Waqt badal gaya article by Shaneela Zahidi

articles

“”وقت بدل گیا “”

از قلم : شنیلہ جبین زاہدی

مذہبی اسکالرہ

بارسلونا اسپین

وقت بدل گیا ہے ، زمانہ بدل گیا ، ان جملوں اور سوچ نے جو تباہی لائی ہے اس کو احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے ۔
گلی گلی جو آگ لگی ہے اس نے اسلامی طرز حکومت کی بنیادیں ہلا دی ہیں ۔ اس کے لئے کس کو قصور وار ٹھہرایا جائے۔ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام کے دئیے گئے ٹیکسوں کی بدولت ایوانوں میں بیٹھنے والوں سے اک بیٹی سوال کرتی ہے کہ سوائے وقت کے ضیاع کے کوئی لائحہ عمل تیار کیا ہے تو ہمیں دکھاؤ ۔ اس پہ جو عمل درآمد ہوا ہے تو وہ بھی دکھاؤ ۔ آئین کے اندر جو احکام لکھے گئے ان پہ کام کیا ہے تو دکھاؤ ہمیں ۔ اگر نہیں کر سکے تو ان ایوانوں کے وقار کو مزید پامال کیوں کئے دے رہے ہو ۔ آج ہماری تعلیمات ہوتے ہوئے ہمارے نوجوان اقوام مغرب سے متاثر دکھائی دیتے ہیں ۔ آج وہ ان کا طرز زندگی اپنانا چاہتے ہیں ۔ اگر تمہارے عہدے پہ ہونے کا ذرا سا بھی اثرورسوخ نہیں تو وہ جگہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے ۔ ایک بار اس دور کے ایک نڈر مجاھد کی طرف بھی نظر ڈراؤ تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ تمہاری سوچ کی گنگا کس سمت بہہ رہی ہے ۔ اسلامی ملک ترکی کے صدر رجب طیب اردگان جیسے بہترین اور بے لوث لیڈر نے اپنی قوم کی نسل کو بچانے کےلئے کیا لائحہ عمل تیار کیا ، شاید آپکی عقل سلیم میں یہ بات آ جائے کہ اس رجل عظیم نے قرآن کی تعلیمات کو قوم کے ہر فرد پہ لازم قرار دیا اور ملکی آئین کو فقط قرآں و سنہ کے مطابق چلایا ۔ اس بطل عظیم نے طاغوتی طاقتوں کو یہ پیغام دیا کہ ہمارا منشور اور طرز فکر صرف اسلام ہے ۔

دوسری طرف ہمارے ملک عظیم کے امراء وہ ہیں جو ملکی اثاثے سمیٹے مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں اور مظلوم مزید ظلم کی چکی میں پسا چلا جارہا ہے ۔ آج ایک تصویر دیکھی جس میں آٹے کے ایک تھیلے کے لئے غریب دوسروں کے پاؤں کے نیچے روند دیا گیا اور اسکی لاش وہیں اکڑ گئی اور گھر بچے انتظار میں گھل رہے تھے کہ ابھی بوڑھا باپ کندھے پہ آٹا رکھے آتا ہوگا ۔ ہاں ! وہ آ تو گیا لیکن دوسروں کے کندھوں پہ سوار ، بے جان وجود لئے آیا ۔ جب صحن میں اسکی لاش رکھی تو بیٹی لپٹ کے پوچھتی ہے بابا آٹا لے آئے ہو ! ، بھوک لگی ہے ۔ ماں انتظار کر رہی ہے لیکن بابا بولتا ہی نہیں، بیٹی کے لاکھ آواز دینے پہ بھی بابا نہیں اٹھتا۔ تم نے وہ تکلیف محسوس کی جب بیٹی کا معصوم دل خوف سے کانپ رہا تھا ۔ کبھی وہ اذیت محسوس کی ہے ! کہ پردے دار خواتین اور خوددار بیٹیاں آج آٹے کی ایک تھیلی کےلئے مردوں کے درمیان دھکے کھا رہی ہیں انھیں کس کرب سے گزرنا پڑا ہوگا ۔آج بہت بڑی بڑی انجیئوز چلانے والی نام نہاد خواتین جو حقوق نسواں پہ لمبے لمبے بھاشن دیتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا اسلامی تعلیم یا اسلام سے کوئی تعلق دکھائی نہین دیتا ۔ میرا یہ مطالبہ ہے کہ نکلیں ذرا دیر باہر اور لائن میں لگ کے سخت سردی کے عالم میں کھائیں دھکے ۔ پھر محسوس کریں وہ اذیت جو ان بیٹیوں نے سہی ۔ لیکن تم تو وہ خواتین ہو ، جنکو ہر چیز پلیٹ میں سجا کے پیش کر دی گئی ۔ پھر تم نے اپنے شوق اور اپنی بوریت ختم کرنے اور اپنے آپ کو سوشل بنانے کے چکر میں یہ سارا ڈرامہ رچا لیا ۔ آج اونچے عہدے ، نوبل ایوارڈز اور عزتوں کی چادریں انکے سروں پہ سجا دی گئیں ، جنکو اس چادر کی پاسداری کا ذرا خیال نہیں ۔ اونچے اونچے شملے اور جاگیرداروں کی باعزت بیٹیاں ٹک ٹاک اور دوسری ایپس پر ناچ ناچ کے اپنے باپ دادا کا نام روشن کر رہی ہیں اور پورے عالم اسلام میں ایک مسلم خاتون کا جو رول ماڈل پیش کر رہی ہیں اس سے مزید سر شرم سے جھکتے جا رہے ہیں ۔ عورت کو عدالتوں کے راستے دکھانے والی یہ خواتین وہ ہیں جنکو غریب کی غریبی کا آج تک نہ تو اندازہ ہے نہ یہ کبھی کر سکیں گی ۔ حقوق نسواں کے نعرے پہ پاکستان کے اندر بے حیائی اور بد عنوانی کا جو طوفان بدتمیزی انہوں نے شروع کیا وہ کب تھمے گا یہ تو کسی کو علم نہیں۔ کیونکہ جن خواتین کا حوالہ دے کے یہ باہر نکلتی ہیں وہ خواتین تو آج تک وہیں کی وہیں ہیں ۔ نہ ان کا آج بدلہ نہ کل بدلنے کی امید دکھائی دیتی ہے ۔ وہ خواتین تو اسی جگہ روز مار کھاتیں اور اپنے گھروں کو چلاتی ہوئیں ابدی نیند سو جاتی ہیں۔

” قبریں ہی جانتی ہیں اس شہر جبر میں
مر کر ہوئے ہیں دفن کہ زندہ گڑھے ہیں لوگ


لیکن ان میں سے ایک بھی خاتون آج تک ان ایوانوں اور ان اجلاس میں شامل نہیں ہوئی ۔ میں زیادہ دور نہیں جاتی ! آپ قارئین خود اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو وہ خواتین جو ان حالات کا شکار ہیں وہ وہی آپ کے اردگرد ویسی ہی زندگی گزارتی ہوئی دکھائی دیں گی ، آگ کی بھٹی کے لئے اینٹیں بناتی ہوئیں، تنور میں روٹیاں لگاتی ہوئیں ، سارا دن مزدوری کے باوجود شام کو نشے میں دھت شوہر کے ہاتھوں پٹتی ہوئیں اور اک بھی حرف شکایت زبان پہ لائے بغیر صبح پھر اپنے کام مین اسی تندہی سے جتی ہوئیں ۔ اگر ایسا ہے تو ثابت ہوا کہ یہ صرف مشہور ہونے کی ہوس اور پاکستان میں بے راہ روی پھیلانے کی ایک سازش کے سوا کچھ بھی نہیں۔

تاریخ کے اوراق کھولو تو تمہیں معلوم ہو کہ جو اسلام کی خواتین تھیں انکا کیا کردار تھا ۔ تمہیں خاتون اول سے لے کر ہر ہر خاتون میدان جہاد اور گھر کے اندر ایک لازوال داستاں سمیٹے نظر آئے گی جسکی منشاء نہ تو کبھی ریشم کا باریک لباس رہا ہے اور نہ تخت و تاج انکی خواہش رہی ہے ۔ وہ کھدرے لباس میں اور مٹی پہ سونے والی بے مثل کارنامے انجام دے کے گئیں اور رہتی دنیا تک ان کا نام گونجتا رہے گا ۔ مجھے اسلام کی ایک بہترین عورت ” سیدہ الحرہ ” کا کردار بھی بہت متاثر کر گیا ۔ جس نے ہسپانیہ کے مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنانے اور انکار کی صورت میں انھیں موت کے گھاٹ اتارنے کا بدلہ لینے کے لئے سمندروں میں دشمنوں کا مقابلہ کرنے کےلئے ڈٹی رہیں۔ اس نڈر خاتون نے ہمت ہارنے اور واویلا مچانے کی بجائے سمندروں کا رخ کیا اور کئی سال تک سپین اور پرتگال کے یہودیوں کا ناک میں دم کئے رکھا ۔ اس بہادر خاتون کا نام آج بھی یہودیوں کے لئے ایک سبق آموز کردار ہے جو انھیں بھلائے نہیں بھولتا ۔ اسلام کی تاریخ آج بھی ان بہادر خواتین کے ناموں سے بھری پڑی ہے تاریخ اٹھاؤ اور پڑھو، حضرت عمارہ ، حضرت سفیہ، حضرت خولہ ،حضرت اسماء ہر ہر کردار اپنے اندر ایک لازوال داستاں سمیٹے ہوئے ہے ۔ آج کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قربانی کو کیسے بھلا پائیں گے جو اپنوں ہی کی بے رحمی کی بھینٹ چڑھ گئی اور دوسری طرف ایک غدار زئی کو ایوارڈز سے نواز دیا گیا ۔ آج تک اس مسئلے کا کوئی صد باب نہیں کر پائے یہ نام نہاد ایوان صدر ۔
ایک وہ وقت بھی تھا جب ایک بیٹی کے خط پہ محمد بن قاسم جیسا اسلام کا بہادر و نڈر بیٹا میدان عمل میں آیا اور کفر کی صفوں کو چیرتا ہوا شہادت کے منصب پہ فائز ہوکے تاریخ کو ایک انوکھا باب دے گیا ۔
بڑے شرم سے کہنا چاہوں گی کہ یہ عدالتیں بھی صرف انہی بااثر شخصیات کےلئے کھلتی ہین جہنوں نے سر عام ملک پاکستان کے قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ کیا ابھی تک ایسا ہوا ہے کہ جن بیٹیوں کی عزتیں تار تار کی گئیں ۔ انکے لئے رات کے وقت عدالت کھلی ہو اور ظالم کو اس ظلم کی سزا دی گئی ہو ۔ منصف عدالت سے پوچھنا ہے کہ کل کو یہی عمل تمہارے گھر کی عزت کے ساتھ دہرایا گیا تب بھی یہی رد عمل ظاہر کرو گے جو کہ آج کر رہے ہو !!۔
آج اپنے ملک کے آئین کی پاسداری کا عہد کرنیوالوں کا حال دیکھ کے سر پیٹ لینے کو دل چاہتا ہے ۔ کیا یہ تھیں ہماری تعلیمات ؟ کیا یہ تھا وہ منشور جو خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پہ عالم اسلام کے سب سے پہلے عظیم سپہ سالار سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا ۔ کیا یہ عمل تھا اس دور کے پہلے امیر سیدنا صدیق اکبر کا ، کیا یہ دستور قائم کیا تھا جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے،!! کیا ایسا طرز حکومت قائم کیا تھا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ نے ! یقینا ایسا نہیں تھا تو پھر آج کیا ہوگیا کونسی قیامت ٹوٹ پڑی کہ آئین بدلنے پڑ گئے ۔ بے حیائی کی انتہا ہوگئی کہ ایک بزنس کرنے کے لئے اشتہار پہ عورتوں کی نیم عریاں تصاویر لگانی پڑھ گئیں، کوئی بھی بزنس عورت کی بے حرمتی کے بغیر ممکن نہیں رہا ۔

دل بینا بھی خدا سے کر طلب
کہ آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

ملک پہ جو افتاد ٹوٹ رہی ہیں ان میں قصور وار ملک کا ہر فرد ہے ۔ اپنے اپنے گریباں میں جھانک کے دیکھیں کہ جو ذمہ داری آپ پہ لگائی گئی کیا وہ پوری ادا ہو رہی ہے ۔ ملک کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھریلو معاملات پہ بھی سخت توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ گھر کی بیٹیوں کو پھر سے وہی سبق پڑھائیں جو جان کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لخت جگر سیدہ کونین سلام اللہ علیھا کو پڑھایا تھا اور ان کی کوک سے جنم لینے والوں نے بھی رہتی دنیا کے نوجوانوں کےلئے ایک لازوال داستاں رقم کی تھی ۔ اس منفی سوچ اور لبرٹی کو ختم کر دیں کہ “”زمانہ بدل گیا “”وقت بدل گیا “”” ۔ اپنی آنے والی نسل کو اس آزاد سوچ سے بچائیں جو انھین تباہی کے دہانے پہ لئے جا رہی ہے اور وہ اپنا موازنہ مغرب سے کرنا شروع ہوگئے ہیں ۔ ایک بات یاد رکھیں کہ وقت بدل جائے یا زمانہ بدل جائے۔ قرآن کی تعلیمات وہی کی وہیں ہیں اس کا اسلوب اور منشور وہی ہے جو آج سے 14 سو صدیاں پہلے تھا۔ خدارا اگر اپنی اور اپنے ملک کی فلاح چاہتے ہیں تو واپس مڑ جائیں۔ دامن اسلام کی چھاؤں میں پناہ لینے کی کوشش کریں ۔ اپنی اولاد کو عثمان و علی کے قصے پھر سے سنائیں ۔ انھیں بے حیا بنانے کی بجائے با کردار اور با عمل بنائیں اور اس سب کے لئے ہمیں واپس اپنے اسلاف کی زندگیوں کو یاد کرنا ہوگا ۔ آگے نکلنے کی جستجو نے ہم سے خدا اور رسول کا دامن چھڑا دیا۔

اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

*************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *