی ہیں آہستہ بولیں ناں۔۔۔ اگر دادو نے سن لیا نا تو میری شامت آجائے گی۔۔۔ چور، چور کوئی بچاؤ ہمیں۔۔۔ارے بچاؤ کوئی۔۔۔چور سب کچھ لوٹ کر لے گئے اندر سے دادو اپنی لاٹھی کو بغل میں دبائے تقریبا بھاگتے ہوئے باہر آئیں ۔۔۔جنہیں دیکھ کر ہم نے اپنا ماتھا پیٹ لیا ۔۔۔ارے بہو چور کدھر گئے اور کیا کیا لے گئے؟؟ اور تم دونوں ایسے کھڑی ایک دوسرے کا منہ کیا دیکھ رہی ہو؟؟ چلا کیوں نہیں رہی؟؟ میرے ساتھ تم بھی زور زور سے چلاو تاکہ لوگ ہماری مدد کے لیے اکٹھے ہو سکیں۔۔۔ دادو آپ غلط سمجھ رہی ہیں ایسی کوئی بات نہیں یہاں پر کوئی چور نہیں آئے ۔۔۔ارے کیسے نہیں آئے ابھی تو بہو نے کہا چور، چور۔۔۔ کیوں بہو؟؟ دادو اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو زبردستی بڑا کرکے اماں سے پوچھ رہی تھیں ۔۔۔جی ماں جی۔۔۔ میں نے چور اس محترمہ کو کہا جو۔۔۔۔ ارے ایسے کیسے تم نے ہماری پیاری پوتی کو بھی کو چور کہا۔۔؟؟ دادو نے لاٹھی کو بغل سے نکال کر زور سے زمین پر مارتے ہوئے کہا !۔۔۔اور ہم دادو کے اس پیار بھرے سٹائل پر دل ہی دل میں صدقے واری جا رہے تھے ۔۔۔اماں جی آپ کی یہ پیاری پوتی اس بھرے بورے کے ساتھ جس میں نہ جانے کیا ہے اسے لئے چوروں کی طرح چھت پر جا رہی تھی۔۔۔ پوچھیں اس سے کیوں جا رہی تھی ۔۔؟؟دادو میں تو ویلیم شیکسپئیر ۔۔۔۔ہائے لڑکی یہ کون ہے ۔۔۔؟؟دادو نے ہماری بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔دادو یہ ایک انگریز تھا اور۔۔۔۔۔ اور یہ کہ تم اس سے ملنے چھت پر جا رہی تھی۔۔۔ ہائے اللہ یہ سب سننے کے لئے تم نے مجھے بوڑھی عورت کو اب تک زندہ رکھا۔۔۔ ہائے اللہ جی میں کدھر جاؤں ۔۔۔۔کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا اس لڑکی ۔نے۔ ۔۔ دادو لاٹھی کو زمین پر ادھر ادھر مارتی اور بائیں ہاتھ کو سر پر رکھے بین کئے جا رہی تھیں۔۔۔۔ دادو میری بات تو سنیں آپ غلط سمجھ رہی ہیں میری پوری بات تو سن لیں۔۔۔ ہمارا انداز منت والا تھا۔۔۔ کیا سنو پوری بات۔۔۔؟ ہاں بتا مجھے۔۔۔لیکن مجھے پتا ہے اب تو اس کے ساتھ شادی کی بات کرے گی ناں۔۔۔ ارے اپنی پھوپھی کا بھی نہیں سوچا کتنے ارمانوں کے ساتھ اگلے ماہ تیری رخصتی کرنے آ رہی ہے۔۔۔ ہائے اللہ میں تو بھرے بڑھاپے میں لٹ گئی۔۔۔ دادو پہلے والا سٹائل اپناتے ہوئے پھر سے بین کرنا شروع ہوچکی تھیں۔۔۔ بس دادو بس۔۔۔ہم نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں کچھ بھی کہنے سے روکا۔۔۔مزید کوئی بات نہیں کہیں گئی آپ۔۔۔ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا دادو خاموش ہوئیں۔۔۔ تو ہم نے غصے سے بورے کو زمین پر الٹ دیا۔۔۔ اماں اور دادو حیرانگی سے زمین پر پڑے سامان جس میں سیمنٹ اور ریت کے شاپر، لوٹا ،ٹوٹی ہوئی دیچگی، چھ عدد اینٹیں اور پھٹے ہوئے دستانے شامل تھے کو دیکھے جا رہی تھیں۔۔۔ ہم نے آج ایک کتاب میں زندگی کے بارے میں پڑا تھا جس میں مشہور انگریز رائٹر ویلیم شیکسپیئر کا کہنا ہے کہ” زندگی ایک مکمل ڈرامہ ہے جس میں ہر انسان اپنا اپنا کردار ادا کر رہا ہے” ۔۔۔
اور اسی پر تجربہ کرنے کے لیے ہم اس سازو سامان کے ساتھ چھت پر جا رہے تھے تاکہ چھت کے دو کارنر پر چھوٹے سے مورچے بنا کر لوگوں کے گھروں کا جائزہ لے سکیں کہ کون، کون اور کیا، کیا زندگی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔۔؟؟لیکن نہیں ہم تو ٹھہرے سدا کے پاگل۔۔۔ جو اپنے گھر کو چھوڑ کر دوسروں پر تجربہ کرنے جا رہے تھے ۔۔۔ اور دادو آپ کو تو ڈرامہ Queen کا ایوارڈ ملنا چاہیے ۔۔۔ہم نے تالی بجاتے ہوئے دادو کو داد دی۔۔۔ ہائے صدقے جاؤں اپنی پیاری پوتی کے جو انتہا کی معصوم اور شرم و حیا والی ہے مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا میری دھی ایسی حرکتیں نہیں کرتی۔۔۔لیکن یہ جو تیری ماں ہے ناں اللہ ہی اس سے بچائے۔۔۔۔ دادو اب اماں کو نشانے پہ رکھے پھر سے شروع ہو چکی تھیں۔۔۔اس سے پہلے کہ دادو اور اماں کی ڈرامے بازی کا دی اینڈ ہوتا ۔۔۔ مکمل طور پر انہیں نظر انداز کرتے ہوے ہم اندر جا چکے تھے کیونکہ ہم سمجھ گئے تھے کہ زندگی واقع ایک ڈرامہ ہے جس میں ہماری ڈرامہ Queen دادو اہم کردار ادا کر رہی ہیں ۔۔۔۔
.
*************