Dehati khawateen ki kahani article by Anwar Sultana

articles

دیہاتی خواتین کی کہانی

تحریر:انورسلطانہ

ہمارے اس طبقاتی سماج میں مرکزی طور پر 3 طبقات بستے ہیں، ایک وہ جن کو جیب میں پیسے رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور ان میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جن کو اپنے بینک بیلنس کا بھی پتا نہیں ہوتا، یوں سمجھیے کہ ان لوگوں کی ایک الگ دنیا ہےپھرآتا ہے مڈل یا متوسط طبقہ جو بالکل منجدھار میں ہی پھنسا رہتا ہے، نہ اِس کنارے پر نہ اُس کنارے پر، اسے بس سفید استری شدہ کپڑے ہی نصیب ہوتے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں جو تیسرا طبقہ بستا ہے، وہ فقط بستا ہی ہے۔ اس کے پاس ہوتا کچھ  بھی نہیں ہے، نہ بجلی، نہ ہسپتال، نہ کوئی اور زندگی کی سہولت۔ ایک زمانے میں پینے کا پانی آتا تھا، اب وہ بھی کبھی کبھار نصیب ہوپاتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ ان کے حالات میں امیدوں اور خوابوں کی زیادتی جبکہ محرومیوں کی بہتات ہوتی ہے۔اوپر ہم نے جن طبقوں کاذکر کیا ہے ان میں سے تیسرا طبقہ  بہت مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں اور یہ مشکلات زیادہ تر دیہاتوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ مسائل مردوں سے زیادہ خواتین کو پیش آتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے رورل ایریاز میں موجود عورتیں رول ماڈل ہیں، عزم و ہمت، برداشت، حوصلے اور صبر کا مجسم پیکر ہیں۔ دیہی علاقوں میں موجود زیادہ تر خواتین کھیتی، باڑی اور سینےپرونے کے کام سے وابستہ رہتی ہیں، پسماندہ طبقات میں شامل یہ عورتیں مردوں کے مقابلے کہیں زیادہ کام کرتی نظر آتی ہیں، بچوں کو بھی سنبھالتی ہیں، اور گھرگرہستی کو بھی!!

مگر ہمارے ہاں ضرورت جس بات کی محسوس کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ د یہی علاقوں میں موجود مرد وں کی اکثریت کو سنبھالا جائے، وہ سنبھل جائیں تو پھر  چا ئے، سگریٹ اور گٹکا  وغیرہ کھانے او ر گلی، کوچوں اور چوراہوں پر ہر وقت کی گپ،شپ لگا نے میں خاصی کمی واقع ہو جائے  گی اور انصاف کے تقاضے بھی پورے ہونگے، بھئی یہ نا انصافی ہی تو ہے کہ عورتیں محنت مشقت  بھی کریں، گھر س بھی نبھالیں، بچوں کی پرورش  بھی کریں اور پھر اپنے فارغ شوہروں سے جوتے بھی کھائیں!!  ناانصافی سے یاد آیا کہ پسماندہ علاقوں میں بسنے والی خواتین شروع ہی سے حقوق کی فراہمی کے معاملے میں بڑی بدقسمت نظر آتی ہیں،  بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت حاصل رہتی ہے، نہ وہ اچھا کھا، پی پاتی ہیں نہ  انہیں بہتر ماحول میسر آتا ہے، لڑکیوں کو یا تو تعلیم دلوائی ہی نہیں جاتی یا  پھر چار،چھ کلاسیں پڑھوا کر چھوٹی عمر  میں ہی اُن کی شادیاں کر دی جاتی ہیں،اور پھر ہر سال بچوں کو جنم دیتی ہیں اور آخر میں  یہ دیہی خواتین خون کی کمی، او ر سرکاری اسپتالوں میں بدانتظامی کی زیادتی کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہتی ہیں، اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ اچانک سے سرکاری اسپتال بیچ میں کہاں سے آ گئے؟

وہ  اس لیے آگئے کہ آپ لوگوں کو تو پتہ ہی ہے کہ غربت زدہ علاقوں میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے، دیہی علاقوں میں موجود کلینک نما اسپتال کھانسی، نزلہ، بخار کا علاج تو شاید کردیتے ہوں لیکن بڑی، بڑی جان لیوا بیماریاں غریبوں کی جان لے کر ہی ٹلتی ہیں۔

گھر سے معاشرہ تک محیط خواتین کے کردار کو فراموش کرنے والی اقوام اپنی نسلوں کی مثالی تربیت سے نا صرف محروم رہتی ہیں بلکہ ملکی پیداواری وسائل سے بھی پوری طرح استفادہ نہیں کر پاتیں۔ نتیجتاً گھر اور معاشرہ دونوں پوری طرح پنپ نہیں پاتے اور جہالت، غربت، اموات، صحت کے مسائل، تشدد، یک شخصی فیصلوں اور ان جیسے بیسیوں مسائل کا شکار رہتے ہیں۔

تہذیب اور تمدن کے آغاز سے ہی  متعدد معاشروں میں خواتین ہمیشہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی آئی ہیں۔ خواتین اپنے خاوند،بھائی،والد اور بیٹوں کے ہمراہ جانوروں کو چرانے ،ا ن کے لیے چارے کا بندوبست کرنے اور ان کا چارہ خشک کرنے کے فرائض سر انجام دیتی رہی ہیں۔صنعتی انقلاب کے بعد اس بات کی ضرورت زیادہ شدّت سے محسوس کی جانے لگی کہ معاشرے کی ترقی میں خواتین کے کردار کو زیادہ وسیع کیا جائےلیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ انسانی سماج میں ابتداء ہی سے عورتوں کے مختلف معاملات میں کردار ادا کرنے اور شمولیت کے حوالے سے اصول و نظریات قائم کیے گئے ہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں بھی خواتین کے کردار کوخاص طور پر زرعی شعبے میں مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔

خواتین کے ان دونوں سطح کے کردار کا اگرچہ دنیا بھر میں مکمل طور پر کہیں بھی اعتراف نہیں کیا جاتالیکن ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس کردار کے ادراک کی صورتحال یقیناً مختلف ہے۔ ایسی ہی تقسیم شہری اور دیہی خواتین کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سنگینی کے حوالے سے بھی موجود ہیں۔ خواتین شہری ہوں یا دیہی صنفی عدم مساوات کا تو شکار ہیں ہی لیکن دیہی خواتین کی زندگی اکثر ترقی پذیر معاشروں میں جبرِ مسلسل کا دوسرا نام ہے۔

2007ء میں دنیا کی شہری اور دیہی آبادی کے برابر ہونے کے بعد شہری آبادی کے تناسب میں اضافہ ہنوز جاری ہے۔ لیکن دیہی آبادی آج بھی قابلِ ذکر تناسب کی حامل ہے اور اس میں خواتین کا تناسب بھی تقریباً50 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ جن کے دیہی معاشرت میں نمایاں کردارکا اعتراف کرنے اور اُن کو درپیش مشکلات کے ازالہ کی جانب عام اور خواص کی توجہ مبذول کروانے کے لئے اقوام متحدہ ہر سال 15 اکتوبر کو دیہی خواتین کا بین الاقوامی دن منا تا ہے۔

لیکن اس دن کو منانے سے خواتین کو ان کے بنیادی حقو ق حا صل ہونگے؟

اگر ہم کچھ بات پاکستان میں حالیہ بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب پر بھی کر تے  ہیں، سیلاب سے پسماندہ دیہی علاقوں میں ہزاروں مکان زمین بوس ہوگئے، بے گھر سیلاب متاثرہ خواتین کی زندگی ڈھے جانے والے اُن کے جھونپڑی نما آشیانوں میں پہلے ہی اذیتوں اور مصیبتوں کا شکار تھی، پھر جب وہ کچے گھر بھی نہ رہے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اب اُن بے بس، مجبور اور لاچار عورتوں پر کیا بیت رہی ہوگی!!  خاص طور پر جِلد اور پیٹ سے متعلق بیماریاں پھیل رہی ہیں، واٹر، سینی ٹیشن سے جُڑے معاملات جنم لے چکے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق صرف سندھ میں ساڑھے نو ہزار سے زائد خواتین حاملہ ہیں جبکہ کیمپوں میں جنم لینے والے بچوں کی تعداد چار ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے، سیلاب متاثرین میں موجود کم عمر بچے، بچیوں کی شادیاں کروائے جانے کی خبریں بھی سننے میں آرہی ہیں، ایک انگریزی اخبار میں لڑکیوں کے بیچے جانے سے متعلق خبر شایع ہو چکی ہے، اور سکھر کی وہ 6 سالہ معصوم بچی تو آپ کو یاد ہی ہوگی کہ جو بھوک اور بیماری سے لڑتی جنگ ہار گئی تھی لہذا ان کا سالانہ عالمی دن منانے سے بہتر ہے کہ ان کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جو نہ صرف ان کی زندگی میں بہتری لا سکیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بہترین مستقبل فراہم کر سکیں۔

.

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *