Moashi taraqi kese mumkin hai by Muhammad Yaseen

معاشی ترقی کیسے ممکن ہے

تحریر: انشاء محمد یسین

معاشی ترقی ایک پالیسی ہے ۔ جس کا مقصد روزگار کے مواقع پیدا کر کے غربت میں کمی لانا ہے ۔ غربت ایک لعنت ہے جو انڈان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کر دیتی ہے ۔ فولت کا ایسا منصفانہ تقسیم کا نظام وضع کرنا کہ دولت زیادہ سے ذیادہ گردش میں رہے اور سب کو روزگار کے موقع مل سکیں۔ معاشرہ امن اور خوشحالی کا گہوارہ ہو کسی بھی ملک کی معاشی ترقی ہے۔
معاشی ترقی سے قومی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ سماجی اور اداراتی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں جن کے ذریعے ترقی کا عمل جاری رہتا ہے۔
ماہرین معاشیات معاشی ترقی کی تعریف یوں کرتے ہیں :” معاشی ترقی ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت مختلف قوتیں یعنی نئے پیدااور وسائل کی دریافت ، سرمایہ کی اشیا میں اضافہ ، فنون و پیدائش میں ترقی ، ابادی کی مہارت میں اضافہ ہے۔ ” لیکن بعض معاشیات دانوں کے خیال سے معاشی ترقی اس وقت واقع ہوتی ہے جب لوگوں کا معیار زندگی پہلے سے بلند ہوتا جائے۔ پاکستان کی معیشت نہائت خطرناک صورت حال سے دوچار ہے ۔ مسلسل مالیاتی اور بجٹ خسارہ ، حکومت کا اندرونی و بیرونی قرضوں پربڑھتا انحصار ور برامدات میں جمود جیسے بنیادی مسائل ہیں ۔2013 میں انتخابات کا سب سے بڑا مدعا بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تھا ۔ 2018میں انسداد کرپشن کا نعرہ الیکشن کامقصد تھا اور 2023 میں انتخابات کاسب سے بڑا مدعا معیشت کی بحالی ہو گا ۔ حکومت کو وقت سے پہلے گرانے کی باتیں بھی اسی جواز کے تحت کی گئی۔
یہ مسائل نہ تو راتوں رات پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی انھیں راتوں رات دور کیا جا سکتا ہے ۔
معاشی بحران سے بچنے کے لیے معاشی منصوبہ بندی نہائت ضروری ہے معاشی بحران سے ملکی معیشت کو ذبردست دھچکا لگتا ہے اس لیے معاشی ترقی انتہائی ضروری ہے ۔ زراعت پاکستان کی معیشت کا اہم شعبہ ہے۔ ملکی امدنی کا زیادہ سے ذیادہ حصہ زرعی شعبہ کی برامدات سے حاصل ہوتا ہے ۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی ابادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زرعی ترقی نہایت ضروری یے لیکن اج کے دور میں پاکستان صرف زراعت پر دارومدار نہیں رکھ سکتا کیونکہ زرعی پیداوار کافی حد تک موسموں کی مرہون منت ہے ۔ ملک کی معاشی ترقی کے لیے صنعت کی ترقی بھی اہم ہے۔ صنعت کم جگہ لے ہر ذیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے ۔ مختلف اشیا اور صنعتی خام مال کو پیدا کر کے ہماری ذیادہ سے ذیادہ ضرورتیں پوری کرتی ہیں اورنئی نئی چیزیں منڈی میں لاتی ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ صنعتی ترقی کے لیے ملکی مال بیچنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی منڈیوں کا خوش اسلوبی سے جائزہ لے، ملک کے اندر عاملین پیدائش کے وافر یا کم ہونے کا جائزہ لے، صنعتی منصوبے کے سائز اور نوعیت کا جائزہ لے ۔ پاکستان ایک وسیع و عریض ملک یے ۔ خدا نے اس ملک کو ہر طرح کر وسائل سے نوازا ہے ۔پاکستان میں قدرتی وسائل زرخیز زمین ، محنتی افرادی قوت، دنیا کا طویل اوہ منظم نہری نظام ابیاشی، فلک بوس پہاڑ، گلیشئرز، سمندر ، صحرا، جنگلات ، میدان ، معدنی اور حیوانی وسائل کی صورت میں موجود ہیں۔ ہمارا ملک قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے ۔ قدرتی وسائل کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی کا دارومدار اس امر پر ہے کہ وہاں کے لوگ کس حد تک ملکی وسائل سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پالستان کی ابادی تیزی سے بڑھ رہی یے یہ بات خوش ائند تب ہو سکتی ہے جب لوگ محنتی ہوں۔ محنتی شہری ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ اور کاہل اور سست شہری ملک پر بوجھ ہوتے ہیں۔ ارسطو کا مقولہ درست ہے کہ:
” اچھے شہری اچھی ریاست اور برے شہری بری ریاست بناتے ہیں۔”
تعلیم اور معاشی ومعاشرتی ترقی باہمی طور پر لازم وملزوم ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ ملکی امدنی میں اضافہ تعلیمی شعبے کی ترقی سے مربوط ہے۔ پاکستان میں ایک طویل عرصے تک اس شعبے پر کماحقہ توجہ نہ دی گئی۔ جس کی وجہ سے اج شرح خواندگی تقریبا60 فیصد ہے جو دیگر ترقی پزیر ملکوں کے مقابلے میں ابھی بھی کم ہے ۔ معاشی ترقی میں افزائش کے لیے ضروری یے کہ شرح خواندگی زیادہ ہو ۔ حکومت تعلیمی مسائل کو سنجیدگی سے لیں۔ Education for all کی پالیسی کو اہمیت دے تاکہ تعلیمی گراف اوپر چلا جائے اور ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کے صف بہ صف کھڑے ہو سکیں ۔ اعلی تعلیم کے فروغ کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا قیام ، سرکاری اور نجی شعبے کی شراکت عمل میں لانا، پرائمری سطح پر لازمی اور مفت تعلیم مہیا کرنا ، پرائمری مڈل اور پھر ہائی سکولوں کی سطح پر درسی کتب کی مفت فراہمی کو یقینی بنانا، نصاب کی سائنسی بنیادوں اور مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر تشکیل نو کرنا، تمام تعلیمی منصوبوں میں تعلیم کے میرٹ اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی بلاشبہ حکومت نے کوشش کی ییں لیکن ابھی بھی ضرورت اس بات کی یے کہ تعلیمی شعبے کے لیے قومی امدنی کا ذیادہ سے ذیادہ حصہ مختص کیا جائے۔ معاشی ترقی کے لیے لازمی ہے کہ قیمتوں میں استحکام لایاجائے ۔ اشیا کی رسد میں کمی اور طلب میں اضافے سے قیمتیں بڑھتی ہیں ۔ قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں ہوتی ہے ۔ عوام کی قوت خرید کم ہو جاتی یے اور صارفین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے نیز قیمتوں میں اضافے سے افراط زر کا چکر شروع ہو جاتا ہے ۔ لہزا معاشی ترقی کے لیے ضروری یے کہ قیمتوں میں استحکام لایا جائے اور انھیں مناسب سطح پر برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہر سال سالانہ بجٹ میں ایک کثیر رقم کا مختص کرنا ، خسارے کا سالانہ بجٹ پیش کرنا ، پاکستان کے توازن ادائیگی میں خسارہ ، سرمائے کی قلت ، جدید ٹیکنالوجی کی قلت ، صنعتی ترقی کا کم ہونا اور زراعت پر انحصار زیادہ ہونا ، ملکی ابادی کا تی،ی سے بڑھنا ، سیاسی عدم استحکام ، سرحدوں پر ملکی افواج کے ہر وقت حالت جنگی میں رہنے کی وجہ سے فوجی اخراجات کا بڑھ جانا ، انتظامی امور میں بدنظمی اور بد عنوانی ، ملک میں چور بازاری ، سرد بازاری اور ٹیکس ادا نہ کرنے کا رحجان ، نا مساعد ملکی حالات کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ، دہشت گردی کی لعنت ، لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ، ذرائع نقل وحمل کی کمی ، توانائی ہے ذرائع کا مہنگا ہونا، مختلف حکومتوں کی متضاد صنعتی پالیسیوں کا ہونا ، تعلیم کے مطلوبہ معیار کا فقدان ، بہت سارے علاقوں میں بجلی کا نہ ہونا، پاکستان کی معاشی ترقی میں مائل رکاوٹیں ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے فقدان کی بڑی وجہ مذہب اسلام سے دوری ہے۔ سیاسی دشمنیاں ،پارلیمنٹ میں لڑایاں ، جلسوں جلوسوں میں بد امنی ۔ یہ سب کیا یے ؟ یہ اسلام یے؟ یہ جمہوریت ہے؟ جمہوریت تویہ ہے کہ عوم کی حکومت ،عوام کے لیے، عوام کے ذریعے۔

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

جمہوریت میں عوام کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ حکومت کو گرا بھی سکتے ییں اور قائم بھی کر سکتے ہیں۔ اسلام میں بھی خلیفہ بیک وقت اپنے رب اور عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے ۔ حضرت ابو بکر نے اپنے دور خلافت میں لوگوں سے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ تم لوگوں پر میرا حکم ماننا تب تک فرض ہے جب تک میں رب باری وتعالی اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق فیصلہ کروں ۔ معاشی استحصال کے خاتمے کے لیے علامہ اقبال نے اپنا موقف یوں بیان کیا ! ” اسلامی قانون کے گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حق معاش محفوظ ہو جاتا ہے ۔”

کیا تم نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر

پاکستان کی معاشی ترقی نہایت ضروری ہے ۔ مغربی ممالک اسلام کو ایک مستقل خطرہ تصور کرتے ہیں ۔ وہ فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دے کر ہماری اخلاقی اقدار کر تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ماضی میں بھی معاشی مشکلات اور احساس محرومی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوشلزم اور کمیونزم کے غیر اسلامی نظریات کا پرچار کیا گیا۔ عوام کے ردعمل پر بعد ازاں اسے اسلامی سوشلزم سے بدل دیا گیا۔ حکومت کا فرض ہے کہ معاشی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کرے تاکہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری ہو سکیں۔حضرت عمر نے فرمایا اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک پیاس سے مر گیاتو عمر اس کا ذمہ دار ہو گا۔
حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوم کے معاشی مسائل حل کریں اور ملک کی معاشی ترقی کے لیے مناسب اقدامات کرے ۔ لیکن ہمارے ہاں صورت حال مختلف ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ سیاست کو کاروبار سمجھتا ہے وہ عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کی بجائے ذاتی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ ایک دفعہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والے تازیست خوشحال رہتے ہیں ۔ جبکہ انھیں عوام کی قطعا پرواہ نہیں۔

سر ساحل ضرور اتریں گے اک دن
پرندے راستہ بھولے ہوئے ہیں

(ختم شدہ)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *