تاریخی ورثہ ہماری اجتماعی بے حسی کا شکار کیوں؟
کالم نگار : شاہد مشتاق
چناب کنارے واقع سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال اور وزیرآباد ( گجرانوالہ) کا علاقہ بیلہ سو کےقریب دیہات پر مشتمل ہے یہ سر سبز و شاداب گاؤں ہیں جہاں ہر قسم کی فصلیں پیدا ہوتی ہیں امرود ،لیموں ، لیچی اور پپیتے کے باغات کے لئے یہ زمینیں سازگار ہیں یہاں کی مٹی عام طور پہ ریتلی اور نرم ہے اور دریا کنارے ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ ہمیشہ شدید سیلابی زد میں رہا ہے شائد اسی وجہ سے سمجھا جاتا ہے کہ اس طویل پٹی میں کوئی تاریخی عمارت موجود نہیں ۔
جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے یہ سچ ہے کہ چناب سے اٹھنے والی تند و تیز سیلابی لہروں نے ہمیشہ اس علاقے کو کافی نقصان سے دوچار کیا مگر یہ اکثر مالی و فصلی نقصان ہوتا ہے جبکہ اصل ثقافتی ورثہ خود انسانوں کے ہاتھوں مسمار ہوتا آیا ہے ۔
قیام پاکستان سے پہلے یہ پورا علاقہ بیلہ سکھوں سے بھرا ہوا تھا یہاں سکھوں کی کافی بڑی بڑی آبادیاں تھیں خاص طور پہ برجی سکھاں دی( دوبرجی چندہ سنگھ) ناصرف سکھوں کا سب سے بڑا گاؤں تھا بلکہ یہ ان کا بڑا جنگی مرکز بھی تھا ۔ یہاں کئی قدیم مذہبی عبادت گاہیں تھی ،دوبرجی میں ساڑھے تین سو سالہ پرانا ” گردوارہ ارجن صاحب ” بھی تھا جسے اگست 1947 کے تیسرے عشرے میں مسلمانوں نے مسمار کردیا تھا۔ دراصل بیس اگست1947 کے دن جب ہندوستان سے مسلمان مہاجرین کی لاشوں سے بھری ٹرین وزیرآباد اسٹیشن پہ آکر رکی تو اس کے بعد ردعمل میں اس سارے علاقے میں جتنی بھی ہندوؤں اور سکھوں کی عبادت گاہیں تھیں ان سب کو تباہ و برباد کردیا گیا ان میں کئی قدیم اور تاریخی عمارات تھیں مگر یہ سارا تاریخی ورثہ غصے اور عناد کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
اب اس پورے علاقے میں کوئی تاریخی چیز دیکھنے لائق نہیں بچی صرف کہانیاں اور قصے باقی بچے ہیں ۔
باباجی سلطان( مانے والا کے رہائشی) کی عمر سو سال سے تجاوز کررہی ہے وہ یہیں پیدا ہوئے اور یہیں انہوں نے ساری عمر گزاری انہوں نے سکھوں کو یہاں سے ہجرت کرتے اور مہاجر مسانوں کو انکے گھروں میں آباد ہوتے دیکھا ہے ۔
انہوں نے بتایا “وہ عجیب ہی زمانہ تھا لوگ ٹولیوں کی شکل میں نکلتے اور سکھوں کو لوٹتے, بعد میں جب سارے سکھ دوبرجی چندہ سنگھ ( جسے وہ بار بار برجی سکھاں دی کہہ رہے تھے) اپنے قائدانہ جنگی مرکز پہ جمع ہوگئے تو وہاں بھی گھات لگا کر مسلمان نوجوان ان کا شکار کرتے اور انہیں جان و مال کا نقصان پہنچاتے( آزادی کے وقت قتل وغارت گری میں سکھ اور مسلمان دونوں قوموں نے اپنا حصہ خوب ڈالا تھا) اب اس پورے علاقے میں واحد تاریخی عمارت جامع فریدی ہے جو سائیں غنی والی مسجد کے نام سے مشہور ہے جو قریب ڈیڑھ سو سال پرانی ہے” ۔
سوہدرہ کے قریب گاوں اسلام گڑھ ( پرانا نام رام گڑھ) سے مانے والا گاؤں (جو لویری والا کے پاس ہے) کے کچے رستے پہ شمال کی جانب کچھ ہٹ کر ایک قدیم سرخ اینٹوں والی خوبصورت چھوٹی سی خستہ حال (سائیں غنی والی)مسجد ہے جو قدیم فن تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے چھتوں پر نقش و نگار تھے جو اب ضائع ہوچکے ہیں اس کے خوبصورت مینار اور دروازے پر پرانے انداز کی چھتری بہت بھلے معلوم ہوتے ہیں یہ انتہائی مضبوط عمارت تھی جو اس قدر سیلابوں کا سامنا کرنے کے باوجود پوری شان سے کھڑی ہے اس کے آس پاس گھروں یا آبادی کے نشان نہیں ملتے ، ویرانے میں ایسی عالیشان مسجد کا قیام بڑی عجیب بات ہے قیام پاکستان کے بعد ایک بزرگ سائیں غنی نے کافی عرصہ یہاں ڈیرے ڈالے رکھے اسی لئے اسے سائیں غنی والی مسجد کہا جاتا ہے ۔
ایک بزرگ جاوید اقبال اس مسجد کی دیکھ بھال کرتے ہیں گزشتہ چالیس سال سے یہ مسجد ویران اور نمازیوں سے محروم ہے ۔ بابا جاوید کا کہنا تھا ” میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ میں اس عظیم یادگار کے تحفظ کے لئے کچھ کرسکوں میں بس یہاں ہر شام کو ایک دیا جلا دیتا ہوں ،انتظامیہ کو اس یادگار مسجد کی مرمت کرکے اس قدیم ورثے کو بچانا چاہئے “۔
تاریخی ورثہ آنے والی نسلوں کی امانت ہوتی ہے جسے بہرصورت بچانا نا صرف حکومت بلکہ عام لوگوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے افسوس ہمارے مذہبی تعصب نے بہت ساری قیمتی تاریخی عمارتیں تباہ کر دی ہیں اور آج ان کا نام و نشان تک نہیں ملتا ۔
متعلقہ ذمہ داران کو جلدی حرکت میں آنا چاہئے یہ چھوٹی سی خوبصورت مسجد انتظامیہ کی فوری توجہ کی مستحق ہے بصورت دیگر یہ خوبصورت ورثہ بھی ہماری اجتماعی بے حسی کا ایک اور شکار ہوگی ۔
.
*************